ٹی ایس آر ٹی سی ملازمین کی ہڑتال

   

ہر بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
ٹی ایس آر ٹی سی ملازمین کی ہڑتال
ٹی ایس آر ٹی سی ملازمین کی ہڑتال نے کے سی آر حکومت کے سارے زور کو توڑ دیا ہے ۔ ہڑتال دوسرے دن میں داخل ہوگئی اور تلنگانہ کے دیگر سرکاری ملازمین نے بھی آر ٹی سی ملازمین کے ساتھ اظہار یگانگت کیا ہے ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو معاملہ فہم لیڈر سمجھا جاتا ہے ۔ مسائل کو حل کرنے اور تنازعات کے اٹھنے سے پہلے ہی انہیں ختم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن ٹی ایس آر ٹی سی ملازمین کے ساتھ ان کا رویہ ان کے سخت گیر موقف کو ظاہر کرتا ہے ۔ ہڑتالی ملازمین کی یونین سے بات چیت کرتے ہوئے مسئلہ کی یکسوئی کو یقینی بنانے کی ضرورت تھی ۔ اس موضوع پر چیف منسٹر نے بات چیت ہی گوارا نہیں کی بلکہ وہ راست دھمکیوں پر اتر آئے ۔ ہڑتال کرنے والے ملازمین کو خبردار کیا گیا کہ وہ فوری کام پر رجوع ہوجائیں ۔ چیف منسٹر کا حکم نہ ماننے والوں کو معطل کرنے کی بھی دھمکی دی گئی ۔ بلکہ چیف منسٹر کے حوالے 48,000 ملازمین کو تلنگانہ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن سے برطرف کردینے کا بھی اعلان سامنے آیا ہے ۔ حکومت کی یہ کارروائیاں یا ہٹ دھرمی ، عجلت پسندی کا مظاہرہ معلوم ہوتی ہیں ۔ دسہرہ تہوار کے عین موقع پر آر ٹی سی بسوں کو سڑکوں سے غائب کردینے کا فیصلہ بھی تکلیف دہ تھا ۔ ٹریڈ یونینوں ، تہوار کا موقع اٹھاتے ہوئے ہڑتال کی اور حکومت پر دباؤ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن کے سی آر حکومت نے اس دباؤ کی پرواہ ہی نہیں کی ۔ حکومت کو اس طرح کے سخت رویہ سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ ملازمین کی آواز کو دبانے کی کوشش کے دیگر نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔ ٹی ایس آر ٹی سی کی یہ ہڑتال مسافرین کے لیے بھی بدبختانہ ہے ۔ جے اے سی کو اپنے مطالبہ کی یکسوئی کے لیے کسی اور وقت کا انتخاب کرنے کی ضرورت تھی ۔ ٹی ایس آر ٹی سی کو درپیش مسائل بہت ہی نازک ہیں ۔ اسے 1200 کروڑ کا نقصان ہے اور کارپوریشن 5000 کروڑ روپئے کا مقروض بھی ہے ۔ خسارہ سے چلنے والے کارپوریشن کو حکومت برداشت کرتے آرہی ہے ۔ حکومت ہوتی ہی اس لیے ہے کہ وہ ہر صورتحال کا سامنا کرے اور مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنے وسائل کو بروے کار لائے لیکن ٹی ایس آر ٹی سی ملازمین کے معاملہ میں کے سی آر حکومت کا رویہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ شروع سے ہی اس مسئلہ کو خاطر میں نہیں لارہے ہیں ۔ غیر معینہ مدت کی اس ہڑتال کو ختم کرانے کے لیے فوری اور ضروری قدم اٹھانے کی ضرورت ہے کہ ہڑتالی ملازمین سے بات چیت کرے ۔ لیکن حکومت نے بات چیت کے بجائے ہڑتال سے سختی سے نمٹنے کے لیے متبادل انتظامات کئے جانے کا ادعا کیا جارہا ہے ۔ یہ ملازمین اپنی تنخواہوں میں اضافہ کا مطالبہ کررہے ہیں جو ایک معمول کا مطالبہ ہے ۔ اگر ملازمین کے اس مطالبہ کو ہی غیر منصفانہ قرار دے کر مسترد کردیا جائے تو پھر ناراضگیوں کو مزید ہوا ملے گی۔ حکومت نے اس مسئلہ پر بات چیت کرنے اور غور و خوض کرتے ہوئے کوئی راستہ تلاش کرنے کے لیے کل جماعتی اجلاس طلب کرنے اپوزیشن کے مطالبہ کو بھی خاطر میں نہیں لایا ۔ چیف منسٹر نے اس طرح کا مطالبہ کرنے والوں کو اخلاقی حق نہ ہونے کا بیان دے کر بات چیت کا راستہ ہی مسدود کردیا ۔ چیف منسٹر کے خیال میں آر ٹی سی ملازمین کی یہ ہڑتال ایک سیاسی بلیک میل ہے تو ان کی اس طرح کی سوچ کا کوئی حل ہی نہیں ہے ۔ سیدھی اور کھری بات تو یہی ہے کہ اپوزیشن کے الزام کے مطابق چیف منسٹر نے ٹی ایس آر ٹی سی کو خانگیانے کا خفیہ منصوبہ بنایا ہے ۔ وہ اس طرح کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنی حکومت کے لیے فاتحانہ پسپائی سے دوچار کردیں گے ۔ یعنی وہ اپنی حکومت کے موقف کو کامیاب بنائیں گے اور پارٹی کے لیے خسارہ کا سودا کرلیں گے ۔ ٹی آر ایس کی پالیسی سب کو ساتھ لے کر چلنا اور ہر ایک کو خوشحال بنانا ہے تو یہاں یہ پالیسی جھکولے کھاتے دکھائی دے رہی ہے ۔ جب کسی کام کا توازن بگڑتا ہے تو پھر اس سے جو خرابیاں پیدا ہونے لگتی ہیں یہ وقت آنے پر نقصان ہی پہنچاتی ہیں ۔ حکومت جمود کا شکار ہونے لگتی ہے ۔ ملازمین یا بیوریوکریسی کے ساتھ تصادم کا راستہ اختیار کرنے سے گریز کرنے میں ہی بہتری ہے ۔۔