ہندوستان میں تبدیلیٔ مذہب اور عیسائی مخالف تشدد

   

رام پنیانی
حالیہ عرصہ کے دوران ملک میں بیرونی فنڈس اور تبدیلیٔ مذہب کے بارے میں بہت کچھ باتیں کی گئیں اور اس طرح کے مسائل اٹھانے میں حکمراں بی جے پی اور اس کی سرپرست تنظیم کے ساتھ ساتھ سنگھ پریوار کی ذیلی تنظیمیں ہی آگے دکھائی دیتی ہیں۔ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ مسٹر ستیہ پال سنگھ نے ایف سی آر اے میں ترمیمات کے موضوع پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے لوک سبھا میں یہاں تک کہا کہ وہ بیرونی ممالک سے آنے والے عطیات پر مجوزہ پابندی کی تائید و حمایت کرتے ہیں۔ اپنی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے اور مدلل بنانے کی کوشش میں انہوں نے پاسٹر گراہم اسٹیورٹ اسٹینس کا واقعہ بیان کیا۔ واضح رہے کہ پاسٹر گراہم اسٹیورٹ اسٹین اور ان کے دو کمسن بچوں کو اڈیشہ میں زندہ جلا دیا گیا تھا اور فرقہ پرستوں نے یہ بھیانک کارروئی انجام دی تھی۔ اُس عیسائی مبلغ پر الزام عائد کیاگیا کہ وہ قبائیلی علاقوں میں تبدیلیٔ مذہب کروا رہے ہیں۔ ستیہ پال سنگھ نے لوک سبھا میں خطاب کے دوران یہ کہتے ہوئے آنجہانی عیسائی مبلغ کے خلاف زہر بھی اگلا کہ اس عیسائی مبلغ نے 30 قبائیلی خواتین کی عصمت ریزی کی تھی اور بیرونی ممالک سے آنے والے فنڈس کی مدد سے تبدیلیٔ مذہب کا کام کرتے ہوئے ہندووں کو عیسائی بنایا تھا۔

مسٹر ایل کے اڈوانی اس وقت وزیر داخلہ کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ انہوں نے ملزمین کو فوری کیفر کردار تک پہنچانے کی بجائے یہ کہا کہ بجرنگ دل کا عیسائی مبلغ اور ان کے دو بچوں کے قتل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ خود بجرنگ دل کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ انہوں نے صرف دکھاوے کے لئے اشک شوئی کرتے ہوئے ایک تین رکنی وزارتی ٹیم اڈیشہ روانہ کی تھی جس میں مرلی منوہر جوشی، نوین پٹنائک اور جارج فرنانڈیز شامل تھے۔ اس ٹیم نے صرف ایک دن میں ہی یہ نتیجہ اخذ کیا کہ عیسائی مبلغ اور ان کے دو کم عمر بچوں کا قتل دراصل حکمراں این ڈی اے حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لئے رچی گئی ایک عالمی سازش تھی۔ اس ٹیم کے دورہ کے بعد مذکورہ واقعہ کی تحقیقات کے لئے بدھوا کمیشن کا تقرر کیا گیا جس نے اپنی تحقیقات کے بعد بتایا کہ دارا سنگھ جو ون واسی کلیان آشرم، بی ایس پی جیسی تنظیموں کی مدد سے بجرنگ دل کے ساتھ کام کررہا تھا اس بات کا پروپگنڈہ کیا کہ عیسائی مبلغ گراہم اسٹین تبدیلی مذہب کا کام کررہے ہیں اور ان کی تبلیغ ہندوستان کے لئے ایک خطرہ ہے۔ اس نے عیسائی مبلغ کے خلاف لوگوں کو متحرک کیا اور اس گاڑی پر جس میں گراہم اسٹین اور ان کے دو بچے سو رہے تھے کیروسین چھڑک کر آگ لگادی۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا کہ عیسائی مبلغ تبدیلی مذہب کا کام نہیں کررہے تھے بلکہ وہ جذامیوں کی خدمت کررہے تھے ان کی مدد کررہے تھے۔ دارا سنگھ کو اس گھناونے جرم کی پاداش میں عدالتوں نے سزائے موت سنائی اور پھر بعد میں اس سزائے موت کو سزائے عمر قید میں تبدیل کردیا گیا۔ سردست وہ جیل میں سزا کاٹ رہا ہے۔

سب سے اہم بات جو رپورٹ میں بتائی گئی وہ یہ تھی کہ دارا سنگھ جیسے لوگوں کے دعوے کے باوجود اس علاقہ میں عیسائیوں کی تعداد یا فیصد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ کیونجھار ضلع کی جملہ آبادی 15.30 لاکھ ہے جن میں سے 14.93 لاکھ ہندو ہیں اور عیسائی جو زیادہ تر قبائیلی ہیں 1991 کی مردم شماری کے مطابق ان کی تعداد 4707 ہے جبکہ ضلع میں پہلے سے ہی 4112 عیسائی آباد تھے۔ اس طرح عیسائی آبادی میں صرف 595 کا اضافہ ہوا۔ ایسے میں کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ یہ تبدیلیٔ مذہب کے باعث نہیں ہوسکتا بلکہ فطری حیاتیاتی عمل کے باعث ہوا ہے۔ جہاں تک دارا سنگھ اور اس کی فکر رکھنے والی تنظیموں کا سوال ہے ان کا پروپگنڈہ دراصل ان کے سیاسی ایجنڈہ کا حصہ تھا۔ یہ پروپگنڈہ کے عیسائی مشنریز لوگوں کا مذہب تبدیل کررہے ہیں ہر جگہ چھایا ہوا ایک سماجی تصور ہے اور عیسائیوں کے خلاف اسی پروپگنڈہ کے ذریعہ نفرت پھیلائی جارہی ہے اور اسی قسم کے پروپگنڈوں کے نتیجہ میں گزشتہ 20 برسوں سے عیسائی تشدد کا سامنا کررہے ہیں۔ ہم نے عیسائیوں کے خلاف تشدد کا مشاہدہ خاص طور پر قبائیلی علاقوں دانس، جبوا اور اڈیشہ کے ایک بڑے حصہ میں دیکھا۔ واضح رہے کہ اس بھیانک اور لرزہ طاری کردینے والے قتل کے بعد عیسائیوں کے خلاف تشدد کا سلسلہ شروع ہوگیا اور یہ کندھامل میں اپنے نقطہ عروج کو پہنچا۔ )اگست 2008 میں) جس میں تقریباً 100 عیسائی ہلاک ہوئے۔ تقریباً 400 خواتین کی عصمت ریزی کی گئی۔ بے شمار گرجا گھروں پر حملے کئے گئے اور انہیں تباہ کردیا گیا۔ صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ عیسائی کمیونٹی کے خلاف تشدد کا سلسلہ باقاعدہ جاری ہے اور خاص طور پر دیہی علاقوں میں یہ رجحان پایا جاتا ہے اور ایسے واقعات پر کسی کی نظر نہیں جاتی۔

عیسائیوں کے دعائیہ اجتماعات کو حملوں کا نشانہ بنایا گیا یہاں تک کہ مذہبی مواد تقسیم کرنے والے مشنریز کو گرفتار کیا گیا۔ ’’پرسیکیوشن ریلیف‘‘ نامی تنظیم نے اپنی حالیہ رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا کہ ہندوستان میں عیسائیوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم میں 40.87 فیصد تک اضافہ ہوا۔ یہ اضافہ کورونا وائرس کی وباء پر قابو پانے کے لئے نافذ کردہ قومی سطح کے مکمل لاک ڈاون کے باوجود ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کورونا وائرس کی وباء کے باوجود عیسائیوں پر حملے کئے گئے۔ ایک بات اور ہے کہ مسلم اقلیت پر بھی حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس تشدد کے پیچھے کارفرما جو نظریہ ہے اس کے مطابق اسلام اور عیسائیت بیرونی مذاہب ہیں اور یہ دونوں مذاہب ہندو مت کے لئے خطرہ ہے۔ فرقہ پرست اسی نظریہ کو پھیلاتے جارہے ہیں۔ حالانکہ یہ نظریہ ہندوستانی قوم پرستوں جیسے گاندھی اور نہرو کے نظریات سے متضاد ہے۔ نہرو اور گاندھی کا یہ نظریہ ہے کہ مذہب قوم پرستی کی بنیاد نہیں ہے اور عیسائیت اسی طرح اس سرزمین کا ایک مذہب ہے جس طرح دوسرے مذاہب ہیں۔ ایک تاریخی نظریہ کے مطابق ہندوستان میں عیسائیت 52 میں داخل ہوئی اور سینٹ تھامس نے مالابار کے علاقہ میں چرچ قائم کیا۔ اس طرح 19 صدیوں سے کئی عیسائی مشنریز ہندوستان آتے رہے ہیں اور دور دراز کے دیہی علاقوں میں کام کررہے ہیں اور خاص طور پر وہ وہاں صحت اور تعلیم کی سہولتیں قائم کررہے ہیں۔ ان لوگوں نے شہری علاقوں میں اسکولس، کالجس اور اسپتال قائم کئے ہیں جو اپنے اعلیٰ معیار کے لئے جانے جاتے ہیں اور ان علاقوں کے عوام ان سہولتوں سے استفادہ کررہے ہیں۔ ہمارے ملک میں عیسائیوں کی آبادی مردم شماری 2011 کے مطابق 2.30 فیصد ہے، جبکہ 1971 میں یہ آبادی 2.60 فیصد تھی۔ پچھلے 60 برسوں سے اس میں مسلسل کمی دیکھی جارہی ہے۔ مثال کے طور پر 2.60 (1971)، 2.44 (1981)، 2.34 (1991)، 2.30 (2001)، 2.30 (2011)۔ دوسری جانب وان واسی کلیان آشرم، بی ایس پی اور بجرنگ دل دیہی علاقوں میں تبدیلیٔ مذہب سے متعلق جھوٹ پھیلانے میں مصروف ہیں جو آزادیٔ مذہب پر حملہ ہے۔ ہمیں موجودہ حالات میں اپنی بھائی چارگی کے اقدار کو مضبوط کرنے اور ستیہ پال سنگھ جیسے لوگوں کے جھوٹ کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔