کے سی آر کی اندھی تائید ، مسلمانوں کے مفادات نظرانداز

,

   

نرسمہا راؤ ۔ بابری مسجد ۔ مقامی جماعت
صدی تقاریب پر خاموشی سے عوام ناراض

حیدرآباد۔ سابق وزیراعظم پی وی نرسمہا راؤ کی جینتی صدی تقاریب ایک سال تک منائے جانے کے متعلق تلنگانہ حکومت کے فیصلے نے اقلیتوں میں ناراضگی پیدا کردی ہے۔ کے سی آر جو اقلیت دوستی کے دعوے کرتے ہوئے نہیں تھکتے، انہوں نے ایک ایسی شخصیت کی صدی تقاریب ایک سال تک منانے کا فیصلہ کیا جنہوں نے اپنے دور میں بابری مسجد کی شہادت کی راہ ہموار کی تھی۔ جب کبھی انتخابات قریب آتے ہیں تو کے سی آر اقلیتوں سے ہمدردی کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں۔اتنا ہی نہیں تلنگانہ تحریک کے دوران علیحدہ ریاست تلنگانہ کی مخالفت کرنے والی شہر کی مقامی جماعت تشکیل تلنگانہ کے ساتھ ہی سیاسی قلابازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹی آر ایس کی حلیف بن گئی۔ اب جبکہ دونوں پارٹیاں کھل کر ایک دوسرے کی تائید کررہی ہیں لہذا اقلیتوں کے مسائل پس پشت ڈال دیئے گئے۔ حکومت سے بہتر تعلقات برسراقتدار پارٹی کی حلیف ہونے کی آڑ میں اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کو اہمیت دی جانے لگی۔ متحدہ آندھرا پردیش میں جس وقت کرن کمار ریڈی چیف منسٹر تھے، اسمبلی میں نرسمہا راؤ کو تعزیت کیلئے قرارداد پیش کی گئی تھی، اس وقت ایوان میں موجود مقامی جماعت کے فلور لیڈر اکبر اویسی نے تعزیتی قرارداد کی مخالفت کی تھی۔ اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات کی مہم میں مقامی جماعت پی وی نرسمہا راؤ کا نام لے کر کانگریس پارٹی کو نشانہ بناتی رہی، اب جبکہ ٹی آر ایس حکومت نرسمہا راؤ کی تعریفوں کے پُل باندھ رہی ہے، مقامی جماعت کی خاموشی مسلمانوں کے درمیان ایک سوال بن چکی ہے۔ ہر معاملے میں حکومت کی تائید کرنے والے مقامی جماعت کے صدر اور فلور لیڈر دونوں ہی نرسمہا راؤ کی صدی تقاریب پر لب کشائی سے گریزاں ہیں۔ آخر یہ سیاسی مصلحت ہے یا پھر حکومت سے خوف؟ ہر معاملے میں کے سی آر حکومت کو اپنے اشاروں پر کام کرنے کیلئے مجبور کرنے کا دعویٰ کرنے والی مقامی جماعت آج نرسمہا راؤ کے مسئلہ پر خاموش رہتے ہوئے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کررہی ہے۔ نہ صرف تلنگانہ بلکہ ہندوستان بھر میں مسلمان مجلس کی خاموشی پر برہم ہیں اور سوشیل میڈیا میں مجلس کی قیادت سے اس بارے میں سوالات کئے جارہے ہیں۔ نرسمہا راؤ کی تقاریب کے اعلان کے کئی دن بعد مقامی جماعت کے صدر نے ٹوئٹر پر صرف اتنا کہنے کی ہمت کی کہ نرسمہا راؤ ماہر معاشیات اور سماجی مصلح نہیں تھے، لیکن انہوں نے صدی تقاریب کی مخالفت یا ٹی آر ایس حکومت کے فیصلے پر کوئی تنقید نہیں کی۔ کے سی آر نے نرسمہا راؤ کو ’’بھارت رتن‘‘ اعزاز کیلئے مرکز سے نمائندگی کا فیصلہ کیا لیکن اس پر بھی مقامی جماعت خاموش ہے۔ بابری مسجد کیا مقامی جماعت کے لئے صرف انتخابی ایجنڈہ ہے؟ اگر ایسا نہیں تو پھر مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے مقامی جماعت کو صدی تقاریب کی مخالفت کرنی چاہئے۔ بابری مسجد اور نرسمہا راؤ دراصل مقامی جماعت کے لئے صرف سیاسی مقصد براری کے موضوعات کے علاوہ کچھ نہیں ہے، کیونکہ ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی نے مانصاحب ٹینک تا شمس آباد انٹرنیشنل ایرپورٹ کے ایکسپریس وے کو پی وی نرسمہا راؤ کے نام سے موسوم کیا تو اس وقت مقامی جماعت خاموش رہی۔ 2008ء میں راج شیکھر ریڈی نے مقامی جماعت کی قیادت کو نرسمہا راؤ کے نام کی مخالفت سے باز رکھا تھا۔ مسلمانوں سے متعلق ہر معاملے میں حکومت سے نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی مقامی جماعت نے بابری مسجد کی شہادت کے ذمہ دار شخص کی تقاریب کے سلسلے میں چیف منسٹر سے نمائندگی کی زحمت نہیں کی۔ کورونا لاک ڈاؤن کے دوران حکومت مساجد کو بند کرنے بالخصوص جمعہ کے موقع پر مساجد میں نماز کی اجازت کے بارے میں پابندی کا فیصلہ کرنے میں ہچکچا رہی تھی لیکن مقامی جماعت کے صدر نے اپنی حواری جماعتوں کے ساتھ پہنچ کر مساجد کو بند کرنے کا اعلان کردیا۔ اس طرح کے کئی معاملات میں حکومت کی اندھی تائید کی گئی لیکن مسلمانوں کو درپیش مسائل پر مقامی جماعت خاموش ہے۔ مسلمانوں کو 12% تحفظات کے بارے میں کبھی بھی آواز نہیں اٹھائی گئی۔ مسلم نوجوانوں کے انکاؤنٹرس، عنبرپیٹ کی مسجد یکخانہ کا انہدام، لاک ڈاؤن کے دوران مسلمانوں پر پولیس مظالم حتی کہ کورونا ٹسٹ اور علاج کے سلسلے میں پرانے شہر کو نظرانداز کرنے کے باوجود بھی مقامی جماعت کی قیادت کی خاموشی مسلمانوں میں بے چینی پیدا کرچکی ہے۔ آخر مسلمانوں کے نام پر کب تک اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کی جاتی رہے گی۔ سوشیل میڈیا پر اس سلسلے میں عوام کی جانب سے مجلسی قیادت سے سوالات کئے جارہے ہیں۔