کھیل کھیل میں سرمایہ مستقبل

   

محمد منیر رحمانی

کرپادھیاں دیں ریل گاڑیجو حیدرآباد سے دہلی جانے والی اے ایکسپریس اپنے مقررہ وقت سے 2 گھنٹے تاخیر سے چل رہی ہے ۔ پرجوش کھڑے مسافرین اپنے ہی ساز و سامان پر ڈھیر ہوگئے ۔ اب جتنے منہ اتنی باتیں ۔ برہان کے ابو اپنے بچوں کو قریب بلاکر ’’ پیارے بچو ! ابھی ٹرین آنے میں کافی وقت درکار ہے لہذا ہم ایک معلوماتی کھیل کھیلتے ہیں تم سب کھیل کیلئے تیار ہوجاؤ ۔ پہلے تو برہان حیران ہوا ، بھلا اس پلیٹ فارم پر مسافرین کو ٹھہرنے کیلئے برابر جگہ نہیں ہے اور ابو یہاں کھیل کا میدان بنارہے ہیں ۔
کھیل دراصل یوں ہے کہ تمہارے علم میں جو بھی معلومات ہیں وہ دوسروں تک پہنچائیں ۔ مثلاً موجودیں مشہور و معروف شخصیتیں کے نام سیاست دانوں کے نام تاریخی واقعات ، سائنسدانوں کے بارے میں ، ادیب و شعرا وغیرہ وغیرہ ۔ برہان کے ابو کی بات بالکل پانی کی طرح صاف تھی فوراً سبھی بچوں نے ایک گروپ کی شکل میں کھیل کا آغاز کردیا اور پورے اعتماد کے ساتھ اپنی اپنی معلومات کا اظہار کیا ۔ برہان نے اس کھیل میں حصہ تو نہیں لیا بلکہ وہ اپنی ڈائری میں ساری معلومات کو قلم بند کر رہا تھا ۔ ابو نے جب برہان کے اس کام کو کرتے دیکھا تو خوش ہوئے اس کھیل سے متاثر ہو کر آس پاس کے بچوں نے بھی حصہ لیا اس طرح یہ کھیل دلچسپ بن گیا تھا ۔ بچوں کے ساتھ بڑوں نے بھی اپنی معلوماتی باتیں ، سرعام پہنچائی تھیں ۔ وقت کا احساس ہوا کہ دفعتاً اناؤنسر نے ریل گاڑی کی آمد کی اطلاع دی تو سب تیزی سے دوڑے … دہلی میں ایک ہفتہ رہنے کے بعد برہان اور اس کے تمام گھر والے حیدرآباد واپس ہورہے تھے ۔ ریلوے اسٹیشن پر پہنچتے ہی ابو نے برہان کو اپنے قریب بلاکر پوچھا ’’ دہلی کے مشہور مقامات اور سیر و تفریح کے دوران جو معلومات تم نے اپنی ڈائری میں درج کی تھیں ذرا وہ سناو تو صحیح میں بھی دیکھوں کہ ہمارا ہونہار بچہ بھی کسی سے کم نہیں ہے ؟ یہ سن کر برہان کا چہرہ پیلا پڑگیا وہ ڈرتے ہوئے کہنے لگا ’’ ابو دراصل کل رات میں ڈائری بہت تلاش کی لیکن مل نہیں پائی ہے ۔ بہت ساری معلومات اس میں درج تھی ۔ حالانکہ میں نے سب اس میں اچھی طرح لکھا ہے ۔ کب کون کہاں کیسے اور کیا کے بارے میں ‘‘ ابو اس پر برہم ہوگئے ان کا برہم ہونا بھی اس وقت واجب تھا لیکن اتنی ساری معلوماتی ڈائری کا کھوجانا ان کیلئے تشویش کا باعث بنتیں تھا ۔ برہان کا بھول جانا ان کے فکر کو مزید مستحکم بنالیا تھا وہ اپنے غصہ کو ٹھنڈا کرتے ہوئے بولے بیٹا جو کتابوں اور کاپیوں میں درج ہے وہ تمہارا اثاثہ نہیں ہے بلکہ اثاثہ تو وہ ہے جو تمہارے ذہن و گمان میں ہمشیہ محفوظ ہو اور ایک اچھے طالب علم کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو محاسبہ کرے اور خود کو بہتر بنائے تاکہ زندگی بھر وہ تمہارے لئے معلومات کا خزانہ کارآمد ثابت ہو ، ہاں یہ بھی ٹھیک ہے کہ جہاں کہیں تمہیں معلومات ملیں اسے اپنی ڈائری میں درج کرلو ۔ اُسے اپنے فارغ وقت میںیاد کرلیا کرو تاکہ وہ تمہیں یاد رہے اور ہمیشہ یاد رکھو جو سوال کرتا ہے وہ یہ نہیں دیکھتا ہے کہ تم جواب کو کتاب سے نکال کر دو گے بلکہ وہ یہ دیکھتا ہے کہ تم کتنا جلدی جواب دو گے ۔ ابو کی نصیحت نے اس کے دماغ کے دریچے کھول دیئے تھے ۔ تب ہی ابو نے اپنے بیاگ سے برہان کی کھوئی ہوئی ڈائری نکال کر دی اور کہا یہ لو ’’ سرمایہ مستقبل ‘‘ حفاظت سے رکھا کرو اپنی وہ چیزیں جس کی بنیاد مستقبل پر منحصر ہوں ۔ ‘‘