گھڑی کی چوری

   

انجم کی دسویں سالگرہ تھی۔ اسی خوشی میں شریک ہونے کیلئے اس باراس کے ماموں بھی وہاں موجود تھے۔ اس موقع پر انہوں نے انجم کو ایک نہایت قیمتی اور خوبصورت گھڑی تحفہ میں دی جسے دیکھ کر وہ باغ باغ ہواٹھا۔ اس چھوٹی سی بستی میں ویسی گھڑی تو کسی نے کبھی دیکھی نہ ہوگی۔ اس میں وقت بتانے کیلئے چھوٹے بڑے کانٹوں کو گھومنے پھرنے کی بھی ضرورت نہ تھی۔ یہ کام اس میں موجود ہند سے کیا کرتے تھے۔ گھڑی دیکھ کر کسی نے یہ چبھتا ہوا سا جملہ جڑ دیا۔ ’یہ تو پرانی گھڑیوں سے زیادہ پڑھی لکھی معلوم ہوتی ہے‘۔ ماموں نے کہا، ’آج کل تو لوگ اسی قسم کی ڈیجیٹیل گھڑیوں کو پسند کرتے ہیں‘۔
انجم کبھی گھڑی کو کلائی پر سجاتا کبھی دوستوں کو دکھاتا۔ ہر آدھے گھنٹہ بعد اس میں الارم بج اٹھتا۔آواز ایسی پیاری کہ بار بار سننے کو جی چاہے۔ نئے لوگ اسے سن کر چونک اٹھتے تو انجم کو بڑا مزہ آتا۔ایک دن دوپہر میں انجم کو گھڑی کا خیال آیا۔ ادھر ادھر ڈھونڈا گھڑی نہ ملی تو وہ گھبرا گیا۔ اتنی قیمتی چیز اچانک گم ہوگئی۔ ماموں پوچھیں گے تو کیا جواب دوں گا۔ اسے یاد آیا کہ صبح پڑوس کے جمن میاں کی بیوی نصرت خالہ اور ان کے دو بچے انجم کے گھرآئے تھے۔ وہ لوگ کبھی کبھار دادی جان کی خیریت پوچھنے چلے آتے تھے۔ جمن میاں رکشہ چلا کر کسی طرح گزر بسر کیا کرتے۔ آمدنی بہت کم تھی اور گھر میں چھوٹے بڑے آٹھ بچے جو ایک ایک چیز کو ترستے رہتے۔ جمن میاں بھلا ان سب کی خواہشات کیسے پوری کرتے؟ وہ ان کی تعلیم کا بھی مناسب انتظام نہیں کر پائے تھے۔ ڈھیر سارے لوگوں سے بھری زندگی کی گاڑی کو بھی وہ اپنی ٹوٹی پھوٹی رکشہ کی طرح کسی طرح اونچائی پر چڑھائے چلے جارہے تھے۔انجم کو یقین ہوگیا کہ ان ہی بچوں نے گھڑی پر ہاتھ صاف کیا ہے۔ اس نے ارادہ کیا کہ فوراً نصرت خالہ سے جاکر بات کرے پھر خیال آیا، اس طرح وہ لوگ گھڑی کہیں چھپا دیں گے۔ یہ بات طے تھی کہ گھڑی چوری ہوئی تھی ورنہ آدھا گھنٹہ گزرنے کے بعد بھی اس کی آواز ضرور سنائی دیتی۔ اس نے جاسوسوں کی طرح سوچنا شروع کیا۔ اچانک یہ خیال آیا کہ چلو نصرت خالہ کے گھر کچھ دیر رک جائیں۔آدھے گھنٹہ بعد جب گھڑی کا الارم سنائی دے گا تو وہ لوگ رنگے ہاتھوں پکڑے جائیں گے۔ ان کے گھر گھڑی ہوگی تو بچ نہیں سکتے۔ انجم پورے جوش کے ساتھ اس مہم پر روانہ ہونے ہی والا تھا کہ اس کی امی کی آواز دوسرے کمرے سے سنائی دی۔ ’انجم یہ دیکھو تمہاری گھڑی یہاں تکیہ کے نیچے پڑی ہے‘۔ انجم بری طرح چونکا۔ تکیہ اٹھا کر تو دیکھا ہی نہیں تھا۔ اس نے امی سے پوچھا’ امی! ہر بار تو اس کا الارم سنائی دیتا ہے اس بار کیوں سنائی نہیں دیا؟‘۔ امی نے کہا، ’ارے اس کا کوئی بٹن دب گیاہوگا۔ کبھی ایسا ہوجاتا ہے۔ ابو اسے دوبارہ سیٹ کر دیں گے‘۔انجم گھڑی پاکر خوش تو ہوا مگر اس کے دل میں ایک کانٹا سا کھٹکتا رہا کہ جمن میاں کی غریبی نے اسے ان کے بارے میں کیا کیا سوچنے پر مجبور کیا۔ کتنی بدگمانیاں کیں۔ اسے اپنے آپ پر شرمآنے لگی۔