ڈرائیوئنگ کی اجازت ملنے کے بعد‘ سعودی خواتین نئی آزاد سے لطف اندوز ہورہی ہیں۔ویڈیو

,

   

ریاض۔ عالیشان لیکسس گاڑی میں بیٹھے صبیحہ الفخر گاڑیوں کے پہیوں کو گھمایا اور اپنے بیٹے کو سامنے والی سیٹھ پر ساتھ بیٹھایا‘ مذکورہ 68سالہ سعودی بیوہ نے اپنی زندگی میں کبھی اس دن کا تصور نہیں کیاتھا۔

پچھلے سال 24جون تک بھی اس طرح کا اقدام سعودی عربیہ میں جرم مانا جاتاتھا‘قدامت پسند لوگوں نے کئی صدیوں تک عورت کو یہ کہتے ہوئے ڈرائیونگ سے روک دیاتھا کہ اس سے جنسی امتیاز میں اضافہ ہوگا۔

خواتین کی ڈرائیونگ کی دنیا کی پابندی پر امتناع کو ختم کرتے ہوئے قدامت پسند مملک میں ایک عصری تحریک شروع ہوئی ہے۔

YouTube video

ان میں سے ایک فاقرہ ہے جو پانچ بچوں کی ایک ماں بھی ہے اور اتنے بڑے پیمانے پر آنے والی تبدیلی کو دیکھیں گے ایسا کبھی نہیں سونچاتھا۔ جس نے خواتین کے لئے آزاد ی او رحمل ونقل کے ایک نئے دور کی شروعات کی ہے۔

مملکت کے مشرقی شہر قطیف میں نوجوانوں ڈرائیورس کے ساتھ اپنی کار دوڑاتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ”مجھے اب بھی یقین نہیں آرہا ہے“۔

ان کے شوہر جس کا انتقال دس سال قبل ہوا ہے 1990کے دہے میں پڑوسی بہرین کے دوران کے موقع پر انہیں خاندانی اصولوں کو بلائے طاق رکھتے ہوئے خفیہ طریقے سے کار چلانا سیکھا تھا۔

مذکورہ اصلاحات کی وجہہ سے کئی سعودی خواتین محرم مرد اور خانگی ڈرائیور پر منحصر رہنے سے آزاد ہوگئے۔ایک 72سالہ چار بچوں کی ماں منیرہ السیانی نے کہاکہ ”اس سے قبل ہمیں احساس ہوتاتھا کہ ہم پنجرہ میں قید ہیں“ وہ دہران شہر میں گاڑی چلا رہی تھیں اور ان کے شوہر سامنے والے سیٹ پر ساتھ بیٹھے ہوئے تھے

”پنجرہ کھلا‘ ہم آڑنے لگے‘ ہم جہاں چاہیں وہ جاسکتے ہیں“۔

مذکورہ اقدام ولی عہد محمد بن سلمان کا سب سے زیادہ موضوع بحث رہنے والا اصلاحات میں سے ہے جس کا مقصد خواتین کے ساتھ سلوک کے متعلق قدامت پسند تیل کے ملک پر کی جانے والی تنقیدوں کو دور کرنا ہے۔

امتناع ختم کرنے سے کچھ ہفتوں قبل انتظامیہ کی جانب سے بے شمار سینئر سماجی جہدکاروں کو تحویل میں لینا‘ اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ ڈرائیونگ کے لئے لائے گئے اصلاحات کوئی بڑے سیاسی آزادی نہیں ہے۔

امتناع برخواست ہونے کے بعد سے سعودی شہروں میں خواتین کے لئے ڈرائیونگ اسکولوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جہاں پر کار چلانے سیکھنے کے کئے درخواست دی جارہی ہیں‘ یہاں تک کے ہارلی ڈیوڈ سن موٹر بائیکس نے بھی غیر معمولی ردعمل دیکھا ہے۔

مگر معاشرہ کے قدآمت پسند امتناع کی برخواستگی کو تنقید کانشانہ بناتے ہوئے اس سے جنسیت میں اضافے کا خدشہ ظاہر کررہے ہیں