ہم کو خود کرنا ہے اپنے قاتلوں کا انتخاب

   

لوک سبھا انتخابات کے پہلے مرحلہ کی مہم عروج پر ہے۔ دوسرے اور تیسرے مرحلہ کے چناؤ والے علاقوں میں پرچہ جات نامزدگی کے ادخال کا آغاز ہوچکا ہے ۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود عوام میں جوش و خروش کا فقدان ہے۔ وہ بھی ایک زمانہ تھا جب جمہوریت کے اس عمل میں عوام کسی تہوار کی طرح حصہ لیتے تھے۔ اپنی پسند کے نمائندوں کو منتخب کرنے کا جذبہ جنون کی کیفیت میں ہوتا اور رائے دہی کا دن عید سے کم نہ ہوتا لیکن آج حالات بدل چکے ہیں۔ عوام کو انتخابی عمل سے دلچسپی باقی نہیں رہی۔ جمہوریت اور اس کے اصول تو باقی ہیں لیکن آج وہ قائدین نہیں جن کو جمہوریت کا محافظ تصور کیا جائے ۔ وہ دور نہیں رہا جب قائدین جمہوری اصولوں کے محافظ ہی نہیں بلکہ انہیں دیکھ کر یہ کہا جاسکتا تھا کہ یہ جمہوریت کے پاسدار ہے اور ان کا عمل جمہوری نظام کے وقار میں اضافہ کی ضمانت تھا ۔ آج ایسے قائدین ہیں نہ ان کے اصول ۔ جھوٹ ، دھوکہ ، فریب ، بے قاعدگیوں اور بدعنوانیوں کے ذریعہ جمہوریت اور انتخابی عمل کو داغدار کردیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے عمل پر سے عوام کا بھروسہ اٹھنے لگا ہے اور انتخابی عمل میں ان کی حصہ داری کم ہوچکی ہے۔ کرپٹ اور بدعنوان سیاستداں خاموش رہنے والے کہاں تھے، انہوں نے دولت اور طاقت کے بل پر کامیابی کا راستہ ڈھونڈ نکالا۔ حقیقی رائے دہندوں کی شراکت میں کمی نے مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والوں کیلئے راستہ ہموار کردیا ۔ وہ بھی ایک دور تھا جب ٹرین حادثہ پر وزیر ریلویز کے عہدہ سے لال بہادر شاستری نے استعفیٰ دیدیا تھا لیکن آج جس سیاستداں کے خلاف جتنے زائد مقدمات ہوں ، وہ اتنا ہی مقبول تصور کیا جاتا ہے ۔ تین مراحل کی انتخابی سرگرمیوں کے باوجود عوام میں بے حسی جمہوریت کے مستقبل کیلئے اچھی علامت نہیں ہے۔ انتخابات اور انتخابی مہم صرف پرنٹ ، الیکٹرانک میڈیا اور سوشیل میڈیا میں دکھائی دے رہی ہے ۔ اگر انہیں ہٹا دیا جائے تو پتہ نہیں چلے گا کہ الیکشن ہے یا نہیں ؟ تلنگانہ جہاں ڈسمبر یعنی تین ماہ قبل اسمبلی انتخابات ہوئے ، وہاں کے دیہی علاقوں میں مہم کیلئے جب قائدین پہنچے تو عوام پوچھنے لگے کہ اتنی جلدی کیسے آنا ہوا۔ عوام کو صرف اتنا یاد ہے کہ پانچ سال میں ایک مرتبہ انہیں ووٹ کا موقع ملتا ہے۔ پد یاترا ، جلوس اور جلسوں میں مقررہ ورکرس اور کرائے کے حامی دکھائی دے رہے ہیں۔ کہیں بھی والہانہ استقبال اور جوش و خروش نہیں ہے۔ کئی مقامات پر پارٹی کی جانب سے عوام میں پھول کے ہار پہلے ہی تقسیم کئے جاتے ہیں تاکہ امیدوار کی گلپوشی کی جائے۔ آیا رام ، گیا رام قائدین کی بھی بھرمار ہے ۔ رات میں ایک تو صبح دوسری پارٹی میں اور بعض تو صبح ایک جگہ تو شام تک دوسرے کیمپ میں ۔ وفاداری کی تبدیلی اصولوں یا عوامی مفاد کی بنیاد پر نہیں بلکہ شخصی مفادات اور ٹکٹ سے محرومی کے سبب ہے ۔

اسی طرح کے بعض قائدین نے انتخابی مہم کے دوران غلطی سے اپنی پرانی پارٹی کے انتخابی نشان کو ووٹ دینے کی اپیل کردی۔ کیونکہ برسوں سے اسی نشان کیلئے ووٹ مانگنے کیلئے عادی ہوچکے ہیں۔ انہیں یہ احساس تک نہیں کہ کس پارٹی میں ہیں۔ قائدین اور سیاسی جماعتوں کے رویہ سے اگر عوام کی بے حسی اسی طرح برقرار رہی تو رائے دہی کا فیصد بڑی حد تک گھٹ جائے گا۔ حقیقی رائے دہندوں کی پولنگ میں کمی جمہوریت کیلئے لمحہ فکر ہے۔ پارٹیاں اور الیکشن کمیشن بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ حقیقی رائے دہی کا فیصد کیا ہے اور اگر دھاندلیاں نہ ہوں تو پولنگ کا فیصد بمشکل 25 فیصد بھی نہیں ہوپائے گا۔ بے حسی کیلئے قائدین اور پارٹیاں یکساں طور پر ذمہ دار ہیں۔ جب تک قائدین عوامی خدمت گزار تھے ، ان کا رشتہ عوام کے ساتھ احسان کا رہا جو اب باقی نہیں ہے ۔ اب تو صرف پیسہ خرچ کرو اور ووٹ خریدو کا رجحان ہے۔ انتخابات میں دولت کے استعمال کو روکنے کیلئے کئی اصلاحات کو متعارف کیا گیا اور الیکشن کمیشن بھی سختی سے عمل آوری کا دعویٰ کر رہا ہے ۔ جہاں تک دولت کے استعمال کا سوال ہے ، اس معاملہ میں کوئی بھی پارٹی دودھ کی دھلی نہیں اور ہر الیکشن میں امیدواروں اور پارٹیوں کے لئے مقررہ انتخابی خرچ اونٹ کی داڑھ میں دانے کے برابر ہے۔ ہر لوک سبھا حلقہ میں کم سے کم 5 تا 10 کروڑ روپئے خرچ کئے جارہے ہیں اور تلنگانہ میں حالیہ اسمبلی انتخابات میں بعض اسمبلی حلقوں میں 10 کروڑ سے زائد رقم خرچ کرنے کی اطلاعات ہیں۔ سرکاری نظم و نسق کی جانب سے رقومات کی ضبطی محض ایک دکھاوا ہے ۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بمشکل 10 فیصد بھی غیر قانونی رقم ضبط نہیں کی جاتی۔ باقی 90 فیصد رقم بآسانی رائے دہندوں پر خرچ کی جارہی ہے۔ الیکشن کمیشن نے خرچ کا حساب داخل نہ کرنے پر امیدواروں کو نااہل قرار دینے کی گنجائش رکھی ہے۔ کروڑوں روپئے خرچ کرنے کے باوجود کامیاب اور ناکام تمام امیدوار جو خرچ کی تفصیلات داخل کرتے ہیں، وہ الیکشن کمیشن کی مقررہ حد سے بھی کم ہوتی ہے۔ یہ کمیشن کے ساتھ مذاق نہیں تو اور کیا ہے۔ انتخابی اخراجات کا جائزہ لینے کیلئے الیکشن کمیشن مبصرین کا تقرر کرتا ہے لیکن آج تک مبصرین کی یہ ٹیمیں ایک بھی امیدوار کو حد سے زیادہ رقم خرچ کرنے کا ذمہ دار ثابت کرنے میں ناکام ہوگئیں۔ الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ وہ برسر اقتدار پارٹیوں کی جانب سے مختلف اسکیمات کے نام پر رائے دہندوں کے اکاونٹ میں رقومات کی منتقلی پر نظر رکھے کیونکہ یہ راست طور پر کرپشن کے زمرہ میں آتا ہے تاکہ ووٹ خریدے جائیں۔

انتخابات میں سیاسی فائدہ کیلئے بی جے پی کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہے۔ پلوامہ میں دہشت گرد حملہ بی جے پی کیلئے اہم انتخابی موضوع ثابت ہوا۔ پاکستان کو نشانہ بنانا بی جے پی اور سنگھ پریوار کی پرانی عادت ہے جس کے لئے وہ ہندو رائے دہندوں کو متحد کرتی ہے۔ پلوامہ حملہ کے فوری بعد پاکستان کے خلاف مہم میں شدت پیدا کرتے ہوئے اسے انتخابی فائدہ کیلئے استعمال کیا گیا۔ پاکستانی علاقہ میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملہ کے ذریعہ مودی نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ حقیقی معنوں میں 56 انچ کا سینہ رکھتے ہیں اور پاکستان کے اندرونی علاقہ میں کارروائی کرنے کی آج تک کسی حکومت نے جراء ت نہیں کی تھی۔ نریندر مودی شائد یہ بھول گئے کہ آئرن لیڈی کے نام سے مشہور اندرا گاندھی نے بنگلہ دیش کے قیام میں اہم رول ادا کیا تھا۔ نریندر مودی بھلے ہی لاکھ دعوے کرلیں لیکن آج تک بھی پلوامہ دہشت گرد حملہ اور ہندوستان کی فضائی کارروائی پر مختلف سوالات اٹھ رہے ہیں۔ بین الاقوامی مبصرین اور میڈیا نے بھی اسے محض فرضی کارروائی قرار دیا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ دونوں ممالک میچ فکسنگ کے ذریعہ ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہوں۔ نریندر مودی اور ان کے حواری انتخابی جلسوں میں پاکستان کے خلاف زہر اگلتے ہیں اور یہاں تک کہا گیا کہ 2025 ء تک پاکستان کو ہندوستان میں ضم کردیا جائے گا۔ اگر واقعی اس قدر برہمی ہے تو پھر وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان کے قومی دن کے موقع پر عمران خان کو مبارکباد کیوں پیش کی؟ جب پاکستان دہشت گرد حملوں کے لئے ذمہ دار ہے تو پھر مبارکباد کس بات کی اور اس کا جواز کیا ہوسکتا ہے ۔ ہندوستان کے خلائی سائنسدانوں نے سیٹلائیٹ شکن میزائیل A SAT تیار کیا لیکن جب تجربہ کا مرحلہ آیا تو نریندر مودی نے سائنسدانوں کی محنت کا سہرا اپنے سر باندھ لیا۔ انہوں نے ریڈیو ، ٹی وی اور سوشیل میڈیا کے ذریعہ قوم سے خطاب کرتے ہوئے تجربہ کی کامیابی کا اعلان کیا۔ مودی کا یہ اقدام نہ صرف ناعاقبت اندیش بلکہ انتخابی قواعد کی خلاف ورزی ہے۔ سابق صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام جس وقت حیدرآباد کے دفاعی تحقیق کے ادارہ DRDO سے وابستہ تھے ، انہوں نے سیٹلائیٹ شکن میزائیل کی تیاری پر کام شروع کیا تھا ۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ اس میزائیل کو عبدالکلام کے نام سے موسوم کیا جاتا۔ ہندوستان بھلے ہی زمین ، فضاء کے بعد اب خلاء میں اپنی طاقت کے مظاہرے کیلئے تیار ہے لیکن ملک کے عوام کی بنیادی ضرورتیں اپنی جگہ برقرار ہیں۔ غربت ، بیروزگاری ، بیماری ، فرقہ پرستی اور ذات پات جیسے مسائل ملک کو کھوکھلا کر رہے ہیں ۔ ملک کو ضرورت سیٹلائیٹ شکن میزائیل سے زیادہ غربت ، بیروزگاری اور فرقہ پرستی شکن میزائیل کی ہے۔ نریندر مودی کو گزشتہ پانچ برسوں میں ان مسائل کے خلاف میزائیل داغنا تھا لیکن وہ ناکام ثابت ہوئے۔ گزشتہ 70 برسوں میں حقیقی مسائل جوں کے توں ہیں۔ ہندوستان تازہ تجربہ کے بعد عالمی خلائی پاور کلب میں شامل ہوچکا ہے لیکن کئی ایسے ممالک جو اس کلب میں شامل نہیں ہوئے ، وہ ہندوستان سے زیادہ خوشحال ہیں۔ میزائیل ٹکنالوجی سے زیادہ عوام کی خوشحالی کو ترجیح دی جائے ۔

دوسری طرف مودی حکومت کے ایک اہم وزیر گری راج سنگھ جو ہر کسی کو پاکستان بھیجنے کا بیڑہ اٹھائے ہوئے تھے ، انہیں پارٹی نے اسٹوڈنٹ لیڈر کنہیا کمار کے خلاف انتخابی میدان میں اتار کر عملاً شیر کے منہ میں ڈھکیل دیا ہے ۔ مودی کے خلاف بیان دینے والوں اور مسلمانوں کو خاص طور پر پاکستان جانے کا مشورہ گری راج سنگھ دیتے رہے۔ گوشت کھانا ہو تو پاکستان جاؤ ، شریعت پر چلنا ہو تو پاکستان جاؤ ، حتیٰ کہ وندے ماترم پڑھنے سے انکار ہو تو پاکستان جانے کا مشورہ دے کر وہ سنگھ پریوار کے حلقوں میں واہ واہی لوٹتے رہے لیکن آج خود گری راج سنگھ کے ہوش اڑ چکے ہیں۔ پارٹی نے انہیں نواڈا لوک سبھا حلقہ سے ہٹا کر کنہیا کمار کے خلاف بیگو سرائے سے امیدوار بنایا ہے۔ گری راج سنگھ نے مقابلہ سے انکار کیا لیکن امیت شاہ نے ایک نہیں مانی ۔ انتخابی نتیجہ کے بعد گری راج سنگھ کو پاکستان میں ہندوستان کا سفیر مقرر کیا جانا چاہئے۔ معراج فیض آبادی نے جمہوریت پر کیا خوب تبصرہ کیا ہے ؎
کم سے کم جمہوریت میں اتنی آزادی تو ہے
ہم کو خود کرنا ہے اپنے قاتلوں کا انتخاب