کے سی آر کابینہ میں انعام کے حقدار قائدین

   

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ راشٹرا سمیتی ( ٹی آر ایس) کا ایک دور ایسا بھی تھا وہ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن ( جی ایچ ایم سی ) کے انتخابات بھی لڑنے سے ڈرتی تھی ۔ اسے خوف تھا کہ وہ بلدی انتخابات میں بھی کامیاب نہیں ہوگی ۔ لیکن آج اس نے ہر انتخابات میں کامیابی کے جھنڈے گاڑھ دئیے ہیں ۔ پارٹی سربراہ کے چندر شیکھر راؤ نے سارے تلنگانہ کے اسمبلی ، لوک سبھا ، ضلع پریشد اور منڈل پریشد پر پارٹی کے غلبہ کو یقینی بنایا ہے ۔ اس پے در پے کامیابی کو دیکھتے ہوئے دوسری پارٹیوں کے ارکان کا بھی دل للچانے لگا اور وہ دھڑا دھڑ ٹی آر ایس میں شامل ہونے لگے ۔ حال ہی میں کانگریس چھوڑ کر ٹی آر ایس میں شامل ہونے والے 12 ارکان اسمبلی نے اپنے اس فیصلہ کو درست اور دستوری دفعات کے مطابق قرار دیا ہے ۔ ان کا یہ اقدام انحراف کی تعریف میں نہیں آتا ہے کانگریس نے پارٹی چھوڑنے والے قائدین پر الزام عائد کیا کہ یہ ارکان کانگریس کے ٹکٹ پر عوام کا خط اعتماد لے کر منہ مانگی رقم لیتے ہوئے ٹی آر ایس میں شامل ہوئے ہیں ۔ ان ارکان کو حکمران پارٹی نے کھلے عام بولی لگا کر خریدا ہے لیکن کانگریس کے اس الزام کا پارٹی چھوڑنے والے گروپ پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔ ایم ایل اے گندرا وینکٹ رمنا ریڈی نے واضح کہا کہ وہ کوئی بھینس یا بکری نہیں ہیں کہ انہیں کوئی بولی لگا کر خرید لے یہ تو کانگریس کو اپنا گریبان جھانکنا چاہئیے کہ آخر اس کی ناکامیوں کی وجوہات کیا ہیں ۔ ٹی آر ایس نے 2014 میں جب سے اقتدار سنبھالا ہے ۔ کانگریس ناکام ہوتے آرہی ہے ۔ چاہے وہ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے انتخابات ہوں یا اسمبلی انتخابات اور اب لوک سبھا کے بعد مقامی بلدی انتخابات میں بھی کانگریس کا صفایا ہوچکا ہے ۔ اسمبلی میں اپوزیشن کا موقف کھو دینے والی کانگریس کا المیہ یہ ہے کہ اس نے مسلسل ناکامیوں کے باوجود خود احتسابی کا عمل پورا نہیں کیا ۔ 119 رکنی تلنگانہ اسمبلی میں حکمران پارٹی ٹی آر ایس کے پاس زائد از 100 ارکان اسمبلی ہیں ۔ ان حالات نے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کا کام آسان بنادیا ہے اب وہ بلوں کو آسانی سے منظور کرالے سکتے ہیں ۔ قانون ساز کونسل میں بھی ٹی آر ایس نے اپنا غلبہ پیدا کرلیا ہے ۔ ایسی ہی صورتحال دہلی اسمبلی میں بھی پائی جاتی ہے ۔ جہاں 2015 میں حکمران عام آدمی پارٹی نے 70 کے منجملہ 67 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی ۔ اس سال آندھرا پردیش میں بھی چیف منسٹر وائی ایس جگن موہن ریڈی کی وائی ایس آر کانگریس پارٹی نے 175 نشستوں کے منجملہ 151 پر کامیابی حاصل کی ہے اور 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں 22 لوک سبھا حلقوں پر کامیاب ہوئے ۔ آندھرا اسمبلی میں اپوزیشن تلگو دیشم پارٹی کا موقف بہت ہی کمزور ہے ۔ یہ کیفیت ایک صحت مند جمہوریت کے لیے مناسب نہیں ہے ۔ ٹی آر ایس نے کانگریس کے پَر ہی کاٹ دئیے ہیں ۔ اب وہ مستقبل میں اپنا موقف مضبوط بنانے میں کامیاب ہوگی یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔ بنیادی طور پر کے چندر شیکھر راؤ تلنگانہ سے کانگریس کا صفایا کرتے ہوئے ’ کانگریس مُکت ‘ ریاست بنانا چاہتے ہیں ۔ لیکن یہ سیاسی تہذیب کے مغائر ہے ۔ کانگریس کے 12 ارکان اسمبلی کا اس طرح بڑی تعداد میں انحراف ہوجانا کانگریس کے لیے شدید دھکہ ہے ۔ یہ ارکان اپنی سیاسی بیروزگاری دور کرنے کے لیے ٹی آر ایس میں شامل ہوئے ہیں ۔ امکان غالب ہے کہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کابینہ میں توسیع کے ذریعہ ان ارکان کو کانگریس چھوڑنے کا انعام دیتے ہوئے کابینہ میں شامل کریں گے ۔ کابینہ میں خواتین کی نمائندگی کے وعدہ کو پورا کرنے کے لیے وہ سبیتا اندرا ریڈی اور اے للیتا کو قلمدان تفویض کریں گے ۔ اسمبلی میں حکمراں پارٹی کی اکثریت کے اعتبار سے مزید پانچ وزراء کو شامل کیا جاسکتا ہے ۔ تاہم ٹی آر ایس کو اخلاقی طور پر شدید تنقیدوں کا سامنا ہے کہ اس نے اپوزیشن کے نو منتخب ارکان کو لالچ دے کر انحراف کی سیاست کو ہوا دی ہے ۔ تلگو دیشم نے سرینواس یادو اسپیکر اسمبلی کے خلاف نااہلیت کی درخواست داخل کی ہے لیکن اس مرتبہ ٹی آر ایس کو اس طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا نہیں پڑے گا کیوں کہ اس انحراف کو دستور کے شیڈول دس کے دفعات کے مطابق قابل اعتراض نہیں سمجھا جائے گا ۔ کابینہ میں مزید پانچ ارکان کو شامل کرتے ہوئے دو خواتین کے علاوہ دیگر 3 وزراء کو شامل کیا جائیگا ۔ ان میں کے سی آر کے فرزند اور ٹی آر ایس کے ورکنگ صدر کے ٹی راما راؤ اور بھانجہ ٹی ہریش راؤ ، جی سکندر ریڈی شامل ہوں گے ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ اپنی دوسری میعاد کے دوران بہتر حکمرانی کو یقینی بنانا چاہتے ہیں ۔ حالیہ ضلع پریشد اور منڈل پریشد انتخابات نے انہیں بلدی سطح پر گاؤں گاؤں مزید مضبوط بنایا ہے ۔ اب ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ تلنگانہ کے تمام دیہی علاقوں کو ترقی دیں ۔ اس خصوص میں چیف منسٹر نے زیڈ پیز کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دینے کا اعلان کیا ۔ نو منتخب ضلع پریشد چیرمینوں کو مزید حرکیاتی بنانے کے لیے مالیاتی اور نظم و نسق کی ذمہ داری بھی دی جارہی ہے ۔ دیہی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے چیف منسٹر کے خصوصی ترقیاتی فنڈس سے 10 کروڑ روپئے کا خصوصی فنڈ جاری کرنے کا بھی اعلان ہوا ہے ۔ ریاست تلنگانہ نے 2 جون کو اپنی 6 ویں سالگرہ منائی ہے تو اس ریاست کو ملک کی دیگر اصل ریاستوں کے مقابل خوشحال ریاست کا درجہ بھی حاصل ہورہا ہے ۔ جسٹس فضل علی کمیشن نے علحدہ ریاست تلنگانہ کی سفارش کرتے ہوئے جن حقائق کی جانب توجہ دلائی تھی ان میں تلنگانہ کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں اور آندھرائی قیادت کی کوتاہیوں کی نشاندہی قابل غور تھی ۔ فضل علی کمیشن کی سفارشات کے عین مطابق تلنگانہ کو ترقی دینے کے لیے اگر ٹی آر ایس حکومت نے بیڑہ اٹھایا ہے تو نئی ریاست کے نئے مسائل بھی حل ہوجائیں گے ۔ ٹی آر ایس حکومت نے اگرچیکہ اپنے گذشتہ پانچ سالہ حکمرانی کے دوران کئی وعدوں کو پورانہیں کیا لیکن اس نے پانچ سال کے دوران بجٹ میں اپنے مالیہ کے توازن کو برقرار رکھا ۔ بجٹ کا زیادہ سے زیادہ حصہ فلاح و بہبودی اسکیمات اور پراجکٹس پر سرمایہ کاری کے لیے مختص کیا ۔ اس سے ریاست نے کئی معاشی شعبوں میں متاثر کن ترقی کا ریکارڈ درج کیا ہے ۔ مرکز کی کسی مدد کے بغیر ابتدائی پانچ سال کے دوران متوازن ترقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جہاں ٹی آر ایس نے دوبارہ اقتدار سنبھالا وہیں آندھرا پردیش میں تلگو دیشم حکومت کو مالیاتی امور سے نمٹنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ جس کے نتیجہ میں چندرا بابو نائیڈو حکومت کا زوال ہوا ۔ مرکز سے اے پی ری آرگنائزیشن قانون کے مسئلہ پر متصادم رہنے والی تلگو دیشم حکومت نے اپنی حکومت آسانی کے ساتھ وائی ایس آر کانگریس کے حوالے کردی ۔ آندھرا کے ساتھ مرکز کی نا انصافی اور نقصانات کے لیے تلگو دیشم کو ہی ذمہ دار ٹھہرا کر رائے دہندوں نے اپنا فیصلہ سنادیا جو نو منتخبہ وائی ایس آر کانگریس حکومت کے لیے بھی ایک درس ہے لیکن جگن موہن ریڈی سے کے سی آر کی دوستی کیا رنگ لائے گی اس پر عوام کی نظر ہے ۔