ہم ہیں متاع کوچہ و بازار کی طرح

   

کلیان سنگھ اور یوگی… دستوری عہدوں پر مودی بھکت
کشمیر … الحاق کی شرائط پر سیاست

رشیدالدین
دستوری عہدوں کو سیاسی آلودگی سے پاک رکھنے میں ناکامی کا نتیجہ ہے کہ آج ان عہدوں کو سیاسی بازآبادکاری کا ذریعہ بنالیا گیا۔ صدر جمہوریہ ، نائب صدر اور گورنر جیسے عہدوں پر غیر سیاسی افراد کو فائز کرنے کی روایت رہی تاکہ دستور اور قانون کی حکمرانی کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو اور جمہوریت کا تحفظ ہو ۔ وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں نے نظریاتی ہم آہنگی رکھنے والے قائدین یا پھر سرگرم سیاست سے سبکدوش ہونے والے قائدین کو دستوری عہدوں پر فائز کرنے کی روایت شروع کی۔ جب کسی کو سرگرم سیاست سے جبراً علحدہ کرنا ہو تو اسے برسر اقتدار پارٹی گورنر نامزد کردیتی ہے ۔ بی جے پی کے قدآور قائد وینکیا نائیڈو جو اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کے سبب وزیراعظم کے عہدہ کے لئے نریندر مودی کیلئے چیلنج بن گئے تھے، انہیں نائب صدر کے عہدہ پر فائز کرتے ہوئے سرگرم سیاست سے سبکدوش کردیا گیا ۔ سیاسی نظریات کے حامل افراد کو جب دستوری عہدوں پر فائز کیا جائے تو کبھی نہ کبھی دل کی بات زبان پر آ ہی جاتی ہے۔ نریندر مودی کے پانچ سالہ دور میں صدر جمہوریہ ، نائب صدر اور گورنرس کے عہدوں پر آر ایس ایس نظریات کے حامل شخصیتوں کا تقرر کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ۔ کئی گورنرس نے انتہائی متنازعہ بیانات دیئے ۔ ہجومی تشدد ، بیف ، وندے ماترم اور دیگر حساس موضوعات پر بعض گورنرس کے بیانات مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا سبب بنے لیکن مرکز نے گورنرس کے خلاف کارروائی تو درکنار پابند تک نہیں کیا، جس کے نتیجہ میں بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں کے چیف منسٹرس کو بھی حوصلہ ملا۔ لوک سبھا انتخابات اور انتخابی ضابطہ اخلاق کے سبب ایک گورنر اور ایک چیف منسٹر الیکشن کمیشن کے راڈار میں آچکے ہیں۔ گورنر راجستھان کلیان سنگھ کے خلاف الیکشن کمیشن نے صدر جمہوریہ سے شکایت کی ہے جبکہ چیف منسٹر اترپردیش یوگی ادتیہ ناتھ سے وضاحت طلب کی گئی ۔ کلیان سنگھ نے دستوری عہدہ کے وقار اور اس کی عظمت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بی جے پی کے لئے ووٹ کی اپیل کی۔ کلیان سنگھ کے سیاسی بیاک گراؤنڈ کو دیکھتے ہوئے اسے سیاسی بھول چوک نہیں کہا جاسکتا بلکہ انہوں نے جان بوجھ کر یہ بیان دیتے ہوئے تنازعہ کے ذریعہ بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی ۔

اس بیان کے ساتھ ہی گمنامی کے اندھیروں میں غرق کلیان سنگھ اچانک میڈیا کی سرخیوں میں آگئے ۔ کلیان سنگھ کے نام کے ساتھ ہی 6 ڈسمبر 1992ء کے سیاہ دن کی یاد تازہ ہوجاتی ہے ۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے کلیان سنگھ نے سپریم کورٹ کو مسجد کے تحفظ کا یقین دلاتے ہوئے حلفنامہ داخل کیا تھا لیکن حکومت کی نگرانی میں بابری مسجد شہید کردی گئی ۔ جس شخص نے دستور اور قانون کی دھجیاں اڑائی ہوں ، اس سے اور کس بات کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اگر سیاست کا اتنا ہی شوق ہو تو کلیان سنگھ کو گورنر کے عہدہ سے استعفیٰ دے کر انتخابات میں قسمت آزمانی چاہئے ۔ اس طرح دستوری عہدہ کم از کم توہین سے بچ جائیں گے اور عوامی نظروں میں ان کی اہمیت نہیں گھٹے گی۔ اب جبکہ معاملہ صدر جمہوریہ کے پاس ہے تو انہیں کلیان سنگھ کو فوری برطرف کرنا چاہئے ۔ صدر جمہوریہ نے الیکشن کمیشن کی شکایت کو مرکز سے رجوع کردیا۔کیا نریندر مودی حکومت کلیان سنگھ کے خلاف کارروائی کرے گی ؟ کلیان سنگھ کا معاملہ صدر جمہوریہ کی غیر جانبداری کا بھی امتحان ہے۔ فیصلہ کرنے میں بی جے پی سے قدیم روابط کوئی رکاوٹ نہ بننے پائے۔ دستوری عہدہ کی توہین پر کلیان سنگھ برطرفی کے مستحق ہیں۔ یہ محض اتفاق ہے یا کچھ اور کہ دوسرا تنازعہ بھی اترپردیش سے متعلق ہے۔ کلیان سنگھ جہاں کے چیف منسٹر رہ چکے ، اسی ریاست کے موجودہ چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ نے ہندوستانی فوج کی دہشت گردوں کے خلاف حالیہ کارروائی پر تبصرہ کرتے ہوئے فوج کو نریندر مودی کی ’’سینا ‘‘ قرار دیا۔ الیکشن کمیشن نے اس سلسلہ میں یوگی سے جواب طلب کیا ہے ۔ بی جے پی نے فوجی کارروائیوں کا سہرا اپنے سر باندھنے کی نئی روایت شروع کی ہے ۔ اس کے پیش نظر محض سیاسی فائدہ ہے۔ جب فوج کی کارروائی کا کریڈٹ بی جے پی لے رہی ہے تو پلوامہ میں سیکوریٹی نقائص اور کوتاہی کے سبب 40 جوانوں کی موت کی ذمہ داری بھی قبول کرتے ہوئے قوم سے معذرت خواہی کرنی چاہئے ۔ سیکوریٹی فورسس نے طیارہ سے سفر کی درخواست کی تھی لیکن حکومت نے مسترد کرتے ہوئے سڑ ک کے راستے جانے پر مجبور کردیا تھا۔ فوج کے سرجیکل اسٹرائیک کو عام طور پر خفیہ رکھا جاتا ہے اور چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ نے خود اعتراف کیا کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ دور حکومت میں 11 مرتبہ سرجیکل اسٹرائیک کی گئی تھی لیکن اس کا چرچہ نہیں کیا گیا۔ کیا اس وقت فوج منموہن سنگھ کی سینا تھی ؟ کلیان سنگھ ہوں یا یوگی ادرتیہ ناتھ متنازعہ بیانات کے ذریعہ بی جے پی کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں ۔ فوج کا وزیراعظم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ تینوں مسلح افواج کے سپریم کمانڈر دستور کی روح سے صدر جمہوریہ ہوتے ہیں ۔ یوگی نے ہندوستانی فوج جن پر 125 کروڑ عوام کو ناز ہے ، مودی سینا قرار دے کر توہین کی ہے۔ مملکتی وزیر خارجہ وی کے سنگھ جو فوج کے سابق سربراہ ہے، انہوں نے اس بیان کو ملک سے غداری قرار دیا ۔ جب فوج کے سابق سربراہ کے جذبات اس قدر شدید ہیں تو پھر یوگی کے خلاف ملک دشمنی قانون کے تحت کارروائی ہونی چاہئے ۔
لوک سبھا انتخابات کی مہم میں الیکشن کمیشن سرکاری مشنری اور دولت کے استعمال کو روکنے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ ریاستوں کی برسر اقتدار جماعتیں اپنے اپنے امیدواروں کے حق میں سرکاری مشنری کا استعمال کر رہی ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں میں کروڑ ہا روپئے ضبط کئے گئے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ کروڑہا روپئے کی ضبطی سے اندازہ ہوتا ہے کہ انتخابی نظام میں دولت کے استعمال کی اہمیت کس حد تک بڑھ چکی ہے۔ جو بھی رقم ضبط کی گئی ، وہ معمولی ہے، کیونکہ کمیشن کی بنیادی سطح تک رسائی نہیں ہوتی جہاں تقسیم کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک طرف دولت کا استعمال تو دوسری طرف الیکٹرانک ووٹنگ مشن پر عوام کے بڑھتے شبہات میں رائے دہی کی شفافیت اور غیر جانبداری پر سوال کھڑے کردیئے ہیں۔ عوام کا یہ تاثر ہے کہ انتخابات محض ایک ڈھونگ ہیں ، جس کے پاس سرکاری مشنری اور دولت ہو ، وہ بآسانی کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔ رائے دہی کی تکمیل کے بعد اگزٹ پول نتائج کا انتظار کئے بغیر یہ کہا جاسکتا ہے کہ کس ریاست میں کونسی پارٹی کا غلبہ رہے گا۔ حالیہ چند برسوں میں سیاسی جماعتوں نے انتخابی عمل کو کرپشن کا شکار کردیا جس سے جمہوریت مذاق بن چکی ہے ۔ عوام بھی اس قدر بے حس ہے کہ انہیں ان امور سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ انتخابی مہم اور جلسوں میں پیڈ ورکرس شرکت کر رہے ہیں۔ وہ دور نہیں رہا جب جئے پرکاش نارائن ، مرارجی دیسائی اور اٹل بہاری واجپائی جیسے مقبول قائدین کو سننے کیلئے بلا لحاظ سیاسی وابستگی ہزاروں افراد امنڈ پڑتے تھے۔ بھلے ہی ووٹ کسی اور کو دیں لیکن تقریر سننے کیلئے ضرور موجود ہوتے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن رائے دہی کے دن آخری تین گھنٹوں میں بے قاعدگیوں پر کنٹرول کرلے تو رائے دہی کا فیصد گھٹ کر 18 تا 20 رہ جائے گا۔

رائے دہی کے بعد منتخب نمائندے عوام کے حقیقی نمائندے نہیں بلکہ مشین کے منتخب نمائندے ہیں۔ اسی دوران جموں و کشمیر میں خصوصی مراعات کے مسئلہ پر سیاست تیز ہوچکی ہے ۔ بی جے پی صدر امیت شاہ نے دفعہ 370 اور 35A کی برخواستگی کیلئے 2020 ء کی مہلت مقرر کی ہے۔ اگرچہ خصوصی موقف سے متعلق دفعہ 370 کی برخواستگی بی جے پی کے ایجنڈہ میں شامل ہیں لیکن کبھی بھی اسے روبہ عمل لانے کی کوشش نہیں کی گئی کیونکہ بی جے پی اچھی طرح جانتی ہے کہ خصوصی موقف کو ختم کرنا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ کشمیر کے ہندوستان میں الحاق کے لئے یہ مراعات دی گئی تھیں جو دستور کا حصہ ہے۔ جس دن مراعات ختم کردی گئیں ، کشمیر کا ہندوستان سے الحاق از خود ختم ہوجائے گا۔ بی جے پی کشمیر میں پی ڈی پی کے ساتھ حکومت میں رہی لیکن اس وقت دستوری مراعات کو نہیں چھیڑا گیا ۔ وادی میں دہشت گردی میں اضافہ کے ساتھ ہی حکومت کی تائید سے دستبرداری اختیار کرلی گئی۔ 370 اور 35A محض دستور کا حصہ نہیں بلکہ شریفانہ معاہدے میں شامل ہیں ۔ کشمیر کے مسلمانوں نے مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باوجود ہندوستان کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بڑی قربانی دی ہے۔ بی جے پی کا دونوں دفعات کو ختم کرنے سے متعلق بیان دراصل کشمیریوں کے سینے میں خنجر گھونپنے کے مترادف ہے۔ جس وقت مذہب کی بنیاد پر پاکستان تشکیل دیا جارہا تھا ، کشمیر کے مسلمانوں نے خود کو ہندوستان سے وابستہ رکھا۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ ان قربانیوں کے باوجود آج بھی کشمیریوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ان کی حب الوطنی پر سوال اٹھتے ہیں۔ اگر نریندر مودی حکومت 370 اور 35A کے بارے میں کوئی حماقت کرتی ہے تو یہ امریکہ کو نیا ہتھیار فراہم کرنے کی طرح ہوگا ، جس طرح سوڈان کو امریکہ نے دو ٹکڑے کردیئے اور عرب ممالک پر اسرائیلی مملکت کو مسلط کردیا، اسی طرح دونوں جانب کے کشمیر کو ملاکر علحدہ مملکت بنانے کی سازش ہوسکتی ہے۔ مسلم اکثریتی ریاست کی ہندوستان میں برقراری سیکولرازم کی شان ہے۔ مجروح سلطان پوری نے کیا خوب کہا ؎
ہم ہیں متاع کوچہ و بازار کی طرح
اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح