کتنی ماؤں کو بے اولاد کروگے صاحب

   

دادری سے جھارکھنڈ تک … خونی کھیل
مسلمان اپنی آپ حفاظت کریں

رشیدالدین
کیا ہندوستان میں قانون کی حکمرانی ہے یا پھر لا قانونیت کا غلبہ ہوچکا ہے ؟ ہندوستان کا شمار دنیا کی بڑی جمہوریتوں میں ہوتا ہے جہاں دستور ، عدلیہ اور قانون کی بالادستی قائم ہے لیکن گزشتہ پانچ برسوں میں دنیا بھر میں عدم رواداری اور مذہب کے نام پر تشدد ملک کی پہچان بن چکا ہے ۔ بی جے پی برسر اقتدار آنے کے بعد سنگھی عناصر بے قابو ہوگئے جیسے انہیں کسی کو بھی ہلاک کرنے کا لائسنس مل گیا ہو۔ جن کا کام قانون کو نافذ کرنا ہے۔ اگر وہ قاتلوں کی حوصلہ افزائی کرنے لگیں تو ظالموں کے ہاتھوں میں ہتھکڑی کون پہنائے گا۔ نریندر مودی حکومت کے وزراء تو مسلمانوں کے قاتلوں سے ملنے جیل پہنچ گئے۔ ایک وزیر نے ہجومی تشدد کے خاطیوں کو گھر بلاکر تہنیت پیش کی۔ جب وزراء خود قانون کے خلاف ورزی کرنے لگیں تو جارحانہ فرقہ پرست عناصر کے حوصلے بلند ہونا ضروری ہے۔ نریندر مودی حکومت کی دوسری میعاد میں امیت شاہ کو وزیر داخلہ کے عہدہ پر فائز کرتے ہوئے سنگھی عناصر کو پیام دیا گیا کہ وہ کچھ بھی کرنے کے لئے آزاد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مودی حکومت کی دوسری میعاد میں ہجومی تشدد کے واقعات پر امیت شاہ خاموش ہیں۔ حالانکہ یہ ان کی وزارت سے جڑا ہوا مسئلہ ہے۔ جھارکھنڈ میں ہجومی تشدد دہشت گردوں کے ہاتھوں تبریز انصاری کی ہلاکت پر امیت شاہ وزیر داخلہ کی حیثیت سے رسمی مذمت بھی نہ کرسکے۔ ظاہر ہے کہ جس شخص نے گجرات میں کئی ہزار بے گناہوں کا بہتا ہوا خون دیکھا ہو ، اس پر ایک تبریز انصاری کی ہلاکت کا غم اور افسوس کیوں کر ہوگا ۔ دادری سے جھارکھنڈ تک ہجومی تشدد کی خونی تاریخ ہے اور مورخ کا قلم جب آزاد ہوگا تو وہ ملک کے سیاہ دور کے طور پر اسے شامل کرے گا۔ مودی حکومت نے آج جیسے ہر قلم اور ہر آواز کو گویا خریدلیا ہے۔ سوائے چند ایک صحافیوں اور جہد کاروں کے باقی تمام گودی میڈیا کے پروپگنڈہ کا شکار ہیں۔ بیشتر چیانلس اور ان کے وابستہ صحافی اور تبصرہ نگاروں کو ہجومی تشدد کے واقعات معمولی اور شخصی مخاصمت کا نتیجہ دکھائی دے رہے ہیں۔ 2014 ء میں مودی کے برسر اقتدار آتے ہی مختلف عنوانات سے مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ کبھی گھر واپسی تو گاؤ رکھشا ۔ اب تو مسلمانوں کو کفریہ الفاظ اور متنازعہ نعرے لگانے کیلئے مجبور کیا جارہا ہے اور اسے حب الوطنی سے جوڑ دیا گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2014 ء سے آج تک ہجومی تشدد میں 94 مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ جاریہ سال ابھی تک 10 واقعات پیش آچکے ہیں۔ لوک سبھا انتخابات سے قبل ان واقعات کا سلسلہ بند ہوچکا تھا جو کہ حکمت عملی کا حصہ تھا لیکن بی جے پی کو دوسری مرتبہ شیطانی اکثریت کے ساتھ ہی سنگھ پریوار کا ٹولہ بے قابو ہوگیا۔ اگر ابتدائی واقعات پر سخت کارروائی کی جاتی تو نوبت یہاں تک نہیں پہنچتی لیکن یہاں حکومت سنگھ پریوار کے ایجنڈہ پر عمل پیرا ہے تاکہ مسلمانوں میں خوف کا ماحول پیدا کرتے ہوئے دوسرے درجہ کے شہری کا احساس پیدا کیا جائے۔ پولیس میں آر ایس ایس کے نظریہ کی تائید کرنے والوں کا غلبہ ہوچکا ہے ۔ پولیس نے حملہ آوروں کو سزا تو دور کی بات ہے ، انہیں حملہ سے روکنے کی کوشش تک نہیں کی ۔

کئی واقعات میں زخمیوں کو بروقت طبی امداد نہیں پہنچائی گئی جس کے سبب موت واقع ہوئی۔ جھارکھنڈ میں تبریز انصاری کو زخمی حالت میں چار دن تک پولیس تحویل میں رکھا گیا۔ اگر بروقت طبی امداد دی جاتی تو شائد جان بچ سکتی تھی۔ جھارکھنڈ کے بعد مغربی بنگال میں ایک دینی مدرسہ کے استاد کو کفریہ الفاظ ادا کرنے سے انکار پر ٹرین سے ڈھکیل دیا گیا۔ مودی کی دوسری میعاد میں نفرت کے واقعات میں اضافہ ہوچکا ہے ۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے ان واقعات پر خاموشی اختیار کرلی ہے جبکہ نریندر مودی نے رسمی انداز میں دکھ کا اظہار کیا۔ وزیراعظم کو دکھ کے اظہار سے زیادہ کارروائی کرتے ہوئے اپنی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔ صرف جھارکھنڈ کے واقعہ پر نہیں بلکہ پہلی میعاد کے واقعات کے خاطیوں کے خلاف کارروائی کیلئے فاسٹ ٹریک کورٹ قائم کیا جائے ۔ بی جے پی زیر قیادت ریاستیں نفرت کے واقعات کی فیکٹریاں بن چکی ہیں۔ مودی کو ان ریاستوں میں حالات کو بدلنا ہوگا۔ واقعات پر مودی کا دکھ اس لئے بھی قابل اعتبار نہیں کیونکہ پہلی میعاد میںبھی افسوس کے علاوہ کچھ نہیں کیا گیا تھا۔ ویسے بھی گجرات میں ہزاروں بے قصوروں کی خون کی ہولی کا مشاہدہ کرنے والوں کو ایک ایک کی ہلاکت کا افسوس کیسے ہوگا ۔ ملک کو آج بھی مودی کے وہ الفاظ یاد ہیں جس میں انہوں نے گجرات مہلوکین کی مثال گاڑی کے ٹائر کی زد میں آنے والے کتے کے بچہ سے پیش کی تھی۔ مسلمانوں سے نفرت کا یہ عالم ہے تو پھر ہجومی تشدد پر افسوس اور دکھ کے اظہار پر کس طرح یقین کیا جاسکتا ہے۔ ویسے بھی مسلمان مودی اور ان کے ساتھیوں کی ہمدردی کے محتاج نہیں ہیں۔ سب کا ساتھ اور سب کا وکاس کا نعرہ تو ناکام ہوگیا ، اب سب کا وشواس کا اضافہ کردیا گیا ہے ۔ یہ محض دکھاوا ہے اور مودی کو سنگھ پریوار کا وشواس کافی ہے ۔ نریندر مودی نے جھارکھنڈ کے واقعہ کو مغربی بنگال اور کیرالا کے سیاسی تشدد سے جوڑ دیا ہے۔ بی جے پی ان دونوں ریاستوں میں قدم جمانے کیلئے فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے۔

ملک میں ہجومی تشدد کے واقعات میں اضافے کے لئے اقلیتوں کی بے حسی اور خاموشی ذمہ دار ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہجومی دہشت گردوں کے ہاتھوں کسی مزاحمت یا مقابلہ کے بغیر کیوں اپنی جان قربان کر رہے ہیں ۔ ملک کے دستور اور قانون نے ہر شخص کو اجازت دی ہے کہ وہ حملہ کی صورت میں اپنا دفاع کرے۔ اسی اختیار کو اندرا گاندھی کے دور حکومت میں سپریم کورٹ کے ایک جج نے استعمال کیا تھا جب کسی ملزم نے حملہ کی کوشش کی۔ سپریم کورٹ کے جج نے اپنے دفاع میں پیپر ویٹ اٹھالیا تھا۔ دستور اور قانون کے تحت جب ہمیں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور حفاظتی خود اختیاری کے اقدامات کی اجازت ہے تو پھر ہجومی دہشت گردوں کے آگے سرینڈر ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ کسی مزاحمت کے بغیر حملوں کو برداشت کرنے کے نتیجہ میں سنگھی عناصر کے حوصلے بلند ہورہے ہیں۔ جس دن اقلیتیں اور دلت سنگھی عناصر کے خلاف مزاحمت اور مقابلہ کا راستہ اختیار کریں ، اسی دن سے ہجومی تشدد کے واقعات ختم ہوجائیں گے۔ بہار کے ایک موضع میں حال ہی میں جارحانہ فرقہ پرستوں نے گاؤں کے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کی۔ اس گاؤں میں مسلمانوں کے چند خاندان بستے ہیں جس کا فائدہ اٹھاکر فرقہ پرست حملہ کرنا چاہتے تھے ۔ مسلم خاندانوں کے تمام افراد بشمول ضعیفوں نے متحد ہوکر جب مقابلہ کا چیالنج کیا تو فرقہ پرست عناصر بھاگ کھڑے ہوئے ۔ ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے لیکن ہجومی تشدد کے معاملات میں مسلم سماج میں رد عمل کی بھی کمی ہے۔ سیاسی اور مذہبی قیادت دونوں سطح پر مسلمانوں کے حوصلے بلند کرنے والا کوئی نہیں۔ جب قیادت رہنمائی سے گریز کرے تو مظلوموں کو ملک کے دستور سے رہنمائی حاصل کرنی چاہئے جو مزاحمت کی اجازت دیتا ہے ۔ ملک میں کئی ایسے مثالیں ہیں جہاں مسلم اکثریتی آبادی والے علاقوں میں غیر مسلم خاندان محفوظ ہیں۔ کشمیر کے کئی اضلاع اور کیرالا میں ملاپورم اور دیگر مقامات اس کی زندہ مثال ہے، جہاں فرقہ واریت کا کوئی شائبہ دکھائی نہیں دیتا۔ جب کبھی کشمیر میں تشدد ہو تو حکومت اور بی جے پی پاکستان پر انگشت نمائی کرتی ہے لیکن ملک میں مذہب کی بنیاد پر حملوں کے ذریعہ عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے آخر کون ذمہ دار ہے؟ کس کے اشارہ پر سنگھی عناصر مسلمانوں اور دلتوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ موجودہ پارلیمنٹ میں گزشتہ کے مقابلہ مسلم ارکان کی تعداد میں اضافہ سے امید پیدا ہوئی تھی کہ ہجومی تشدد اور دیگر سلگتے مسائل پر مضبوط آواز اٹھے گی لیکن بیشتر مسلم ارکان نے مایوس کردیا ہے۔ کیرالا میں مسلم لیگ کو مسلمانوں کی یاد صرف اسی وقت آتی ہے جب وہ اقتدار میں حصہ دار ہو۔

مسلم لیگ کے ارکان پارلیمنٹ نے ابھی تک مسلمانوں کے مسائل پر آواز نہیں اٹھائی ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ منتخب ہونے کے بعد وہ ملک سے باہر تفریح کے لئے نکل پڑے ۔ گزشتہ سیشن میں طلاق ثلاثہ پر مباحث کے دوران مسلم لیگ کے ایک رکن ملک سے باہر تفریح کر رہے تھے۔ نفرت کے واقعات میں دن بہ دن اضافہ اب اس بات کا متقاضی ہے کہ حکام سے کارروائی کا مطالبہ کرنے یا پھر اپنے نام نہاد منتخب نمائندوں پر بھروسہ کرنے کے بجائے مسلمان حفاظت خود اختیاری پر توجہ دیں ۔ حکام اور حکومت سے خاطیوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بے فیض ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آر ایس ایس گزشتہ کئی دہوں سے ملک میں ہندو طبقہ کو حفاظت خود اختیاری کی ٹریننگ دے رہی ہے۔ ٹریننگ میں لاٹھیوں اور اسلحہ کے استعمال کی تربیت شامل ہیں۔ دستور نے چونکہ حفاظت خود اختیاری کی اجازت دی ہے ، آر ایس ایس ملک بھر میں کھلے عام اپنی شاکھاؤں کی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اگر یہی کام مسلمان کریں تو ان پر ملک دشمنی اور دہشت گردی کا لیبل لگادیا جاتا ہے۔ ہجومی تشدد اور نفرت کے واقعات سے دنیا بھر میں ہندوستان کی بدنامی ہوئی ہے۔ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے مذہبی آزادی سے متعلق اپنی رپورٹ میں ہندوستان کو مخالف مسلم مملکت قرار دیا ۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پامپیو نے گزشتہ دنوں ملک کے دورہ کے موقع پر مذہبی آزادی کی حفاظت کرنے کا مشورہ دیا۔ مرکز کی بی جے پی حکومت ہجومی تشدد روکنے کیلئے آخر کس کی ہدایت کا انتظار کر رہی ہے ؟ عمران پرتاپ گڑھی نے کیا خوب کہا ہے ؎
اور کتنا ہمیں برباد کروگے صاحب
کیا ستم اور نیا ایجاد کروگے صاحب
خود کی اولاد نہیں ہے تو بتاؤ اتنا
کتنی ماؤں کو بے اولاد کروگے صاحب