کھلے مقامات پر نمازکی مخالفت میں روزبہ روز اضافہ تشویش ناک

   

سیاست فیچر
مسلمانوں کے خلاف اب ملک میں کھلے مقامات پر نماز ادا کرنے کی مخالفت کا ماحول بنایا جارہا ہے جو یقیناً تشویش ناک ہے کیونکہ جو نماز کے پابند لوگ ہیں ان کے لئے کافی مشکل ہوگی کیونکہ ایسے لوگ نماز کا وقت ہوتے ہی جہاں بہتر جگہ میسر ہوتی ہے وہاں اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوتے ہیں اور خاص کر دیکھا گیا ہے کہ سفر کے دوران ریلوے اسٹیشنوں پر باجماعت نمازیں ادا کی جاتی ہیں جوکہ پرنور منطرہوتاہے۔ حالیہ واقعہ میں اتر پردیش پولس نے نوئیڈا سیکٹر 58 واقع دفاتر اور انسٹی ٹیوشنز کے نام ایک نوٹس جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو کھلے علاقوں، مثلاً پارکوں وغیرہ میں نماز پڑھنے سے روکیں۔ اس نوٹس کے جاری کئے جانے کے بعدکمپنیوں کے ایسے مسلم ملازمین کی پریشانیاں بڑھ گئی ہیں جن کے پاس مسجدوں میں جانے کا وقت نہیں رہتا۔ پولس نے نوٹس میں کہا ہے کہ اگر کمپنی کا کوئی ملازم ایسا کرتا ہوا دیکھا جاتا ہے تو اس کے لئے کمپنی کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق معاملے کی نزاکت کو دیکھے ہوئے کئی کمپنی مالکان نے اس تعلق سے پولس کے اعلیٰ افسران سے بات چیت کرنے کا مطالبہ کیا ہے لیکن ابھی تک کوئی راستہ نہیں نکل پایا ہے۔ کچھ کمپنی کے ایگزیکٹیو کا اس معاملے میں کہنا ہے کہ نوٹس جاری ہونے کے بعد علاقے میں فکر کا ماحول ہے۔ کمپنی مالکان اس بات سے پریشان ہیں کہ مسلم ملازمین پارک میں نماز ادا کریں گے تو اس کے لیے کمپنی کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا اور اگر وہ ملازمین کو ایسا کرنے سے روکتے ہیں تو لوگوں میں کمپنی کی غلط شبیہ بنے گی۔ ہندوستان مسلم آبادی کے اعتبار سے انڈونیشیا اور پاکستان کے بعد دنیا کا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ ملک میں مسلم آبادی 18 کروڑ ہے۔ ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے اور آئین کی رو سے ہر شخص کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ ہر کوئی بے خوف وخطر اپنے مذہب پر عمل کر سکتا ہے، مذہب ترک کر سکتا ہے اور اگر چاہے تو اپنا مذہب تبدیل بھی کر سکتا ہے۔ لوگ اپنے اپنے مذہب کی تبلیغ اور ترویج کے لیے آزاد ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ مساجد ہندوستان میں ہیں۔ مختلف اندازوں کے مطابق ملک میں مساجد کی تعداد تین سے پانچ لاکھ ہے۔اس کے علاوہ ہزاروں مقبرے،آستانے اور درگاہیں بھی ہیں جو ماضی کے مسلمانوں کی یاد دلاتی ہیں۔ ملک میں روایتی طور پر مذہبی رواداری کا چلن رہا ہے اور مختلف مذاہب کے لوگ ایک ساتھ مل جل کر رہتے آئے ہیں۔ عبادت کے لئے مسجد کی تعمیر میں کبھی روکاوٹ نہیں آتی تھی۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ مساجد کی تعداد میں بھی اضافہ ہو تا گیا۔گذشتہ 30، 35 برس میں ملک میں اقتصادی ترقی کے ساتھ بڑے بڑے شہروں نے ملازمت اور روزی کے نئے راستے کھول دیے۔ ان برسوں میں دیہی علاقوں اور چھوٹے چھوٹے قصبوں سے کروڑوں لوگ بڑے شہروں میں آ کر آباد ہوگئے۔ کروڑوں کی تعداد میں مسلمانوں نے بھی ہجرت کی۔ ان کی پہلی توجہ روزی روٹی اور ملازمت پر مرکوز تھی۔

نوئیڈا، بنگلور، پونے، گروگرام، دہلی، حیدرآباد اور فرید آباد میں نئی نئی بستیاں وجود میں آئیں۔ ان نئی بستیوں میں غالب اکثریت ہندوؤں کی تھی۔ ہندوؤں کے مذہبی اداروں اور خود ہندو شہریوں نے اپنی مذہبی ضروریات کے مطابق اپنی عبادت گاہیں تعمیر کیں لیکن مسلمان اپنی کم آبادی اور بکھرے ہونے کے سبب اپنی نئی عبادت گاہیں تعمیر نہیں کر سکے۔ پچھلے دو دہوں میں پیشہ ورکاریگروں کے ساتھ تعلیم یافتہ اور متوسط طبقے کے مسلمانوں کی تعدا د میں تجارتی اور کاروباری شہروں میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ بڑے شہروں میں مساجد کی تعمیر ایک انتہائی مہنگا عمل ہے۔ مسلمان چونکہ منظم نہیں ہیں اس لیے شہروں میں اضافی مساجد کی ضرورت کے باوجود وہ تعیمرنہیں کی جاسکیں۔ دوسرے اس مدت میں ملک میں رفتہ رفتہ ایک تبدیلی یہ آئی کہ نئے علاقوں میں مساجد کی تعمیر کے لیے منظوری ملنا ایک دشوار عمل ہو گیا۔ کئی مقامات پر مقامی لوگوں کی مخالفت کے سبب بھی مساجد کی منظوری ملنے میں دشواری پیش آنے لگی۔ مسجدوں کی قلت کے سبب بہت سے مقامات پر مسلمان اپنی نمازیں بالخصوص جمعہ کی نماز خالی پڑی سرکاری زمینوں اور پلاٹوں پر ادا کرنے لگے۔کئی مقامات پر مسجدوں کی صفیں مساجد کی فصیلوں سے نکل کر سڑکوں تک پھیل گئیں۔ مسلمانوں نے بعض مقامات پر عید کی نمازیں سڑکوں اور شاہراہوں پر ادا کرنی شروع کر دیں۔ نمازوں کے دوران کئی شہروں میں راستے بند کر دیے جاتے ہیں اور ٹریفک کے راستے بدلنے پڑتے ہیں۔ بہت سے سماجی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ عام شہریوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا کرنے میں کھلے مقامات اور سڑکوں پر نماز پڑھنے نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ مذہب اگرچہ کسی شہری کا قطعی طور پر ایک انفرادی اور ذاتی معاملہ ہے اور اس میں ریاست کا کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے لیکن شہروں کی منصوبہ بندی میں جس طرح اسکول، کالجز، ہسپتال اور دوسری سہولیات کا انتظام ہوتا ہے اسی طرح مذہبی ضروریات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ نئے شہروں کی منصوبہ بندی میں حکومت اور انتطامیہ نے بیشتر مقامات پر مسلمانوں کی مسجدوں کی ضرورت کو نظر اندازکیا ہے لیکن مسلمان بجائے خود اجتماعی طور پر اپنا انتظام کرنے کے حکومت کا منہ دیکھتے رہے اور خود کو مظلوم سمجھتے رہے۔ دہلی کے نواحی شہر گروگرام میں بعض ہندو تنظیمیں کھلے مقامات پر نماز پڑھنے کی مخالفت کر تی آرہی ہیں ۔ ریاستی حکومت بھی اس کے خلاف ہے۔ بہت سے لوگ اس مخالفت کو ہندتوا کے ایجنڈے سے تعبیر کر رہے ہیں۔ ہندوؤں کے بہت سے مذہبی تیج تہوار سرکاری زمینوں پر ہی منعقد ہوتے ہیں ۔نماز پڑھنا مسلمانوں کا انفرادی اور ان کا ذاتی معاملہ ہے اور اس کے لیے حکومت کا منہ دیکھنے کے بجائے انھیں اپنا انتظام خود کرنا چاہیے۔