پنڈت برج نارائن چکبستؔ کی قومی و وطنی شاعری

   

سید یعقوب شمیم
1857ء کی پہلی جنگ آزادی جسے انگریزوں نے بغاوت کا نام دیا تھا ، کے بعد اگرچہ ہندوستانیوں کے حوصلے تو ضرور پست ہوئے لیکن ان میں حب الوطنی کا جذبہ بڑی شدت کے ساتھ پیدا ہوا۔ پنڈت برج نارائن چکبست ان فرزندان وطن میں سے تھے جن کے خون میں وطن کی محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر موجزن تھا، ، اس ناکام جدوجہد آزادی کے 25 سال بعد ان کی ولادت ہوئی اور 9 برس کی عمر سے ہی انہوں نے شعر کہنا شروع کردیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جبکہ غزل گوئی کو خاصہ عروج حاصل تھا اور حسن و عشق کے موضوعات پر ہی شاعری کی جاتی تھی۔ چکبستؔ نے بھی غزل کی طرف توجہ کی لیکن وہ مروجہ روایتی انداز اختیار نہ کرسکے اور بہت جلد اس نتیجہ پر پہنچ گئے کہ جو پیغام وہ ملک و قوم تک پہنچانا چاہتے ہیں، اس کے لئے موزوں ترین ذریعہ اظہار نظم ہی ہوسکتا ہے۔ اس لئے انہوں نے اپنی شاعرانہ صلاحیت کو قومی اور حب الوطنی کے جذبات سے معمور نظم گوئی پر مرکوز کردی اور اس طرح اُردو شاعری پر اپنا ایک دائمی نقش ثبت کردیا۔ ان کے بارے میں اثر لکھنؤی نے لکھا ہے: ’’صرف چکبستؔ ہی وہ قومی شاعر ہے جس نے کل ہندوستان کے جذبات و نظریات کی بلاامتیاز تفریق مذہب ترجمانی کی ہے‘‘۔
چکبستؔ نے اس امر کو بہت زیادہ اہمیت دی کہ ہندوستانیوں کے دلوں میں مادر وطن کی عظمت جاگزیں کی جائے کیونکہ یہی وہ جذبہ ہے جس کے سبب اس ملک اور سرزمین کو دیگر اقوام اور ممالک کے مقابلے میں امتیاز اور سربلندی حاصل ہوئی۔
ائے خاک ہند تری عظمت میں کیا گماں ہے
دریائے فیض قدرت تیرے لئے رواں ہے
تیری جبیں سے نور حسن ازل عیاں ہے
اللہ رے زیب و زینت کیا اوج عز و شاں ہے
گوتم نے آبرو دی اس معبد کہن کو
سرمد نے اس زمیں پر صدقہ کیا وطن کو
اکبر نے جام الفت بخشا اس انجمن کو
سینچا لہو سے اپنے رانا نے اس چمن کو
سب سوربیر اپنے اس خاک میں نہاں ہیں
ٹوٹے ہوئے کھنڈر ہیں یا ہیں ان کی ہڈیاں ہیں
چکبستؔ نے اپنی نظموں میں وطن کی عظمت کا ذکر کرکے اہل وطن کو اس عظمت پر فخر کرنا بھی سکھلایا اور خاص کر تلخ یادوں کو بھلاکر اپنی شاعری کے ذریعہ ان دلوں میں نئی امنگ اور جوش پیدا کرنے کا حوصلہ دیا اور اپنی شاعری کو صور ِحب ِقومی کا نام دیا۔
اے صور حب قومی اس خواب سے جگا دے
بھولا ہوا فسانہ کانوں کو پھر سنادے
مردہ طبیعتوں کی افسردگی مٹا دے
اُٹھتے ہوئے شرارے اس خاک سے دکھا دے
حب وطن سمائے آنکھوں میں نور ہوکر
سر میں خمار ہوکر دل میں سرور ہوکر
ہمارے ملک کی یہ بدنصیبی رہی ہے کہ اکثر مذہب کے نام پر لوگ یہاں کی پرامن اور خوشگوار فضاء کو مکدر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چکبستؔ کے دور میں بھی ایسا ہی ہوا ایک طرف تو ملک کے عوام میں سیاسی بیداری پیدا ہورہی تھی، تو دوسری طرف فرقہ واریت کا بھوت اپنا بھونڈہ سر ابھار رہا تھا، ایسے میں چکبستؔ نے یہ ضروری سمجھا کہ اپنے نغموں کے ذریعہ اتحاد اور اتفاق کی فضاء بیدار کی جائے اور ایسے لوگوں کو بے نقاب کیا جائے جو فرقہ واریت کا زہر گھول کر ملک کو تباہی اور بربادی کی طرف لے جانا چاہتے تھے۔
نئے جھگڑے نرالی کاوشیں ایجاد کرتے ہیں
وطن کی آبرو اہل وطن برباد کرتے ہیں
بلائے جان ہیں یہ تسبیح اور زنار کے پھندے
دل حق کو ہم اس قید سے آزاد کرتے ہیں
ایک سچے محب وطن کی حیثیت سے چکبستؔ کی یہ دلی خواہش تھی کہ اس ملک کے مسلمان اور ہندو تسبیح اور زنار کے جھمیلوں سے آزاد ہوکر ملک و قوم کی تعمیر میں ایک مثبت رول ادا کریں۔ اس لئے اس نظم میں انہوں نے دونوں گروہوں کو یہ تلقین کی ہے کہ وہ آپسی اختلاف بھلاکر قوم کی کشتی کو اس منجھدار سے نکالنے کی سعی کریں۔
بھنور میں قوم کا بیڑا ہے ہندوؤں ہشیار
اندھیری رات ہے کالی گھٹا ہے اور ہے منجدھار
اگر پڑے رہے غفلت کی نیند میں سرشار
تو زیرِ موج فنا ہوگا آبرو کا مزار
مٹے گی قوم یہ بیڑا تمام ڈوبے گا
جہاں میں بھشم و ارجن کا نام ڈوبے گا
اور مسلمانوں کو کچھ اس طرح مخاطب کیا ہے:
دکھادو جوہر اسلام ائے مسلمانو
وقار قوم گیا قوم کے نگہبانو
ستون ملک کے ہو اس کی قدر تو جانو
جفا وطن یہ ہے فرض جفا تو پہنچانو
نبیؐ کے خلق و مروت کے ورثہ دار ہو تم
عرب کی شان حمیت کی یادگار ہو تم
ہندوستان کا ہر فرد چاہے وہ ہندو ہو کہ مسلمان، سکھ ہو کہ عیسائی، چکبستؔکا مخاطب تھا اور ان کا پیام مذہب و ملت کے فرق سے بلند تھا، اسی طرح انہوں نے قوم کے ایک اور طبقہ یعنی خواتین کی طرف بھی اپنی توجہ کی ایک نظم میں انہوں نے ہندوستانی لڑکیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترقی کی دوڑ میں وہ بھی مردوں کے دوش بہ دوش حصہ لیں لیکن اپنی صحت مند، روایتوں کو بھی برقرار رکھیں، اخلاق کی اعلیٰ قدروں کو پامال نہ ہونے دیں اور مشرقی حیاء کا بطور خاص لحاظ رکھیں۔
روش خام پہ مردوں کی نہ جانا ہرگز
داغ تعلیم میں اپنی نہ لگانا ہرگز
نقل یورپ کی مناسب ہے مگر یاد رہے
خاک میں غیرتِ قومی نہ ملانا ہرگز
رنگ ہے جن میں مگر بوئے وفا کچھ نہیں
ایسے پھولوں سے گھر اپنا نہ سجانا ہرگز
رخ سے پردے کو اُٹھایا تو بہت خوب کیا
پردۂ شرم کو دل سے نہ اٹھانا ہرگز
ہم تمہیں بھول گئے اس کی سزا پاتے ہیں
تم کہیں اپنے تئیں بھول نہ جانا ہرگز
چکبستؔ نے اپنی نظموں میں ہندوستان کے رنگ برنگے موسموں کا بھی دلکش انداز میں ذکر کیا ہے۔ منظر نگاری میں انیسؔ کے بہت قریب نظر آتے ہیں، شوکت ِ الفاظ کے لحاظ سے ان کی شاعری مرزاؔ دبیر کی یاد دلاتی ہے۔
تھا پیش نظر وادیٔ ایمن کا تماشہ
ہر شاخ و شجر میں شجر طور کا نقشہ
تھا آتش گل میں اثر برق تجلی
مدہوش تھے مرغان ہوا صورتِ موسیٰؐ
شکل ید بیضا تھی ہر اک شاخ شجر میں
اعجاز کا گل تھا کف گل چین سحر میں
چکبستؔ ایک تعلیم یافتہ اور روشن خیال انسان تھے، وکالت ان کا پیشہ تھا اور شاعری ان کا شوق، فارسی زبان و ادب کا مطالعہ بھی بہت اچھا تھا اور اُردو شاعری سے انہیں خاص طور پر دلچسپی تھی۔ غالبؔ و اقبال آتش اور انیس کے کلام سے وہ بے حد متاثر تھے اور ان کے شاعروں کا رنگ سخن اپنانے کی انہوں نے کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام خاص و عام میں مقبول ہوا اور آج بھی دلچسپی سے پڑھا جاتا ہے ۔
لکھنؤ کے ادبی ماحول سے انہوں نے خوب فیض حاصل کیا اور ان کے کلام میں جو دلکشی اور رعنائی ہے، ان میں ان کی محنت شاقہ اور مبالغہ کے علاوہ لکھنؤ کی ادبی فضاء کا بھی پورا دخل رہا ہے۔ چکبستؔ کا انداز بیان سادہ ہونے کے باوجود اپنے اندر خاص دلچسپی رکھتا ہے۔ تشبیہ اور استعارہ جیسے شعری وسائل سے انہوں نے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ بال گنگا دھر تلک اور گوکھلے جیسے ملک کے مشاہیر قوم کے جو مرثیے انہوں نے لکھے تھے، مدت بعد بھی ان کی دلکشی میں کمی نہیں آئی۔اُردو شاعری کی دنیا میں انہیں حیات و دوام حاصل کرنے میں ان کی ایک نظم رامائن کا ایک سین ہی کافی ہے۔ اگر وہ مکمل رامائن کو اسی انداز میں پیش کردیتے تو یہ اُردو شاعری کا ایک لافانی کارنامہ کہلاتا مگر موت نے انہیں اس کی مہلت نہیں دی۔ ان کا ایک شعر ہے:
لے چلی بزم سے کس وقت مجھے مرگ ِشباب
لب تلک آیا ہی نہیں ، ہاتھ میں پیمانہ ہے
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک شاعر کبھی کبھی وہ دیکھ لیتا ہے جو دوسرے دیکھ نہیں پاتے مرگ شباب کا انہیں اندازہ ہوچکا تھا جو درست نکلا 12 فروری 1926ء کو وہ ایک مقدمہ کی پیروی کیلئے رائے بریلی گئے اور شام کو لکھنؤ واپس آئے ریل میں بیٹھے ہی تھے۔ دماغ پر فالج کا حملہ ہوا اور اس طرح وہ ایک دائمی سفر کے لئے روانہ ہوگئے۔ ہمارا ملک آج جس سیاسی اور سماجی صورتحال سے دوچار ہے، اسے دیکھتے ہوئے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم پر ایک اُمید و بیم کی سی کیفیت طاری ہے مگر دنیا چونکہ امید پر قائم ہے، اس لئے توقع ہے کہ آنے والا کل یقینا اچھا ہی ہوگا۔
ہاں دکھا دے آکے تصور پھر وہ صبح شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف ائے گردشِ ایام تو