کشمیر میں غیر اعلانیہ ہڑتال کے ڈھائی ماہ مکمل، تاریخی جامع مسجد کے محراب و منبر مسلسل خاموش

,

   

وادی کشمیر میں جہاں جمعہ کے روز غیر اعلانیہ ہڑتال کے ڈھائی ماہ پورے ہوئے تو وہیں پائین شہر کے نوہٹہ میں واقع 6 سو سالہ قدیم اور وادی کی سب سے بڑی مسجد کی حیثیت رکھنے والی تاریخی جامع مسجد کے منبر ومحراب مسلسل ڈھائی ماہ سے خاموش ہیں جس کے باعث ہزاروں مسلمان نماز جمعہ کی ادائیگی اور خطبہ جمعہ کے فیض سے محرومی کا شکار ہو رہے ہیں۔ ادھر جمعہ کے روز حکام نے پائین شہر کے بعض علاقوں بشمول نوہٹہ میں تازہ پابندیاں عائد کی تھیں اور لوگوں کی تاریخی جامع مسجد کی طرف آزادانہ نقل وحمل پر بھی روک لگائی ہے۔

سرکاری ذرائع کے مطابق ائین شہر میں لوگوں کے جان ومال کے تحفظ کے لئے بنا بر احتیاطی طور پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں جنہیں ہفتے کی صبح تک ہٹایا جائے گا بشرطیکہ حالات اجازت دیں۔ جمعہ کے روز تاریخی جامع مسجد کے گرد وپیش سیکورٹی کے حصار کو مزید سنگین کیا گیا تھا اور جامع مسجد کے اندر اور باہر بھاری تعداد میں سیکورٹی فورسز کی نفری کو تعینات کیا گیا تھا تاکہ کوئی بھی نمازی جامع کی طرف پیش قدمی بھی نہ کرسکے۔ پائین شہر کے خانیار میں واقع دستگیر صاحب روڑ کو خاردار تار اور چوراہوں پر سیکورٹی فورسز کی گاڑیوں سے سیل کیا گیا تھا اور لوگوں کی آزادانہ نقل وحمل کو محدود کیا گیا تھا۔ حریت کانفرنس کے چیئرمین میرواعظ عمر فاروق پانچ اگست سے مسلسل نظر بند ہیں۔ پانچ اگست کو پہلے انہیں گرفتار کرکے حراست میں لیا گیا بعد ازاں انہیں نگین میں واقع اپنی رہائش گاہ پر ہی انہیں نظر بند کیا گیا۔

آپ کو معلوم ہو کہ نوہٹہ میں واقع تاریخی جامع مسجد میر واعظ عمر فاروق کی مذہبی و سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ مانا جاتا ہے اور وہ نماز جمعہ کی ادائیگی سے قبل ایک خاص خطبہ دیتے ہیں۔ ادھر وادی میں جمعہ کو مسلسل 75 ویں دن بھی معمولات زندگی متاثر رہے، بازار بند اور سڑکوں سے پبلک ٹرانسپورٹ مسلسل غائب رہا تاہم نجی گاڑیوں کی نقل وحمل میں روز اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ لوگوں نے پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کے باعث نجی گاڑیوں کا زیادہ استعمال کرنا شروع کیا ہے اور گزشتہ دو ماہ کے دوران سینکڑوں کی تعداد میں نئی دو پہیہ یا چار پہیہ والی گاڑیاں خریدی گئی ہیں۔ وادی میں ریل سروس بھی گزشتہ ڈھائی ماہ سے لگاتار بند ہے۔ متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ ریل خدمات کو پولیس و مقامی انتظامیہ کی طرف سے موصولہ ہدایات کو مدنظر رکھتے ہوئے بند رکھا گیا ہے۔

انکا کہنا ہے کہ ہمیں نظام بند رکھنے سے محکمے کو ہورہے نقصان خاص کر عوام کو درپیش مشکلات کا شدت کے ساتھ احساس ہے لیکن سروس کو لوگوں کے تحفظ اور ریلوے عملے اور املاک کی حفاظت کے پیش نظر ہی بنا بر احتیاط معطل رکھا گیا ہے۔ شہر سری نگر کے حساس علاقوں میں جمعہ کے پیش نظر بھاری سیکورٹی انتظامات کے بیچ صبح کے وقت دکانیں کھلی رہیں اور سڑکوں پر نجی گاڑیوں کے ساتھ سومو اور ایس آر ٹی سی گاڑیوں کی جزوی نقل وحمل بھی دیکھنے ملی ۔ سری نگر کے تاریخی لال چوک کے علاوہ کئی علاقوں میں بر لب سڑک چھاپڑی فروشوں کو بھی دیکھا گیا۔ وادی کے دیگر ضلع و قصبہ جات میں بھی صبح یا شام کے وقت اگرچہ دکانیں کھلی رہیں لیکن بعد ازاں دن بھر بازار خالی رہے اور سڑکوں سے پبلک ٹرانسپورٹ بھی متاثر رہا۔ تاہم تمام ضلع صدر مقامات اور قصبہ جات میں نجی ٹرانسپورٹ حسب معمول جاری رہنے کی خبریں آرہی ہیں۔

واضح رہے کہ سرکاری دفاتر میں رفتہ رفتہ کام بحال ہورہا ہے لیکن تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کی سرگرمیاں ت

مسلسل بند ہیں۔ انتظامیہ کی طرف سے تعلیمی اداروں کو کھولنے کے اعلانات کے باوجود تعلیمی اداروں میں درس وتدریس کا عمل اب تک بحال نہیں ہو رہا ہے۔کیونکہ تعلیمی اداروں میں عملہ اور اساتذہ تو موجود رہتے ہیں مگر طلبا گھروں میں بیٹھنے کو ہی ترجیح دے رہے ہیں۔ تاہم جموں کشمیر سٹیٹ بورڑ آف اسکول ایجوکیشن کی طرف دسویں اور بارہویں جماعت کے لئے ڈیٹ شیٹ جاری کرنے کے پیش نظر اسکولوں میں طلبا کا رش بڑھ گیا ہے۔ والدین کا کہنا ہے کہ وہ موجودہ حالات کے بیچ بچوں کو اسکول یا کالج بھیجنے میں مختلف قسم کے خطرات محسوس کررہے ہیں۔

ایک طرف وادی کشمیر میں مواصلاتی ذرائع پر جاری پابندی میں بتدریج تخفیف لائی جارہی ہے، پہلے لینڈ لائن سروس کو بحال کیا گیا بعد ازاں پیر کے روز پوسٹ پیڈ موبائل سروس کو بھی بحال کیا گیا تاہم براڈ بینڈ اور موبائل انٹرنیٹ خدمات گزشتہ قریب ڈھائی ماہ سے مسلسل بند ہیں جو مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لئے سوہان روح بن گیا ہے۔ صحافیوں اور طلبا کو انٹرنیٹ کی سہولیات نہ ہونےسے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

آپ کو بتا دیں کہ مرکزی حکومت نے پانچ اگست کو جموں کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والی دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کو ہٹانے اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اعلان سے قبل ایک ایڈوائزری جاری کی گئی تھی جس میں وادی میں قیام پذیر سیاحوں اور یاتریوں کو فی الفور وادی چھوڑنے کی ہدایات دی گئیں اور اب اس ایڈوائزری کو کچھ دنوں پہلے واپس لیا گیا ہے اور تمام سیاحوں کو بلایا گیا ہے۔