ہنگاموں پر اُکسانے کا الزام ، ایران میں سابق صدر اکبر رفسنجانی کی بیٹی گرفتار

,

   

تہران : ایران میں سابق صدر اکبر ہاشمی رفسنجانی کی بیٹی فائزہ ہاشمی کو مظاہرین کو ’ہنگاموں پر اْکسانے‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ اے ایف پی نے مقامی ویب سائٹ ریڈیو فردا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ گرفتاری سے قبل فائزہ ہاشمی نے بتایا تھا کہ ایرانی حکومت احتجاج کرنے والوں کو دبانے کے لیے انہیں ’فسادی‘ اور ’باغی‘ قرار دے رہی ہے اور اسی بنیاد پر ان کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔خیال رہے کہ ایران میں پولیس حراست کے دوران مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف ملک گیر مظاہرے جاری ہیں۔ ریڈیو فردا نے کہا ہے کہ ان کے پاس فائزہ ہاشمی کے بیان کی آڈیو ریکارڈنگ موجود ہے جس میں وہ کہہ رہی ہیں ’حکام کیا ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ یہ احتجاج نہیں ہے بلکہ فساد ہے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جنہوں نے احتجاج دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ اگر کسی نوجوان نے کچرے آگ لگائی تو اس کی وجہ آنسو گیس کا اثر کم کرنا تھا۔‘’اگر لوگ پولیس اہلکاروں کو مار رہے تھے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان پر حملہ کیا گیا اور دفاع میں وہ ایسا کر رہے تھے۔‘علاوہ ازیں تعلیم کے شعبے سے وابستہ سینکڑوں افراد نے خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے نام کھلا خط جاری کیا ہے جس میں انہوں نے زور دیا ہے کہ وہ ایران میں خواتین اور کمزور طبقات کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ان کا ساتھ دیں۔تعلیم کے شعبے سے وابستہ افراد کا تعلق یورپ، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کی یونیورسٹیوں سے ہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ مہسا امینی کا قتل جنسی امتیاز رکھنے والی حکومت نے جان بوجھ کر کیا۔خط کے مطابق ’یہ ملک گیر احتجاج نہ صرف مہسا امینی کے قتل کے خلاف ہے بلکہ حکومت کے سخت گیر اقدامات کے خلاف بھی ہے۔‘خط میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ’ہمارا مطالبہ بڑا واضح ہے کہ مذہبی حکومت کو ختم کیا جائے۔ مہسا امینی کی ہلاکت مسے ظاہر ہے کہ حکومت کمزور طبقات کے خلاف تشدد کرتی ہے۔‘22 سالہ مہسا امینی نامی کرد خاتون تقریباً دو ہفتے قبل پولیس کی حراست میں ہلاک ہو گئی تھیں۔ان کو تہران میں درست طور پر حجاب نہ پہننے پر اخلاقی پولیس نے حراست میں لیا تھا۔مہسا امینی کے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ اخلاقی پولیس نے ان پر بدترین تشدد کیا اور سر پر چوٹ لگنے کے باعث وہ دم توڑ گئیں۔واقعہ کے بعد حکومت کے خلاف ایران میں بڑے پیمانے پر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔