پگھل کر موم ہوجاتا اگر پتھر کو سمجھاتے

   

شجاعت علی ۔آئی آئی ایس
رسول خدا صاحب انجیل حضرت عیسٰی علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’میں مردوں کو زندہ کرنے سے عاجز نہیں آیا لیکن احمق اور نادان کی اصلاح سے عاجزآگیا‘‘۔ آپ کا یہ قول ایسا لگتا ہے کہ ہمارے دورپر پوری طرح صادق آتاہے۔ ہم اپنی تہذیب اپنی ثقافت اور عظیم اقدارسے پلّے جھاڑتے ہوئے بے سمت منزلوں کی طرف دوڑپڑ رہے ہیں۔چاہے مذہبی معاملے ہوں تہذیب کی بات ہو ثقافت کے امور ہوں کہ معاشی سماجی یا سیاسی باتیں ہم ہر شعبہ میں منفی عروج کو گلے لگارہے ہیں ۔ اچھی باتیں ہمارے پلے نہیں پڑتی۔حضرت عیسیٰؓ اس قول ہم اس شر میں ڈھال لیتے ہیں تو کچھ عجب نہیں لگے گا کہ
نہ سمجھا عمر گزری اس بدھ کافر کو سمجھاتے
پگھل کر موم ہوجاتا اگر پتھر کو سمجھاتے

ہم پدری ذمہ داریوں سے بھی فرار ہورہے ہیں۔سیاسی معاملوں میں تو ہم اس قدر گر چکے ہیں کہ یہاں پر ہمیں ہر چیز جائز اور حلال دکھائی دے رہی ہے۔ ماضی میں زبانی حملوں کو ہی انتہائی شرمناک اور قابلِ مذمت عمل سمجھا جاتاتھا اب تو یہ حال ہے کہ جسمانی حملے اور قتل وخون بھی جائز سمجھے جارہے ہیں۔ انتخابات کے دوران ناقابل عمل وعدے اور ووٹوں کے حصول کے لئے قومی خزانوں کی بربادی کوئی برائی نہیں سمجھی جارہی ہے۔ جمہوری طرز حکومت میں سرکاری خزانہ عوامی میراث ہوتا ہے لیکن ہماری سیاسی جماعتیں اور اس کے نام نہاد قائدین عوامی رقومات کو اس طرح لٹا رہے ہیں جیسے یہ کوئی جمہوری راج نہیں ہے بلکہ ان کی اپنی شخصی جاگیر ہے ۔ ہمارا ملک ایک ایسی عظیم تاریخ کا حامل ہے کہ جس کی ساری دنیا معترف ہے۔سارا عالم اس ملک یا قوم کو سلام کرتا ہے جو اپنی ثقافت کے تحفظ میں کامیاب رہتی ہے ۔ یہ مدبر قوم اپنے ورثے کی ایسی دیکھ بھال اور حفاظت کرتی ہے جیسے کہ وہ اس کا ورثہ نہیں بلکہ اولاد ہے۔ہمارے ملک میں ایسی ایسی عمارتیں ہیں کہ جس کو دیکھ کر سیاح کے منہ سے بس ایک ہی جملہ نکلتاہے ’’ میرے خدا کیاشاہکار ہے‘‘ساری دنیا کے سیاح جب تاج محل کا دیدار کرتے ہیں تو ان کے جسم میں گدگدی سی پیدا ہوجاتی ہے۔اور وہ اس کے معماروں کو
Salute
کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔دلی کا قطب مینار اور لال قلعہ، ہمایوں کی گنبد ، چتّورگڈھ کا قلعہ ، حیدرآباد کا چارمینار اور مکہ مسجد ، چینئی کی تاریخی مسجد والاجاہی ، اڑیسہ کے مندر اور ایسی سینکڑوں عمارتیں جو ہمارے ملک کی آن بان اور شان ہیں آج یہ شکوہ کررہی ہیں کہ ان کی مناسب ڈھنگ سے نگہداشت نہیں ہورہی ہے۔ سرپھرے منچلے اور جاہل لوگ ان عمارتوں پر چھچوری قسم کی تحریریں کرتے ہوئے ان کے تقدس کو پامال کررہے ہیں۔اور سرکار ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے اور اس کے تحفظ کے معاملے میں خانہ پری جارہی ہے۔وجوہات چاہے کچھ بھی ہوں ہمارا کوہِ نور تاج برطانیہ کی زینت بنا ہوا ہے ۔ ٹیپوسلطان کے کئی ہتھیار بھی بیرونی ملکوں کی دولت میں شامل ہوگئے ہیں۔چارمینار کی سیڑھیاں اس قدر خراب کردی گئی ہیںکہ اسے دیکھ کر خون کے آنسوں رونے پر مجبور ہونا پڑتاہے۔ ہمایوں کا مقبرہ بھی بار بار بگاڑدیاجاتاہے۔ چتورگڈھ کے قلعہ میں تو اس قدر دراڑیں پڑ گئی ہیں جس پر نظر پڑتی ہے تو دل ٹوٹتا ہوا محسوس ہوتاہے۔اُڑیسہ کے تاریخی مندر، ہزاروں لوگوں کی روزانہ آمد سے اپنی
Shine
کھو رہے ہیں۔دلی کا پرانا قلعہ بھی روز بہ روز تنزل کاشکار ہورہاہے۔تاج محل کے اطراف ’’سیاحی غنڈہ گردی‘‘ ہورہی ہے ۔ کچھ ناسمجھ لوگ یہاں کھدائی کرتے ہوئے سنگِ مرمر کے ٹکڑے بطورِ تبرک گھروں کو لے جارہے ہیںجس کے باعث اس حسین ترین عمارت کی بیرونی اور اندرونی ساخت متاثر ہورہی ہے۔یہ ایک ایسی عمارت ہے جسے دنیا کا ساتواں عجوبہ قرار دیاگیاہے۔اگر اس کا یہ حال ہے تو دیگر عمارتوں کاحال کیاہوگا؟ ہم اس حقیقت کا بآسانی اندازہ کرسکتے ہیں۔تاج محل قومی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی میراث ہے ۔ اس کے تحفظ کے لئے ساری دنیا کو آگے آنا پڑے گا۔مذہبی جنونیوں نے بھی ہمارے تہذیبی ورثے کو منظم انداز میں نقصان پہنچایا ہے۔ 2004 ایک نام نہاد تنظیم کے کچھ جنونیوں نے پونے میں 30,000 مخطوطات کو نقصان پہنچایا جس میں قدیم ترین مہابھارت کا نسخہ بھی شامل تھا۔ 1992 میں بابری مسجد کے ڈھانے کے واقعہ سے بھی ساری دنیا واقف ہے۔افغانستان کے ہندوکش علاقے میں بامیان کی تباہی بھی سب لوگ جانتے ہیں۔حیدرآباد اور ممبئی کے بشمول کئی ایسے شہر ہیں جہاں کی عوامی گھڑیاں خراب ہوچکی ہیں لیکن ابھی تک ان کو درست نہیں کیاگیاہے۔1871 ء میں نصب کی گئی ممبئی کرافورڈ مارکٹ کی گھڑی 2004 ء سے بند پڑی ہے جس کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ممبئی شہر میں
Heritage
عمارتیں مالی فائدے کی خاطر مسلسل ڈھائی جارہی ہیں ۔ ممبئی کی پُر وقار اُونچی ترین برٹش بلڈنگ سے اب پانی رسنے لگاہے۔اگر اس طرح کی عمارتوں کی طرف توجہ نہیں دی جاتی ہے تو اس بات کا ڈر ہے کہ یہ بھی زمین دوزہوجائیں گی ۔ہمیں یورپی ملکوں سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ دلی میں بھی ایسی ہی صورتِ حال دکھائی دیتی ہے۔نظام الدین بستی میں سولویں صدی کے دوران تعمیر کی گئی ’’دو سریہ گنبد‘‘ پرناجائز قبضے کئے جارہے ہیں۔ اونچی اونچی عمارتوں نے اس تاریخی یاد گار کو چھپادیاہے۔ بتایاجاتاہے کہ یہ گنبد نہ تو
ASI
کی نگرانی میں ہے اور نہ ہی اُن 92 عمارتوں میں شامل ہے جو دلی آرکیالوجیکل ڈپارٹمنٹ کی جانب سے تحفظ کے لئے منتخب کی گئی ہیں۔اس دوران یہ خوشخبری آئی ہے کہ دلی میں موجود غالب حویلی کی دلی سرکار تیزئین نو کرنے والی ہے۔یہ کام
INTACH
کے حوالے کیاگیاہے۔بتایا گیاہے کہ تیزئین نو کے بعد اس میں ایک میوزیم بھی قائم کی جائے گی۔ٹمل ناڈو کی سرکار نے بھی کئی عظیم اور تاریخی عمارتوں کو یہ کہہ کر ڈھادیاہے کہ وہ خاص اہمیت کی حامل نہیں تھیں۔انسانیت کے دشمن جابر حکمرانوں کایہ طرز رہاتھا کہ وہ کسی قوم کی شناخت کو مٹانا چاہتے تھے تو اس کے تہذیبی اور تاریخی ورثے کو تباہ کردیتے تھے۔اب وہ وقت آگیاہے کہ جب تمام مکاتبِ خیال دانشوروں کو ایک جٹ ہوکر اس سنگین مسئلہ کی طرف توجہ کرناہوگا۔ قانونی کارروائیوں سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتاہے ۔ البتہ عوامی شعور کی بیداری یقینا کچھ رنگ دکھاسکتی ہے۔تاج محل اور ہمپی کے تحفظ کے لئے جو تحریکیں جڑ پکڑرہی ہیںاگر ویسی ہی تحریکیں دوسری ثقافتی عمارتوں کے تحفظ کے لئے سرگرم ہوتیں ہیں تو یقینا ہمارا سماج اس سمت میں کامیابی حاصل کرپائے گا۔اگر ایساہوجاتاہے تو ہم اطمینان کی سانس لے سکتے ہیں۔ہر شعبہ میں انحطاط سے ہر زندہ دل شخص مایوس ہورہاہے۔ لیکن اس حقیقت سے بھی ہم انکارکرنہیں کرسکتے کہ مایوسی کفر کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ہمیں مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگاکیونکہ کامیابی کی تلاش کیلئے سفر جاری رکھنا ہوگا۔حوصلہ ، عزم ، محبت ، ہمت اورجنون یہ الفاظ نہیں ہیںبلکہ زندگی مذہب اور انسانیت کے لافانی فلسفے ہیں۔اگر کہ آپ کے ساتھ ہیں یا آپ ان کے ساتھ ہیںتو ڈاکٹر سلیم عابدی کا یہ تخیرجس قدر خوبصورت لگے گا کہ
میں جو اٹھا عزم کے پرچم کو لہراتا ہوا
ہٹ گیا طوفان مرے رستے سے گھبراتا ہوا