ہر ایک گھر میں دیا بھی جلے اناج بھی ہو

   

کورونا کا خوف … خونی رشتوں میں فاصلے
معیشت بدحال … غریب بے حال

رشیدالدین
دنیا جاریہ صدی کے بدترین بحران سے گزر رہی ہے۔ انسانی جانوں کے نقصان کے اعتبار سے قیامت صغریٰ کا منظر دکھائی دے رہا ہے تو دوسری طرف دنیا کی تمام معیشتیں تباہی کا شکار ہیں ۔ انسانی تاریخ نے بہت کم ایسے تجربات کا سامنا کیا ہوگا جس میں بیک وقت جانی اور مالی نقصان ہوا۔ جس دن قیامت بپا ہوگی، نفسا نفسی کا معاملہ ہوگا ، جس کا تذکرہ قرآن مجید میں آیا ہے کہ ’’اس دن انسان دور بھاگے گا اپنے بھائی سے ، اپنی ماں اور اپنے باپ سے اور اپنی بیوی اور بیٹے سے‘‘۔ قیامت کا یہ منظر دنیا میں آج دکھائی دے رہا ہے۔ ایک مہلک وائرس نے دنیا کو عملاً روز محشر میں تبدیل کردیا جہاں ہر ایک شخص دوسری سے دوری اختیار کرچکا ہے۔ خونی رشتوں کا بھی کوئی پاس و لحاظ نہیں۔ وائرس کے ڈر سے ہر ایک کیلئے دوسرا شخص خطرہ دکھائی دے رہا ہے ۔ کورونا نے ایسا قہر ڈھایا کہ خونی رشتے اور رشتہ داریاں دوری میں تبدیل ہوگئیں۔ کوئی دوسرے کے پاس جانے تیار نہیں بلکہ لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ کوئی باہر والا گھر نہ آئے تو بہتر ہے ۔ اسلام میں جو مہمان رحمت ہے، آج زحمت بلکہ وائرس کا خطرہ تصور کیا جارہا ہے ۔ وائرس کے پھیلاؤ کے خوف کا یہ عالم ہے کہ ہر کسی کی زبان پر ایک ہی جملہ ہے کہ ’’جو جہاں ہے وہیں رہے‘‘ دنیا بھر میں خونی رشتوں سے دوری اور خوف کے اگرچہ کئی واقعات منظر عام پر آئے ہیں لیکن تلنگانہ کے ایک واقعہ نے انسانیت کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک گاؤں کے سرپنچ نے اپنی ماں کو گاؤں میں داخلہ کی اجازت نہیں دی ۔ جس ماں نے 9 ماہ تک کوکھ میں پالا وہی ماں بیٹے کو وائرس کا خطرہ دکھائی دینے لگی۔ سرپنچ کے ایسے ہزار عہدے ماں پر قربان ہیں لیکن بدبخت کو کوئی سمجھائے کہ ماں وائرس نہیں بلکہ مجسم شفاء ہوتی ہے۔ اس کی دعا آفات اور بلاؤں کو روک دیتی ہے۔ الغرض کورونا وائرس نے سماجی فاصلہ کے نام پر نفسا نفسی کا ماحول پیدا کردیا ہے ۔ انسانوں کے درمیان دوریاں اگرچہ پہلے سے تھیں لیکن یہ ذہنی اور قلبی دوری تھی لیکن اب تو فاصلوں میں مصافحہ کو بھی وائرس کے تناظر میں مشکوک بنادیا ہے ۔ سماجی دوری کے ساتھ ساتھ معاشی بحران کے خاتمہ کیلئے کافی وقت درکار ہوگا۔ اگر ہندوستان کی بات کریں تو حکومت کی غفلت اور لاپرواہی نے صورتحال کے بگاڑ میں اہم رول ادا کیا ۔ کورونا وائرس نے 30 جنوری کو ہندوستان پر دستک دی لیکن حکمراں اس تباہی سے بے خبر خواب غفلت کا شکار رہے۔ چین کی تباہی سے سبق لے کر احتیاطی قدم اٹھانے کے بجائے مرکزی حکومت کو مارچ تک بھی کورونا کا کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا۔ مرکزی حکومت اپنے سیاسی ایجنڈہ پر عمل آوری پر ساری توجہ مرکوز کرچکی تھی۔ شہریت ترمیمی قانون کی منظوری کے بعد نریندر مودی اور ان کے وزیر باتدبیر بی جے پی کے چانکیہ امیت شاہ کو این آر سی اور این پی آر کے نفاذ کا جیسے جنون سوار تھا، این آر سی اور این پی آر کے نام پر ہندوستانی شہریت سے محروم کرنے کی سازش کے درمیان کورونا نے اپنے زہریلے قدم ہندوستان میں جمالئے تھے ۔ کورونا کو اس بات سے کوئی مطلب نہیں کہ کون ہندوستانی شہری ہے اور کس کی شہریت مشکوک ہے۔ وائرس نے تباہی مچادی تو حکمراں این آر سی اور این پی آر بھول گئے اور ہر شخص ہندوستانی شہری دکھائی دینے لگا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر نفرت کے ایجنڈہ کے بجائے کورونا کی روک تھام پر توجہ دی جاتی تو صورتحال مختلف ہوتی۔ چین کی تباہی ہمارے سامنے تھی اور پہلا کیس بھی چین سے ہندوستان پہنچا تھا۔

فروری سے تمام ایرپورٹس پر بیرونی مسافرین کی جانچ شروع کردی جاتی تو پھیلاؤ کو بروقت روکا جاسکتا تھا۔ امریکی صدر ٹرمپ کی آمد کا جشن منایا گیا اور مدھیہ پردیش میں کانگریس کی عوامی منتخب حکومت کو زوال سے دوچار کیا گیا ۔ اتنا ہی نہیں کورونا اپنے پیر پھیلا چکا تھا لیکن 23 مارچ تک پارلیمنٹ کا اجلاس جاری رہا جس میں کئی ایسے ارکان پارلیمنٹ شریک ہوئے جنہوں نے ایک فلم سنگر کے کنسرٹ میں شریک ہوئے تھے جو کورونا سے متاثرہ تھی ۔ یہ ارکان پارلیمنٹ صدر جمہوریہ کی دعوت میں بھی شریک ہوئے ، صورتحال جب بے قابو ہونے لگی تو جنتا کرفیو اور 21 روزہ لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا جس میں 3 مئی تک توسیع کردی گئی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کی وارننگ کو نظر انداز کرنے کا خمیازہ بڑی تعداد میں ہلاکتوں کی صورت میں بھگتنا پڑا ۔ متاثرین اور مہلوکین کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔ 12 سے زیادہ ریاستوں میں وائرسکی صورتحال تشویشناک بنی ہوئی ہے ۔ اگرچہ ہندوستان ابھی تک اسٹیج 2 کے مرحلہ میں ہے لیکن کمیونٹی ٹرانسمیشن کا خطرہ ابھی بھی برقرار ہے ۔ بعض میڈیکل سروے رپورٹس میں کورونا کے ستمبر تک ہندوستان میں قیام اور 58 فیصد آبادی کے متاثر ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا گیا ۔ ملک میں کورونا کی صورتحال دیگر ممالک کے مقابلہ بڑی حد تک قابو میں ہے لیکن احتیاطی تدابیر میں غفلت سے منظر تبدیل ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔

کورونا نے ملک کی معیشت کو تباہی سے دوچار کردیا ہے۔ 2009 ء میں عالمی مالیاتی بحران نے ہر کسی کو ہلاکر رکھ دیا تھا لیکن اس وقت ہندوستان خوش قسمت رہا۔ معاشیات کے ماہر ڈاکٹر منموہن سنگھ نے وزیراعظم کی حیثیت سے ہندوستان کو معاشی تباہی سے بچانے میں اہم رول ادا کیا۔ اب جبکہ کورونا سے معیشت کی تباہی الگ انداز کی ہے ، لہذا ہندوستان خود کو اس تباہی سے بچا نہیں سکتا۔ لاک ڈاؤن کے نتیجہ میں لاکھوں افراد روزگار سے محروم ہوچکے ہیں۔ کئی چھوٹی اور متوسط صنعتوں کو بند کردیا گیا ۔ روزانہ محنت مزدوری کرنے والے افراد بالخصوص تعمیری لیبر فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ روزگار سے محرومی اور وائرس کے خطرہ نے لاکھوں غیر مقامی ورکرس کو پیدل چل کر اپنے آبائی مقام پہنچنے پر مجبور کردیا ہے ۔ سینکڑوں کیلو میٹر کا فاصلہ مرد ، خواتین اور بچے پیدل طئے کر رہے ہیں، انہیں اس بات کا یقین ہے کہ اگر وائرس سے مرنا ہی ہے تو کیوں نہ اپنے لوگوں کے درمیان آخری لمحات گزاریں۔ فاقہ کشی سے مرنے سے بہتر ہے کہ اپنے آبائی مقامات پہنچ جائیں۔ ممبئی ، دہلی اور گجرات میں وقفہ وقفہ سے ہزاروں غیر مقامی مزدور سڑکوں پر نکل کر حکومت سے واپسی کے انتظام کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ ہزاروں مزدوروں کے بیک وقت سڑکوں پر آجانے سے سماجی فاصلہ کا کوئی پاس و لحاظ باقی نہیں رہا ۔ حکومت اور اس کا گودی میڈیا ہزاروں ورکرس کے سڑکوں پر آنے کے منظر کو چھپا رہے ہیں جبکہ میڈیا نے دہلی کے تبلیغی جماعت مرکز کے معاملہ کو کچھ اس طرح پیش کیا جیسے ہندوستان نے وائرس کے لئے یہ مرکز ذمہ دار ہو۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ بحران کے نتیجہ میں آئندہ کم از کم دو برسوں تک ورکرس اور لیبر دستیاب نہیں رہے گا ۔ لاک ڈاؤن کے نتیجہ میں کئی اداروں نے ملازمین کی کٹوتی کردی ہے ۔ ہندوستان جیسے کثیر آبادی والے ملک میں روٹی روزی کے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔

مزدوروں اور بالخصوص غریب خاندانوں کی بے چینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پولیس اور ہاسپٹلس پر حملوں کے واقعات پیش آرہے ہیں ۔ دنیا بھر میں بے چینی کی اس کیفیت کو اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے دنیا بھر کے لئے خطرہ کی گھنٹی قرار دیا ہے۔ انہوں نے دنیا کو خبردار کیا کہ وہ وائرس کے خاتمہ کے بعد بدامنی کی صورتحال کا سامنا کرنے تیار رہے۔ جس ملک کی جتنی آبادی ہوگی ، اسے اتنے ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہر سطح کی انڈسٹریز ، کارخانہ حتیٰ کہ چھوٹے بڑے تمام کاروبار ٹھپ ہوچکے ہیں اور غریب کے ساتھ ساتھ دولتمند طبقہ بھی اپنے مسائل میں گرفتار ہے۔ ہندوستان میں وائرس کا خاتمہ کب ہوگا اور اس کے بعد معاشی سرگرمیاں کب بحال ہوں گی، یہ سوال ماہرین میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے ۔ مرکز ہو یا ریاستی حکومتیں غریبوں کے لئے معاشی پیاکیج کا اعلان کیا لیکن یہ پیاکیج صرف سطح غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کیلئے ہے۔ اس میں بھی 50 فیصد سے زائد خاندان امداد سے محروم ہیں ۔ حکومتوں نے اوسط اور تنخواہ یاب طبقہ کی بھلائی پر کوئی توجہ نہیں دی ہے۔ کیا حکومت کو اندازہ نہیں کہ متوسط طبقات کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے سے گریز کرتے ہیں۔ ان خاندانوں کی مدد آخر کون کرے گا ؟ آمدنی کے تمام ذرائع بند ہوچکے ہیں، کوئی بھی ملازمت کا موقع دستیاب نہیں۔ ان حالات میں متوسط طبقات کو کوئی قرض بھی نہیں دے گا ۔ مکانات کے کرایہ جات کی ادائیگی اور بینکوں سے حاصل کردہ قرض کی اقساط کی پابجائی اہم مسئلہ بن چکی ہے ۔ کئی خاندان ایسے ہیں جنہوں نے گھریلو اشیاء اقساط پر حاصل کی ہیں یا پھر وہ قرض حاصل کرتے ہوئے گھر چلا رہے ہیں۔ انہیں تو مقررہ تاریخ پر قسط بہر صورت ادا کرنی ہے۔عزت نفس ایسے خاندانوں کو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے سے روک دیتی ہے۔ ماہرین معاشیات کے مطابق ہندوستان اور دیگر ممالک کو معاشی بحران سے ابھرنے میں کم از کم 20 برس لگ جائیں گے۔ معیشت کی تباہی سے ابھرنے کے لئے حکومتیں سرکاری محکمہ جات کے ڈپازٹس نکالنے پر غور کر رہی ہیں۔ اگر صورتحال بہتر نہ ہوئی تو عوام کے ڈپازٹس بھی حکومت کے نشانہ پر آسکتے ہیں ۔ کورونا کے ساتھ ساتھ معاشی بدحالی کے خاتمہ پر حکومتیں توجہ نہ دیں تو بدامنی کا خدشہ برقرار رہے گا۔ حکومت کو کورونا کے خاتمہ کا انتظار کئے بغیر معاشی سطح پر کام شروع کرنا ہوگا۔ ندا فاضلی نے اسی بات کو منفرد انداز میں ادا کیا ہے ؎
ہر ایک گھر میں دیا بھی جلے اناج بھی ہو
اگر نہ ہو کہیں ایسا تو احتجاج بھی ہو