’’پارلیمانی جمہوریت ‘‘تباہی کے دہانے پر

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

ہندوستان میں گزشتہ آٹھ نو برسوں سے جوکچھ ہورہا ہے ، اس سے نہ صرف اندرون ملک بے چینی کا ماحول ہے، خوف و دہشت ہے بلکہ بیرون ملک بھی ہمارے ملک کی شبیہ شدید متاثر ہوئی ہے۔ ہندوستان کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا اعزاز ہے، لیکن بی جے پی حکومت میں جمہوریت کو جو شدید نقصان پہنچا، اس کی مثال آزاد ہند کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر مودی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ عالمی ایجنسیاں ہماری جمہوری حالت پر افسوس کا اظہار کرنے لگی ہیں چنانچہ حال ہی میں امریکہ سے کام کرنے والی ’’فریڈم ہاؤز‘‘ نامی ایک تنظیم نے ہندوستان کی جمہوریت کا تجزیہ کرتے ہوئے ہماری جمہوریت کو ’’جزوی طور پر آزاد جمہوریت‘‘ قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہندوستانی جمہوریت پوری طرح آزاد نہیں بلکہ جزوی طور پر آزاد ہے اور ہندوستانی جمہوریت کی اس قدر بری حالت پچھلے 8 تا 9 سال میں ہوئی۔ دوسری طرف V-Dem انسٹیٹیوٹ آف سویڈن نے ہندوستان کو ایک Electoral Autocracy سے تعبیر کیا جبکہ اکنامک انٹلیجنس یونٹ کے جمہوری عشاریہ میں ہندوستان کا درجہ گھٹ کر 53 ہوگیا اور اس گراوٹ کیلئے ہماری پارلیمنٹ کے دونوں ایوان اور ان کے ارکان نے اپنا اپنا حصہ ادا کیا۔ ذیل میں راقم کچھ حقائق پیش کررہا ہے جس میں بتایا گیا کہ کس طرح ہندوستانی پارلیمانی جمہوریت تباہ و برباد ہوگئی۔ قارئین بھی حقائق سے متعلق میری فہرست میں اپنے مشاہدات شامل کرسکتے ہیں۔
(1) راجیہ سبھا کی کارروائی سے متعلق قواعد و ضوابط کے قاعدہ نمبر 267 (لوک سبھا میں بھی ایسا ہی قاعدہ ہے جس پر عمل کیا جاتا ہے) کے تحت اپوزیشن ارکان کو عوامی اہمیت کے حامل معاملے پر بحث کرنے مدعو کیا جاتا ہے اور پھر اپوزیشن ارکان ایسے عوامی مسائل کو اٹھاتے ہیں جن پر فوری بحث کی ضرورت ہوتی ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں مذکورہ قاعدہ کا پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں متعدد مرتبہ اطلاق عمل میں لایا گیا تاکہ عوامی اہمیت کے حامل مسائل پر فوری بحث کی جاسکے کیونکہ یہ ایسے مسائل ہیں جن پر فوری طور پر بحث کی ضرورت تھی۔ مثال کے طور پر ہندوستانی علاقوں میں چینی فورسیس کی دراندازی، ہنڈن برگ ریسرچ ایل ایل سی کی رپورٹ وغیرہ وغیرہ لیکن افسوس صد افسوس کے عوامی مفاد کے حامل اور فوری بحث کے متقاضی ان مسائل پر کرسیٔ صدارت نے ہر تحریک کو مسترد کردیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں کیا گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جہاں تک ہندوستانی پارلیمنٹ کا سوال ہے، اس میں فوری عوامی اہمیت کا کوئی معاملہ نہیں ہے جس پر اس دن کے کام کو ایک طرف رکھ کر بحث کرنے کی ضرورت ہو۔ چین دراندازی کرے یا پھر ہنڈن برگ اپنی رپورٹ میں معاشی بدعنوانیوں کو بے نقاب کرے، آپ کو یہ یقین کرنا پڑے گا کہ ہندوستانی عوام بالکل محفوظ ہیں اور ان کی فکر کرنے یا پھر پارلیمنٹ میں ہنگامی طور پر بحث کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔
(2) وزیراعظم ، اگر وہ لوک سبھا کا رکن ہے تو پھر قائد ایوان ہے چنانچہ وزیراعظم نریندر مودی 17 ویں لوک سبھا کے قائد ہیں لیکن وہ بمشکل یا شاذ و نادر ہی دونوں ایوانوں میں موجود رہتے ہیں۔ وہ ہر سال روایتی طور پر صدرجمہوریہ کے خطبہ کے ضمن میں تحریک تشکر پر جواب دیتے ہیں۔ راقم الحروف اس کے سواء وزیراعظم نریندر مودی کی کسی بڑی مداخلت (اہم مسئلہ پر خطاب ؍ جواب) کے بارے میں بات نہیں کرسکتا۔ وزیراعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ میں سوالات کے جواب نہیں دیئے بلکہ عام طور پر ان کی طرف سے کوئی وزیر جواب دیتا ہے (میری تو یہی خواہش ہے کہ ہمارے پاس) اس طرح وقفہ سوال ہو، جیسے ہر چہارشنبہ کو دارالعوام میں ہوتا ہے) اگر مودی کا سابق وزرائے اعظم سے موازنہ یا تقابل کیا جائے تو بلاجھجک یہ کہا جاسکتا ہے کہ پارلیمنٹ کے تئیں مودی کا طریقہ کار ان کا انداز ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو، ڈاکٹر منموہن سنگھ یا اٹل بہاری واجپائی سے بالکل جداگانہ ہے۔ وزیراعظم ’’صدارتی‘‘ بن گئے ہیں۔ اگر وزرائے اعظم صدارتی رہیں اور صدارتی طرز پر کام کرنے لگے تو پھر ہندوستان میں ایک طویل عرصہ تک پارلیمانی جمہوریت باقی نہیں رہے گی۔
(3) آپ کو بتادیں کہ برطانوی دارالعوام سال میں 135 دن اپنے اجلاس طلب کرتا ہے۔ سال 2021ء میں لوک سبھا کے 59 اجلاس منعقد ہوئے جبکہ راجیہ سبھا کے 58 اجلاس ۔سال 2022ء میں لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے صرف چھپن ، چھپن اجلاس منعقد کئے گئے۔ اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اجلاس مسلسل خلل کے نتیجہ میں ضائع ہوگئے۔ ارون جیٹلی کا وہ بیان بہت مشہور ہوا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ رکاوٹ و خلل جائز پارلیمانی چالیں ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ایک سال ایسا بھی رہا جب سارا سرمائی اجلاس ایک وزیر کے استعفے اور مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے مطالبہ پر ضائع ہوگیا۔ اس سیشن میں لوک سبھا نے اس کیلئے مقررہ وقت میں سے صرف 6% وقت استعمال کیا جبکہ راجیہ سبھا نے صرف 2% وقت کا استعمال کیا۔ وہ بھی دراصل دونوں ایوانوں کے کاروبار میں رکاوٹوں اور خلل اندازی کی چالیں استعمال کی گئیں۔ موجودہ بجٹ سیشن (دوسرے حصہ) میں ٹریژری پنچیس نے ہر دن خلل اندازی کی چال اپنائی۔ چند نشستیں اور زیادہ خلل اندازی نے پارلیمنٹ اجلاس کی اہمیت و افادیت کو گھٹا دیا ہے اور خلل اندازی و گڑبڑ کے درمیان جو اجلاس بھی منعقد ہوئے، ان کا مقصد دراصل کچھ بلز کو منظور کروانا تھا (ایسا ماضی میں بھی ہوا اور حالیہ عرصہ کے دوران بھی ہوتا رہا) اور یہ بلز ایک خصوص چال کے تحت بناء کسی مباحث کے منظور کرالئے گئے۔ ایسے میں ہم اس وقت سے غور کرنا شروع کرسکتے ہیں جب پارلیمنٹ کا اجلاس شروع ہوگا اور وہ بھی سال میں صرف چند دن اس کے باوجود کوئی مباحث نہیں بلکہ حد تو یہ ہے کہ بناء کسی مباحث کے گڑبڑ کے بیچ تمام بلز منظور بھی کروالئے۔
بحث کے بغیر پارلیمنٹ
(4) یہ ایک حقیقت ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوان بحث و مباحث کے فورمس ہیں اور ہندوستان کی پارلیمنٹ میں عظیم مباحث ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر سال 1962ء میں ہندوستان اور چین کے درمیان جو جنگ ہوئی، اس میں ہندوستان کو شرمناک شکست ہوئی، جس پر پارلیمنٹ میں زبردست مباحث ہوئے۔ ہریداس مندھرا کمپنیوں کے شیئرس (حصص) میں لائف انشورنس کارپوریشن آف انڈیا کی سرمایہ کاری سے متعلق الزامات پر مباحث ہوئے۔ یہاں تک کہ بوفورس توپوں کی درآمدات سے متعلق جو سنگین الزامات اپوزیشن نے عائد کئے تھے، ان پر کئی مرتبہ زبردست بحث ہوئی۔ شہادت بابری مسجد پر لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں گرماگرم مباحث ہوئے اور ایک اہم بات یہ ہے کہ مباحث بغیر کسی ووٹ کے اختتام کو پہنچ جاتے ہیں۔ پارلیمانی جمہوریت میں حکومت کو مباحث سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ جمہوری حکومتیں ہمیشہ مباحث کے جمہوری طریقہ کار پر عمل کرتی ہیں، لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ موجودہ حکومت اہم ترین مسائل پر بھی بحث و مباحث سے گریز کررہی ہے، باالفاظ دیگر مباحث سے انکار کررہی ہے اور مباحث کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔ ایک قدیم سچائی ہے اور مجھے اس بات کا ایقان ہے کہ حکومت اس خوف میں مبتلا نہیں رہتی کہ وہ راستہ بھٹ جائے گی بلکہ حکومت کو یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ اپوزیشن اس کے خلاف ایسی سچائی منظر عام پر لائے گی جو اس کی بدنامی کا باعث بنے گی، ایسے میں ہمارے ذہن میں یہ سوال گردش کررہا ہے کہ آیا ہندوستان ایک ایسے دور میں داخل ہوگیا ہے جہاں پارلیمنٹ تو ہے لیکن پارلیمنٹ میں مباحث نہیں یعنی بغیر مباحث کی پارلیمنٹ مجھے اسی بات کا خوف ہے اور اگر میرا خوف سچ ثابت ہوتا ہے تو ہمیں اس نتیجہ پر پہنچنا ہوگا کہ پارلیمانی جمہوریت کو الوداع کہنے کی تقریب کا آغاز کا بہت جلد شروع ہوگا۔
(5) اس بات کا تصور کیجئے کہ پارلیمانی اجلاس طلب کیا گیا ہے، یہ بھی تصور کیجئے کہ تمام ارکان پارلیمان گریٹ ہال میں جمع ہیں اور پھر تصور کیجئے کہ ارکان ایک رکن کو صدرجمہوریہ منتخب کرنے ووٹ دیتے ہیں اور امیدوار کی مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی رکن غیرحاضر ہے۔ ایسے میں ملک اس امیدوار کی کامیابی کا عوامی جمہوریت کی کامیابی کے طور پر جشن منائے گا؟ کیا ایسا ہندوستان میں ہوسکتا ہے۔ ہاں ہوسکتا ہے! کیونکہ ہم بڑی تیزی سے ایک جماعت کی حکمرانی کی طرف جارہے ہیں۔ اگر 15 ریاستوں پر ایک جماعت کی حکمرانی ہے اور اگر وہ پارٹی (اور اس کے ثابت قدم حلیف جماعتیں) لوک سبھا کے 362 ارکان اور راجیہ سبھا کے 163 ارکان کو منتخب کروانے کے اہل ہوں تو پھر ہندوستان کو ایک اور ’’عوامی جمہوریہ‘‘ بننے سے کوئی نہیں روک سکتا اور حقیقت یہ ہے کہ اس بات کا خوفناک امکان ہم سے کچھ دور فاصلے پر واقع ہیں۔ بہرحال جب ہندوستان ’’عوامی جمہوریہ‘‘ بنے گی تب ہندوستان میں پارلیمانی جمہوریت اپنی آخری آرام گاہ پہنچے گی۔