ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے ’’ نوکر ہے تو ‘‘ کام کر : پرکاش راج

,

   

ہندوستان نے سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کو مسترد کردیا ہے ، دھرنا چوک پر احتجاجی جلسہ عام سے معروف فلم اداکار کا خطاب
n n باپ دادا فرنگیوں سے لڑے تھے
ہم سنگھیوں سے لڑرہے ہیں
n n وہ بھی جیتے تھے ، ہم بھی جیتیں گے
n n طلبہ تنظیموں کے قائدین کا جذباتی تاثر

حیدرآباد۔20جنوری(سیاست نیوز) انتخابات میں جب ہم نہیں چنتے ہیں تو ہم ہارتے ہیں‘اور جب ہم صحیح چنتے ہیں تو ہم جیت جاتے ہیں‘ وزیر داخلہ ستیہ ہریش چندر بول رہے ہیں ہم این آرسی لے کر آئیں گے ‘ سچ بول رہے ہیںلیکن پردھان منتری جھوٹ بول رہے ہیں کہہ رہے ہیں این آر سی کا چرچا ہی نہیں ہے۔ہم سمجھ سکتے ہیں بھائی سچ بولو جھوٹ بولو ہمیںآپ کے ایجنڈہ کاپتہ ہے الو مت بنائیے ایک مرتبہ کرنسی تنسیخ کے دوران بنا چکے اب ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے۔ معروف فلم اداکارپرکاش راج نے آج دھرنا چوک پر ینگ انڈیا موؤمنٹ کی جانب سے منعقدہ جلسہ سے خطاب میں یہ بات کہی۔ پرکاش راج نے کہا کہ آپ جو سوٹ پہنتے ہیں نا وہ ہمارا ٹیکس ہے۔ آپ کا جو عالمی سفر ہوتا ہے وہ ہمارے ٹیکس سے ہوتا ہے۔انہو ںنے جذبات سے مغلوب ہوکر کہا کہ ’نوکر ہے تو‘ کام کر‘ ایک لیٹر دودھ میں 10لیٹر پانی ملاکر 100 بچوں کو جو پلا رہا ہے نا اس کو دیکھ۔انہوں نے کہا کہ اگر تجھے نیشنل رجسٹربنانا ہے نا تو تو بنا رجسٹر لیکن بے روزگاروں کا رجسٹر بنا‘ جنہیں تعلیم نہیں مل رہی ہے ان کا رجسٹر بنا‘جو بھوکے ہیں ان کا رجسٹر بنا۔الو مت بناؤ ملک اب سننے والا نہیں ہے۔ اب جو کھڑے ہیںوہ پڑھے لکھے ہیں آپ جیسے نہیں ہیں ۔انہو ںنے کہا کہ ملک کو اب یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم نہیں چنتے ہیں تو ہم ہارتے ہیں۔پرکاش راج نے کہا کہ ملک میں موجود حکمراں طبقہ چاہتا ہے کہ احتجاجی پر تشدد ہوجائیں لیکن ہمیں اس کو تشدد سے پاک رکھنے کی ضرورت ہے۔انہو ںنے واضح کیا کہ ہندستان نے سی اے اے ‘ این آر سی اور این پی آر کو مسترد کردیا ہے۔ جلسہ میں جناب عامر علی خان نیوز ایڈیٹر سیاست ‘ پروفیسر پی ایل ویشویشور راؤ‘ مسٹر فیضان‘ مسٹر سلیم‘جناب حامد محمد خان‘محترمہ جسوین جئے رتھ و دیگر موجود تھے۔پرکاش راج نے کہا کہ یہ لڑائی میری یا تیری نہیں بلکہ ہماری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سی اے اے اور این آر سی سب جملہ ہے آسام کی صورتحال دیکھو اور یاد رکھو۔جدوجہد میں لگے رہو دل و جاں سے لگے رہو۔ اگر آج ہم چپ رہے تو نتیجہ سنگین ہوگا۔ جرمنی میں یہی ہواتھا جب ہٹلر نے شہریت قانون لایا تھا اور عوام خاموش رہے تو انہیں کنحالات کا سامنا کرنا پڑا سب جانتے ہیں۔انہو ںنے کہا کہ سوال کرو سوال کرو اور سوال کرو۔ہٹلر کا ٹاپ فلور بھی خالی تھا اور اس کا ٹاپ فلور بھی خالی ہے۔ سردار پٹیل نے آر ایس ایس پر پابندی لگائے جانے کے بعد انتباہ دیا تھا کہ وہ ایسی کوئی حرکت نہ کریں اب ہم بی جے پی کو یہ انتباہ دیتے ہیں۔جناب عامر علی خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہندستان میں دلت و مسلمانوں کے خلاف جو ماحول تیار کیا جا رہاہے اس کا سیاسی مقصد ہے اور سب جانتے ہیں حکومت دلتوں اور مسلمانوں کو حراستی کیمپوں میں منتقل نہیں کریگی لیکن دوسرے درجہ کے شہری بناکر ہی دم لینے والی ہے۔ انہو ںنے کہا کہ جو لوگ ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹنے کی بات کر رہے ہیںوہ لوگ دراصل مردہ ہیں انہیں عوام کی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے۔ جناب عامر علی خان نے جدوجہد کو جاری رکھنے کے علاوہ اس میں دیگر ابنائے وطن کو جوڑنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ جب تک ہر ہندستانی ان مظالم کے خلاف شانہ بشانہ جدوجہد کیلئے تیار نہیں ہوتا ہندستان کی کامیابی ممکن نہیں ہے۔ انہو ںنے واضح کیا کہ یہ جدوجہد دستور کے تحفظ کی جدوجہد ہے اور دستور بچے گا تو ملک بچے گا اسی لئے ملک کو بچانے دستور بچانا ضروری ہے۔ جناب عامر علی خان کے علاوہ جلسہ سے حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی ‘ عثمانیہ یونیورسٹی‘ مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی‘ ایفلو اور دیگر جامعات کی طلبہ تنظیموں کے قائدین نے مخاطب کیا اور کہا کہ ہمارے باپ دادا فرنگیوں سے لڑے تھے اور اب ہم سنگھیوں سے لڑ رہے ہیں‘ وہ جیتے تھے ہم بھی جیتیں گے۔پروفیسر پی ایل ویشویشور راؤ نے خطاب کے دوران کہا کہ ملک کو جن حالات کا سامنا ہے ان حالات میں ہمیں چوکس رہتے ہوئے صورتحال کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ انہو ںنے کہا کہ ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی جو کوششیں کی جا رہی ہیں ان کوششوں کو ناکام بنانے تعلیم یافتہ طبقہ اور طلبہ خود میدان میں کھڑے ہیں اور ان طلبہ کو پیچھے کرنا ممکن نہیں ہے۔ انہوںنے کہا کہ این آرسی ‘ این پی آر اور سی اے اے کے نام پر صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ تمام پچھڑے طبقات کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔ پروگرام میں طلبہ کے علاوہ عام شہری اور جہدکار موجود تھے جو شہر میں سی اے اے ؍این آر سی اور این پی آر کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔ پرکاش راج نے اعلان کیا کہ ملک کے کسی بھی حصہ میں ان سنگھیوں کے خلاف جدوجہد ہو وہ اس کا حصہ ہیں اور انہیں ان کی تائید حاصل ہے۔