کشمیریوں کے حقوق کیلئے آواز اٹھانا وقت کی اہم ترین ضرورت

,

   

عوام اور سیاسی نمائندوں کی محروسی ، ملک کا شیرازہ بکھیرسکتی ہے ، تلنگانہ پرجا پارٹی کی گول میز کانفرنس، دانشوروں و قائدین کا خطاب

حیدرآباد 22 اگسٹ (سیاست نیوز) جمہوریت کی بقاکیلئے کشمیر کیلئے آواز اٹھانے کی ضرورت ہے کیونکہ حکمراں طبقہ ملک کی جمہوریت کے خاتمہ کیلئے کوشاں ہے اسی لئے اپنے ہی ملک کے عوام پر مظالم ڈھاتے ہوئے خودکو طاقتور بنا کر پیش کر رہا ہے ۔تلنگانہ پرجاپارٹی کی جانب سے کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف سوماجی گوڑہ پریس کلب میں گول میز کانفرنس کا انعقاد عمل میں لایا گیا ۔ کانفرنس میں مختلف تنظیموں کے ذمہ داران نے شرکت کرکے دستور کے تحفظ اور کشمیری عوام کے حقوق کیلئے آواز اٹھانے کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا۔ کانفرنس میں جسٹس چندر اکمار ‘ مسٹر چاڈا وینکٹ ریڈی ‘ پروفیسر وشویشور راؤ ‘ جناب سیدعزیزپاشاہ‘ مولانا سید طارق قادری ‘ پروفیسر انورخان ‘ مسٹر سی ایچ پربھاکر ‘ جناب مجاہد ہاشمی کے علاوہ دیگر موجود تھے۔ شرکانے کشمیر میں عائد پابندیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کو جو خصوصی موقف دیا گیا تھا اس کا مقصد کشمیر کو ملک کا اٹوٹ حصہ برقرار رکھنا تھا۔ حکومت کے اقدامات اور کاروائیاں ہیں اس کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ حکمراں طبقہ عالمی فسطائی قوتوں کا آلۂ کار بن کر دنیا کے امن کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہاہے ۔ کشمیر میں جس طرح سے عوام اور سیاسی نمائندوں کو محروس رکھا گیا اس کی کسی جمہوریت میں مثال نہیں ملتی لیکن ہندستان جیسی جمہوریت میں اس طرح کے واقعات افسوسناک ہیں جو ملک کا شیرازہ بکھیرنے کا سبب بن سکتے ہیں اسی لئے کشمیر کے مظلوموں کیلئے ہندستان کے دیگر علاقوں کے عوام کو اٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ حکومت نے کشمیر کے چیف منسٹرس کو قید و بند میں رکھتے ہوئے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ بھی اس علاقہ کیلئے خطرہ ہیں ۔ بی جے پی کی کاروائیوں کو تنقید کا نشانہ بناکر شرکا نے کہا کہ ہندستان میں اظہار خیال کی آزادی کے بنیادی حق کو ختم کرنے کے ساتھ حکومت نے ملک کے مسلمانو ںکے ساتھ متعصبانہ رویہ اختیار کیا ہے اور یہ کوئی ہندوتوا نہیں ہے بلکہ حکومت کے یہ اقدامات گوڈسے ازم اور ساورکرازم کی علامات ہیں۔ شرکاء مفکرین نے کشمیر سے دفعہ 370 کے خاتمہ پر تاسف کا اظہار کیا اور کہا کہ ملک میں امن و امان کی برقراری کے علاوہ آزادی کے بعد ریاستوں کے انضمام کیلئے ان مقامات کی ضرورتوں اور عوامی مطالبات کو دیکھتے ہوئے خصوصی موقف فراہم کئے گئے تھے لیکن موجودہ حکومت ان کا احترام کرنے کے بجائے ان نظریات کو فروغ دے رہی ہے جو ملک میں بد امنی پھیلانے کا سبب بن سکتے ہیں۔مندوبین نے آرٹیکل 370 کے ذریعہ مسلم اکثریتی ریاست کے خصوصی موقف کو ختم کرنے کی سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملک کی دیگر ریاستوں میں آرٹیکل 371 موجود ہے

اور ان میں عوام اپنے پرچم لہراتے ہیں لیکن ان کے خلاف مرکز سے کاروائی نہیں کی جاتی جس کی وجہ ان کا مذہب ہے ۔ کمیونسٹ قائدین نے کہا کہ کشمیر کے موقف کو ختم کرنے کی کوشش اور عوام پر مظالم کے سلسلہ میں متعدد مرتبہ توجہ دہانی کے باوجود حکومت سے کوئی اظہار خیال نہ کرنا ثبوت ہے کہ حکومت من مانی کر رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے کشمیر میں افواج کی تعیناتی ‘ پولیس کے مظالم ‘ عوام اور قائدین کو حراست میں لیا جانا‘ سیل فون اور انٹرنیٹ کی سہولت کو بند رکھا جانا عوام کی آزادی کو ختم کرنے کے مترادف ہے ۔ حکومت عوام کو اعتماد میں لینے کی بجائے اعتماد کو متزلزل کرنے اقدامات کے ذریعہ خطہ میں بدامنی پھیلا رہی ہے۔ ہندستان کی آزادی کے بعد پسماندہ طبقات کے علاوہ علاقہ کی ضرورتوں اور تہذیبوں کو دیکھتے ہوئے انہیں مراعات فراہم کی گئی تھیں لیکن موجودہ حکومت ایک ملک ایک قانون کے نام پر پسماندہ طبقات اور خصوصی موقف والوں کو نشانہ بنانے مصروف ہے ۔ کانفرنس میں آرٹیکل 370اور 35A کی برخواستگی کیلئے انتظامات کو غیر انسانی قرار دیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ ملک میں گوڈسے و ساورکر ازم کے فروغ کو روکنے تحریک چلائی جائیگی اور شعور بیدار کیا جائیگا کہ حکومت کشمیر میں اقدام کے ذریعہ کس راہ پر ملک کو لیجانے کی کوشش کر رہی ہے۔ کشمیر کے حالات کو جاننے عالمی میڈیا کو کشمیر میں گھومنے کی اجازت کا مطالبہ کرتے ہوئے شرکانے کہا کہ حقیقی حالات کو منظر عام پر آنے نہیں دیا جا رہاہے اور نام نہاد میڈیا اداروں سے حکومت کی جانب سے کئے گئے اقدامات کی ستائش کی جا رہی ہے ۔