گولکنڈہ میں شہر کی قدیم ترین مسجد کے اطراف غیر مجاز تعمیرات

   

سلطان قلی قطب شاہ کی تعمیر کردہ عبادت گاہ کے اطراف ہوٹلوں اور دکانات سے خطرہ
حیدرآباد ۔ 10 ۔ جنوری : ( سیاست نیوز) : شہر حیدرآباد میں کئی ایسے گمنام مقامات پر تاریخی عمارتیں موجود ہیں جس کا یا تو کوئی پرسان حال نہیں یا پھر اطراف و اکناف میں بڑھنے والی آبادی نے اس کے وجود اور اہمیت کو ختم کردیا ہے ۔ ان میں خاص کر قدیم عہد کی عبادت گاہیں قابل ذکر ہیں ۔ ایسی ہی ایک تاریخی مسجد گولکنڈہ کی جامع مسجد ہے جس کے اطراف ہوٹلوں اور دکانات کے قیام اور ترقی نے اس کے وجود کو کافی نقصان پہنچایا ہے ۔ 1518 میں سلطان قلی قطب شاہ کی جانب سے تعمیر کردہ جامع مسجد گولکنڈہ جو کہ قلعہ کے دروازہ کے نزد واقع ہے اس کے اطراف ہوٹلوں اور دکانات کے روز بہ روز بڑھنے سے نہ صرف اس تاریخی مسجد کے وجود کو نقصان ہوا ہے بلکہ اس کی اراضی پر غیر مجاز تعمیرات سے قبضہ کرنے والوں کے حوصلے بھی کافی بڑھ چکے ہیں ۔ اس مسجد کی اراضی قلعہ گولکنڈہ کے فصیل تک بتائی جاتی ہے اور بالاحصار دروازہ تک اس کی اراضی پر اب کئی دیگر عمارتیں نظر آرہی ہیں ۔ میڈیا نمائندے نے جب مسجد کی تصاویر لینے کی کوشش کی تونہ صرف اعتراض کیا گیا بلکہ تصاویر کو حذف کرنے کے لیے کہا گیا ۔ اطلاعات کے مطابق اس مسجد کی تزئین نو کے لیے 30 لاکھ روپئے کا فنڈ بھی جاری ہوا ہے ۔ یہ مسجد محکمہ آثار قدیمہ کی حفاظت کے تحت آنے والی ایک یادگار عبادت گاہ ہے جو کہ قلعہ گولکنڈہ کے تحت آتی ہے ۔ محکمہ آثار قدیمہ (اے ایس آئی ) نے اس مسجد کے اطراف واکناف تعمیری کاموں کو روکنے کی نوٹس بھی جاری کی تاہم اس کے باوجود اطراف تعمیری کام ہورہے ہیں ۔ دوسری جانب اے ایس آئی کے قواعد کے مطابق تاریخی عمارت کے 100 میٹر کے دائرے میں کوئی دوسری عمارت تعمیر نہیں کی جاسکتی ہے ۔ علاوہ ازیں اے ایس آئی حیدرآباد کے سپرنٹنڈنگ آرکیالوجسٹ کمار چاؤلے نے کہا ہے کہ انہوں نے متعلقہ عہدیداروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ اس معاملے کی تفصیلات حاصل کرتے ہوئے رپورٹ داخل کریں جس کے بعد مسجد کے اطراف ہونے والی تعمیری کاموں کے خلاف نوٹس جاری کی جائے گی ۔ یاد رہے کہ یہ مسجد تاریخی اہمیت کی حامل عمارت ہے جیسا کہ 1927 کے دستاویزات میں اس کی جو تفصیلات درج ہیں اس کے بموجب یہ بہمنی دور کی ایک اہم شاہکار ہے ۔۔