کورونا وائرس کو میڈیا نے مسلمان کا رنگ دے دیا

,

   

قومی نیوز چیانلس کی جانبداری، مخصوص نظریہ کے تحت تبلیغی جماعت کو نشانہ بنانے کی کوشش

حیدرآباد ۔31 ۔ نومبر (سیاست نیوز) ملک میں میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کی جانبدارانہ پالیسی سماج میں تفریق پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ کوئی واقعہ پیش آئے میڈیا اس کے تار مسلمانوں سے جوڑ دیتا ہے۔ واقعہ کے ساتھ ہی مسلمانوں پر شبہات کا اظہار کرتے ہوئے تحقیقاتی ایجنسیوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ملک کے مفادات کے خلاف کوئی واقعہ ہو ، گزشتہ 10 برسوں میں میڈیا کا یہ رجحان دن بہ دن بڑھتا ہی جارہا ہے ۔ حیرت اس بات پر ہے کہ حکومتیں ایسے بے لگام میڈیا پر کنٹرول کرنے سے قاصر ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ قومی میڈیا ایک مخصوص ذہن کے مفادات کی تکمیل کر رہا ہے تاکہ ہر معاملہ میں مسلمان ملک کے سامنے قصوروار کی حیثیت سے کٹہرے میں دکھائی دیں۔ حد تو یہ ہوگئی کہ کورونا وائرس کو بھی گودی میڈیا نے مسلمان کردیا۔ گزشتہ دو دنوں سے ہر ٹی وی چیانل اور قومی اخبارات کورونا وائرس کیلئے مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میڈیا کا یہ پروپگنڈہ کیا کم تھا کہ سوشیل میڈیا میں مخصوص زعفرانی ذہن کے افراد مسلمانوں کے خلاف میدان میں آگئے اور کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے لئے مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دیا جانے لگا۔ دہلی کے نظام الدین تبلیغی جماعت کے مرکز میں حال ہی میں منعقدہ اجتماع میں شریک چند افراد میں کورونا وائرس کے اثرات پائے گئے اور تلنگانہ سمیت بعض ریاستوں میں اموات واقع ہوئی۔ تبلیغی جماعت کے مرکز میں اجتماع کیا ہوا مخالفین کو مسلمانوں اور مسلم مذہبی تنظیموں کے خلاف مہم کیلئے ہتھیار مل گیا۔ تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں سے ساری دنیا واقف ہے جو گاؤں گاؤں پھر کر اسلام کی تعلیم عام کرتے ہیں۔ دور دراز کے گاؤں میں مسلمانوں کو مرتد ہونے سے بچانے اور قادیانی تحریک کو شکست دینے میں تبلیغی جماعت کے سرگرمیوں میں اہم رول ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ زعفرانی تنظیموں کو تبلیغی جماعت کی سرگرمیاں کھٹکنے لگیں اور کورونا وائرس کے بہانے تبلیغی جماعت کو نشانہ بنانے کا موقع مل گیا ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ سرکاری سطح پر کورونا پازیٹیو کیسس کی تعداد کے بارے میں اعلان کا انتظار کئے بغیر من مانی طور پر متاثرین کی تعداد کا جھوٹا دعویٰ پیش کر رہے ہیں۔ حکومت نے ابھی تک نظام الدین مرکز میں موجود افراد کی رپورٹ کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی ہے لیکن گودی میڈیا ابھی سے تبلیغی جماعت پر پابندی اور ان کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے گلہ پھاڑ پھاڑ کر حکومت اور نظم و نسق کو عملاً دھمکا رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مرکز میں کورونا وائرس کا اثر پایا گیا تو اس کے لئے جماعت ذمہ دار کیسے ہوگی۔ لاک ڈاؤن کے اعلان کے ساتھ ہی تبلیغی جماعت کے ذمہ داروں نے پولیس اور دیگر عہدیداروں کو بڑی تعداد میں موجودگی سے آگاہ کرتے ہوئے منتقلی کے لئے بسوںکا انتظام کرنے کی درخواست کی تھی۔ نظم و نسق نے اس جانب توجہ دیئے بغیر مرکز میں موجود افراد کو برقرار رکھنے کا مشورہ دیا۔ ایک طرف سماجی دوری کی ہدایت دی جارہی ہے تو دوسری طرف تبلیغی مرکز سے عوام کی عدم منتقلی کئی شبہات پیدا کرتی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ نظم و نسق خود مسلمانوں میں کورونا وائرس کے اثر کی سازش کر رہا تھا۔ اب جبکہ تمام افراد کو منتقل کردیا گیا ہے، نیوز چیانلس کو اپنی جانبدارانہ بکواس بند کرتے ہوئے رپورٹ کا انتظار کرنا چاہئے ۔ اگر کوئی کانگریس یا بی جے پی کے قائد کو کورونا وائرس سے متاثر پایا گیا تو کیا دونوں پارٹیوں کو ذمہ دار قرار دیا جائے گا ؟ دراصل ہندوستانی قومی میڈیا نے جانبداری کی عینک پہن لی ہے اور اسے ہر معاملہ یکطرفہ دکھائی دیتا ہے۔ نظام الدین مرکز نے گزشتہ دو دن کے دوران وائرس کے اثرات کا پتہ چلا لیکن گزشتہ ایک ماہ سے کیرالا ، اترپردیش ، مہاراشٹرا اور دیگر ریاستوں میں کورونا کے مریض منظر عام پر آرہے ہیں ، جن کا تعلق مسلم طبقہ سے نہیں ہے۔ ان ریاستوں میں کورونا کے لئے کیا نظام الدین مرکز کو ہی ذمہ دار قرار دیا جائے گا ؟ موجودہ انسانی بحران میں میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کو اپنی سماجی اور اخلاقی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے حدود میں رہ کر کام کرنا چاہئے ورنہ وہ دن دور نہیں جب عوام کا اعتماد چیانلوں پر سے اٹھ جائے گا۔