یونیفارم میں مجرمین۔ انکاونٹرس کی حوصلہ افزائی سیاسی قیادت کی جانب سے نہیں ہونی چاہئے

,

   

کم سے کم عدالت عمل میں شامل تمام ذمہ داران کوایک جگہ بیٹھ کر عصمت ریزی او رقتل کے معاملات میں تیزی کے ساتھ سنوائی کا فیصلہ لینا ہوگا۔

سیاسی قائدین کو انکاونٹرس کی حوصلہ افزائی ہر گز نہیں کرنا چاہئے۔

جب میں ایک نوجوان طالب علم تھا‘ جو لوگ گھناؤنہ جرائم میں ملوث ہوتے جیسہ عصمت ریز ی او رقتل انہیں سزا دی جاتی یا پھر شواہد کی بنیادپرانہیں ایک سال میں رہا کردیاجاتا۔عام طور پر اٹھ سے نو ماہ کا وقت لگتا‘ اسی دوران ملزمین جیلر کی تحویل میں رہتے تھے۔

یومیہ اساس پرسنوائی کی جاتی‘ کوئی بھی عذر نہیں دیاجاتا اور نہ ہی مانگ جاتا تھا۔ پبلک پراسکیوٹر اورملزم کا وکیل دونوں ہی اس وقت اٹھ کر کھڑے ہوجاتے جب سنوائی کے لئے صبح کی ساعتوں میں عدالت میں داخل ہوتے۔

عدالت کے باہر شاہدین تیار ٹہرے رہتے اور کمرے عدالت میں اس وقت داخل ہوتے جب جج کا کلرک ان کا نام پکارتا۔اس سارے عمل میں نہایت تیزی اور سنجیدگی تھی۔

مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ کئی وجوہات کی بناء پر یہ تمام معاملات غائب ہوگئے ہیں اور اب وکلاء چاہے وہ وکیل دفاع ہو یا استغاثہ کی پیروی کرنے والا دونوں ہی التواء طلب کررہے ہیں۔

اس سے بڑا یہ افسوس ہے کہ وہ اس کو حاصل کرنے کے اہل ہیں۔نچلی عدالتوں کے عدالتی نظام میں یہ سارا معاملہ ایک گواہ کے طور پر تبدیل ہوگیاہے۔

جن پر قتل اور عصمت ریزی او رگھناؤنے جرائم کے الزامات عائد ہوتی ہیں ان کے معاملات میں سنوائی کو پورا کرنے میں تاخیرنے ساری عدالتی نظام کا باندھ کر رکھ دیاہے۔

اگر کوئی یہ سونچتا ہے کہ وہ اس قسم کے جرائم کو انجام دے گا‘ اس کو نظام میں موجود نرمی کا احساس ہوتا ہے۔

جہاں پر گواہوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ یا ان کا ہم خیال کرنے کی دستیابی کاموقع ہے‘ پھر مجرم کو پکڑنے کے لئے قانون کا خطرہ۔ لاقانونیت کا ایک ماحول بنتا جارہا ہے۔

بلکل یہی لاقانونیت کاماحول جو اس وقت موجود ہے۔

مذکورہ درمیانی کلاس کے لوگ جو کسی بھی ملک میں رائے قائم کرنے والوں کی بڑی تعداد تشکیل دیتے ہیں‘ حکومت پر دباؤ ڈالیں‘ اور واضح کردیں کہ آج کی حکومتیں ان کے احساس کی ہر ممکن حفاظت کریں۔

جس طرح سابق میں عدالتی نظام ماضی کو بہترین انداز میں نہیں چلایاگیا جیسا کہ ماضی میں ہورہاتھا‘ مقبول منتخب حکومتیں اس کے بدلے پولیس دستوں پر دباؤ بڑھائیں گی تاکہ وہ اس مسلئے کو حل کرنے کا دوسرے طریقہ اختیار کریں۔

مجھے یاد ہے گوپی ناتھ منڈے جو مہارشٹرا میں پہلی بی جے پی شیو سینا اتحادی حکومت میں ڈپٹی چیف منسٹراو رہوم منسٹر تھے نے ایوان اسمبلی میں اپنے نقادین کو کھڑے ہوکر جواب دیتے ہوئے کہاکہ تھا کہ انہوں نے اپنی پولیس کو ہدایت دی کہ مجرموں کو نظر آتے ہیں گو لی ماردیں۔

انہوں نے جو کچھ بھی پولیس سے کہاتھا اس کی قانونی حیثیت سے انہیں کوئی سروکار نہیں تھا‘ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ اپوزیشن بھی اس سے متفق تھا۔

عوامی حمایت کی وجہہ سے تھرڈ ڈگری طریقہ کار اور فرضی انکاونٹرس پولیس کی کاروائی کاحصہ بن گئے۔

ایک پریشان حال معاشرہ جو نہیں جانتا کہ اس نظام میں کیا پوشیدہ ہے‘ کھلے عام قریب کا راستہ پولیس کی جانب سے اختیار کیاجاناعدالتی کاروائی کی ناکامی تصور کیاجاتا ہے۔

اس سے ایک سارے نئی مجرموں کی نسل پیدا ہوتی ہے۔ انہیں ”انکاونٹر اسپیشلسٹ“ کے نام سے بھی جاناجاتا ہے۔

مذکورہ تلنگانہ پولیس کا وہ یونٹ جس نے حیوانات کی لیڈی ڈاکٹر کی عصمت ریزی اور قتل کے جرم میں مشتبہ چار لوگوں کو گولی مار کر ہلا ک کردیاہے کو اپنے رہنماؤں کی طرف سے اشارہ ملاہوگا جو اونچے سیاسی قائدین کی جانب سے ملنے والی ہدایت پر کام کررہے تھے۔

خون کی طرف عوام کا جھکاؤاور حیرت زدہ بیمار معاشرے کی علامت ہے۔کم سے کم عدالت عمل میں شامل تمام ذمہ داران کوایک جگہ بیٹھ کر عصمت ریزی او رقتل کے معاملات میں تیزی کے ساتھ سنوائی کا فیصلہ لینا ہوگا۔

سیاسی قائدین کو انکاونٹرس کی حوصلہ افزائی ہر گز نہیں کرنا چاہئے۔مضمون کے لکھنے والے ممبئی پولیس کمشنر تھے اور ڈی جی پی گجرات اور پنجاب بھی رہے ہیں