ہندپاک تعلقات ۔ ہندوستانی سیاست کو اب تک کاسب سے مضبوط کردار ادا کرناہوگا۔ بقلم مشرف عالم نوقی

,

   

جگر مراد آبادی نے کہاتھا

ان کا جوفرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

مجھے سیاست سے پرہیز نہیں۔ لیکن سیاست میں جنگ او رنفرت کے جراثیم نظر آنے لگیں تو ہماری صحت کے لئے مضر ہے۔آج عالمی میڈیا ہمای میٹیاکوحقارت کی نظروں سے دیکھتی ہے ۔ یہ سوال اہم ہے کہ ایک مدت تک جو میڈیا انصاف او رسسٹم کی مضبوطی کے لئے جنگ کرتی تھی وہ اس حد تک تبدیل کیوں ہوگئی کہ امن دوستی کے ماحول میں بھی نفرت او رجنگ کی کھیتی کے لئے مجبور ہے؟۔

ابھینندن کی رہائی کو لے کر پورے ملک میں خوشی کا ماحول ہے مگر میڈیا کے ذہن میں جنگ کا تصور ابھی باقی ہے۔ سب سے زیادہ مضحکہ خیز صورت حال یہ ہے کہ اس ماحول کو کچھ لوگ پارلیمانی انتخابات سے وابستہ کرکے دیکھتے ہیں اور دیکھنے والے کوئی او رنہیں بی جے پی کے لوگ ہیں۔

پوسٹرز میں کسی نے چھتیس انچ سینے کی بات کی تو کسی نے اپنا بوتھ سب سے مضبوط کو دہرایا ۔ جب ہمارے فوجی جام شہادت نوش کررہے تھے ‘ یہی صورت حال بنی ہوئی تھی۔

جب ایک بڑے منچ سے عمران خان ابھینندن کی رہائی کو لے کر بات کررہے تھے ‘ ہمارے وزحیراعظم پائلٹ پراجکٹ کی بات کرررہے تھے اور یہ بیان دے رہے تھے کہ اب یہ رائیل ہوگا؟۔سیاست ڈپلومیسی میں کیاہم پیچھے رہ گئے ؟۔ یہ سوچناضروری ہے ۔ اب جنگ کے ماحول سے دور نکلنے کی ضرورت ہے ۔

اس منشا کوبھی عوام کے سامنے لایاجانا چاہئے۔ وزیراعظم کے ایک بار بھی ابھینندن کا نام نہیں لیا۔جب ابھینندن کے خاندان کے لوگ زندگی او رموت کا تماشہ دیکھ رہے تھے ہماری میڈیانے ایسا ماحول تیار کیاکہ پاکستانی فوج اس کاانتقال ابھینندن سے لے سکتی تھی۔

کچھ ایسے پوسٹ بھی وائرل ہوئے جس میں کہاگیا کہ ابھینندن کو خود گولی مار لینی چاہئے تھی۔ اس پس منظر پر غور کریں تو خوف کا ماحول ابھی تک برقرار ہے ۔ جنگوں کاخطرہ ابھی تک ٹلا نہیں ہے۔ایک اہم بات یہ ہے کہ کشمیر اور اٹیک کے بعد مسلم سماج آج بھی خوف زدہ ہے ۔

جب پرسن باجپائی ‘ روایش کمار ‘ ابھیشار جیسہ لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ آج مسلم سماج خوفزدہ کیوں ہے‘ تو کیاانکے سوال بھی بے بنیاد ہیں ‘ کیا جب عامر خان نے یہی سوال پوچھا تو کیا وہ غلط تھے؟ اور اب جب یہی سوال نصیر الدین شاہ پوچھتے رہے ہیں تو کیایہ پوچھنا بھی مذاق کی حیثیت رکھتا ہے ؟

آج مجھے پھر جاری اُرویل کی شدت سے یاد آرہی ہے ۔ شہر آفاق انیمل فارم میں سیاست او رسماج کا جو خوفناک چہرہ آر ویل نے دکھایاہے وہ آج کے ہندوستان کا بھیانک سچ ہے ۔ فارم کے جانور اپنے باس کے خلاف بغاوت کرتے ہیں اور حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔

پاس ان جانوروں میں سب سے زیادہ ہوشیار ہے اوراس وجہہ سے دوہ ان کی قیادت کرتا ہے۔اب اس ناول سے گزرنے کے بعد آج کے ہندوستان کو سامنے لیجئے ۔ کانریس کے خلاف بغاوت ہوئی ‘ حکومت تبدیل ہوئی اکہتر برسوں کی قیادت کرنے والے چہرے انسان اور جانوروں کا فرق بھول گئے ۔

عام انسان کو فسادات کے بے رحم شعلوں میں جھونک دینے کی سازش ہوتی رہی۔ اس طرح کے بیانات بھی سامنے ائے کہ گایوں کا تحفظ انسانی تحفظ سے زیادہ ضروری ہے گایوں کی فرضی کہانیوں کی بنیاد پر معصوم اقلیتوں کو ہلاک کیاجارہا ہے ۔

ہجومی تشدد عام ہے او راس کاروبار سے فائدہ اٹھانے والے قاتل جانتے ہیں کہ انکا کچھ نہیں بگڑے گا۔یہ موجودہ اینیمل فارم کے خوفناک کردار ہیں۔ ہم ایک ایسے ڈرامے کا حصہ ہیں جہا ں منہ کھولنے والے زبان کو جنبش دینے والے مجرم قراردیے جارہے ہیں۔

سعادت حسن منٹو کو لے کر میں نے ایک کہانی لکھی تھی۔ منٹو او رخواب منٹو ایک لڑکی کے ساتھ گھوم رہا ہے۔وہ گاڑی ڈرائیور کررہا ہے کہ ایک حادثہ ہوجاتا ہے۔ اس کہانی کا اخری پیرا گراف دیکھئے۔’تم اس بچے کوبچاسکتے تھے‘ میں زور سے چیخی ۔

گائے او ربچے میں سے ایک’ شائد مجپ سے کہیں زیادہ شدت سے منٹو چیخا تھا۔ ایک اقلیتی بچے کا حادثہ دو گھنٹے میں بھلادیاجائے گا۔ اس بستی میں گائے کے مرنے کا مطلب جانتی ہو۔۔؟

منٹو پلٹا ۔ میز پر بکھرے کاغذوں کے چیتھڑے کرکے اس ڈسٹ بین میں ڈال دئیے۔

منٹو غائب تھا۔ لیکن وہ کرسی جس پر ابھی کچھ لمحہ قبل وہ بیٹھاتھا وہ ابھی بھی ہل رہی تھی۔

منٹو اور خواب

چند برس برس قبل جب میں نے یہ کہانی لکھی تھی‘ مجھے یقین نہیں تھا کہ حالات کچھ برسوں میں اس سے کہیں زیادہ خراب ہوجائیں گے۔ انسانوں پر جانوروں کو فوقیت دی جائے گی۔ کیااب سونچنے کی ضورت نہیں کہ ہندوستانی سیاست ہمیں کس موڑ پر لے ائی ہے ۔

کیا یہ کہنا غلط ہے کہ ہمارے بچوں کی زندگی خطرے میں ہے؟۔ میڈیا زہر اگل رہی ہیں۔ تشدد کی رفتار نے خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ اشتعال انگیز بیان دینے والے سامنے ہیں۔ ہجومی تشدد برپا کرنے والے گائے کے نام پر قتل کرنے والے آزاد گھوم رہے ہیں۔

تاریخ کے صفحے پلٹتاہوں تو گوینے کے مشہور ڈرامے فاوسٹ سے لے کر ہٹلر کی خوں آشام کہانیوں کے اوراق نظر وں کے سامنے ہوتے ہیں۔ آر ایل اسٹومینسن کے مشہور ناول ڈاکٹر جیکل اینڈ مسٹر ہائیڈکا کردار بدلتا ہوا سامنے ہوتا ہے ۔ ایک انسان کے باطن میں پوشیدہ ایک بیڈ مین یاڈریکولا ۔

کیاہماری سیاست اس وقت ڈریکولا یاڈاکٹر جیکل کے جسم میں پوشیدہ روح بن کر ہندوستا ن کی اقلیتوں کا خون چو س رہی ہے؟۔اور وہ بھی کھلے عام ؟ ایک مہذب عہد میں ‘ جہاں اقوام متحدہ انٹرنیشنل قانون ‘ انسانی حقوق جیسی تنظیمیں بھی اپناکام کررہی ہیں‘ عالمی سیاست خوف کے تماشے کو بند آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔

سال1933میں اڈولف ہٹلر نے جرمنی میں طاقت حاصل کی اور ایک نسل پرست سلطنت قائم کی ‘ جس میںیہودیوں کو ذیلی انسان قراردیا گیا او رہٹلر کی خوفناک تاناشاہی نے انہیں انسانی نسل کا حصہ نہیں سمجھا۔

جرمنی کی طرف سے سے 1939میں عالمی جنگ ختم ہونے کے بعد ہٹلر نے یہودیوں کو ختم کرنے کے لئے اپنا حتمی فیصلہ سنادیا۔ اس کے فوجیوں نے بعض علاقوں میںیہودیوں کا پیچھا شروع کیا۔ انہیں جمع کرنے اورانہیں مارنے کے لئے خصوصی کیمپوں کاانتظام کیاگیا تھا۔

غور کریں تو عالمی نظام اسی فکر کا حصہ بن چکا ہے۔بات ابھینندن سے چلی تھی۔ ہم ایک مہذب دنیامیں رہتے ہیں۔ مگر اس مہذب دنیاکی سیاست کیسا کردار ادا کررہی ہے ۔ جنگوں کے خطرے سے سب واقف ہیں۔

پھر امن کی بات کیوں نہیں ہوتی؟۔ اقلیتوں کو خوف کے مضبوط دائرے سے نکالنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ہندوستانی سیاست کو اب تک کا سب سے مضبوط کردار ادا کرنا ہوگا۔ اپنا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔