چیف جسٹس آف انڈیا پر جنسی استحصال کا الزام لگانے والی خاتون سپریم کورٹ کے تحقیقاتی پینل سے خود کو باہر کیا

,

   

جسٹس بابڈو کی نگرانی میں منعقد ہونے والی تحقیقات کے تیسرے دن منگل کے روز اپنے جاری کردہ بیان میں مذکورہ ملازم نے اس بات کا اعلان کیا۔

نئی دہلی۔سپریم کورٹ کی سابق ملازمہ جس نے چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے ائی) رنجن گوگوئی پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایاتھا نے منگل کے روز یہ کہتے ہوئے کہاکہ مذکورہ کمیٹی سے انہیں ”انصاف ملنے اور سنجیدگی سے معاملے پر غور کرنے“ کی توقع نہیں ہے تین ججوں کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات سے خود کو باہر کرلیا۔

میڈیا کو تقسیم کئے گئے بیان میں شکایت کردہ نے کہاکہ ”میں اس سے باہر ہونے پر مجبور ہوئی کیونکہ کمیٹی نے جو طریقہ کار اپنا ہے وہ درست نہیں ہے‘ کمیٹی کو چاہئے کہ وہ اس معاملے کو کسی عام معاملے کے طور پر نہیں دیکھے بلکہ ایک برسر خدمات چیف جسٹس آف انڈیا کے خلاف جنسی استحصال کی شکایت کے طور پر اسکا جائزہ لے او رانتہائی غیر یقینی حالات میں انصاف کی صورتحال پیدا کی جاسکے جس کے متعلق میری مانگ ہے“۔

شکایت کردہ نے کہاکہ کمیٹی کا طریقہ کار عام طور پر کام کے مقامات پر خواتین کے ساتھ ہونے والی جنسی ہراسانی کے حالات کے عبوری تحقیقات کی طرح ہے جو 2013میں بنے قانون کے مطابق کی جاتی ہے‘

اور تحقیقاتی پینل جو جسٹس ایس اے بابڈے‘ اندرا بنرجی اور اندو ملہوترہ پر مشتمل ہے کو چاہئے کہ وہ اس معاملے میں وشاکھا گائیڈ لائنس پر عمل کریں

یہ وہی گائیڈ لائنس ہے جس کو سپریم کورٹ نے 1997میں جنسی ہراسانی کے معاملات میں فالو کرنے کی ہدایت پر تیار کیاتھا۔

یہ بیان وکیل وراندا گرور کی ٹیم کے وکیل جانب سے جاری کیاگیاتھا۔اس معاملے میں گرور شکایت کردہ کی جانب سے پیش ہوئے ہیں۔

بیان کی اجرائی کے بعد وہ کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔سپریم کورٹ کے پینل کا کوئی بھی رکن تبصرے کے لئے فوری طور سے نہیں ملا۔ عدالت کے سکریٹری جنرل نے معاملے پر بات کرنے سے صاف انکار کردیا۔

سی جے ائی نے 20اپریل کو سپریم کورٹ میں معاملے کی ایک فوری سنوائی کے دوران اپنا ردعمل پیش کیاتھا اور اٹھارہ منٹ تک اپنے بچاؤ میں بات کی تھی۔شکایت کردہ نے کہاکہ 26اور29اپریل کے دو سنوائی کے بعد انہوں نے یہ فیصلہ کیاہے۔

دونوں سنوائی کے موقع پر کمیٹی نے کمیرے سامنے کاروائی جاری رکھی اور سوائے شکایت کردہ کے کسی دوسرے شخص کو اس میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی۔

مذکورہ خاتون کے مطابق سنوائی کے دوران کسی وکیل کو حاضر ہونے کی منظوری نہیں دی اور ویڈیو اڈیو ریکارڈنگ کی بھی منظوری نہیں دی گئی اور انہیں 26اور29کے ریکارڈ کردہ بیان کے کاپی بھی فراہم نہیں کی۔