یوپی میں گٹھ بندھن ہی دے سکتا ہے اقتدار کو ٹکر۔ 

,

   

کانگریس بھیڑ بھلے ہی اکٹھا کرلے مگر جیتنے کے لئے درکار ووٹ ڈالوا پانا اسکی پہنچ سے باہر ہے۔

اترپردیش کے الیکشن میں کانگریس جس تیوار کے ساتھ میدا ن میں اتری ہے ‘ اس نے تمام سیاسی جانکاروں کو حیران کردیا ہے ۔

پرینکا گاندھی کو آگے کر پارٹی نے سرے سے اپنی زمین تلاش کررہی ہے۔ اس کا یہ خود اعتمادی تین ریاستوں میں جیت سے ائی ہے۔ ویسے 2009کے لوک سبھا الیکشن میں وہ ایس پی ‘ بی ایس پی کے برابر پر بھی آچکی تھی۔ تب کلیان سنگھ کی لال ٹوپی

پہننے کی وجہہ سے مسلمان ناراض تھے اور انہوں نے کانگریس کی حمایت کردیاتھا۔ مگر موجودہ حالات بدلے ہوئے ہیں۔ بی جے پی سے سیدھا مقابلے میں کانگریس کو سیدھا کامیابی نہیں ملتی ہے جہاں سیدھا مقابلہ ہے او ردوسرا ووٹ بینک بھی ٹھیک ٹھیک ہے۔یوپی میں کانگریس کا بی جے پی سے نہ تو سیدھا مقابلہ ہے اور نہ ہی ووٹ بینک باقی ہے۔

بی جے پی اقتدار میں آنے کے بعد جو بھی الیکشن ہوا ہے اس میں کانگریس ‘ سماج وادی پارٹی ( ایس پی) اور بہوجن سماج پارٹی ( بی ایس پی) سے پیچھے رہی ہے۔ آج بھی بی جے پی کے مقابلہ ایس پی اور بی ایس پی کا اپنا مشترکہ ووٹ بینک ہے‘ کسی دوسرا کا نہیں ہے۔

پلپور ‘ گورکھپور او ر کیرانہ کے ضمنی انتخابات میں اس بات کی تائید کرتے ہیں۔ دراصل آج بھی ان پارٹیوں کے پاس‘ دلت ‘ پسماندہ اور مسلمانوں کو اپناووٹ بینک ہے او ریہی وجہہ ہے کہ یوپی میں بی جے پی کے سامنے ایس پی ‘ بی ایس پی کا اتحاد چیالنج نظر آرہا ہے۔

گذشتہ پیر کے روزکانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی کا روڈ شو میں جمع بھیڑ سے بہت لوگ ماننے لگے ہیں کہ کانگریس ریاست میں بڑی طاقت بننے جارہی ہے ۔ مگر حالات کچھ اور دیکھتے ہیں۔صرف چہرہ اور بھیڑ کی بنیاد پر ووٹ کاحصول نہیں بنتا۔

پچھلے دیڑھ پندرہ سالوں سے یوپی کی سیاست ایس پی او ربی ایس پی کے اردگر د ہی گھومتی رہی ہے۔

پہلی مرتبہ ایس پی اور بی ایس پی ساتھ ائے تو بی جے پی اقتدار کی سیاست میں کافی پیچھے چلی گئی۔حالانکہ ’ ملے ملائم کانشی رام ‘ ہوا میںآڑ گئے جئے شرم رام ‘ یہ کوشش کئی وجہہ سے ناکام رہی مگر یوپی کی سیاست میں دنوں پارٹیوں کا دبدبا تاملناڈو کی ڈی ایم کے اور اے ائی اے ڈی ایم کے کی طرز پر بنا رہا۔

ایک اقتدار سے محروم ہوتی تودوسری پارٹی اقتدار پر قابض ہوجاتی۔یہ سلسلہ نریندر مودی کے آنے تک چلتا رہا۔مودی کے آنے کے بعد بی ایس پی کاصفایا ہوگیاتو ایس پی اور کانگریس کا صرف خاندان ہی بچا رہا۔

اسمبلی الیکشن میں کانگریس اور ایس پی ایک ساتھ ائے پر راہول اور اکھیلیش ملک کر بھی بی جے پی کی آندھی کو نہیں روک پائے۔بی جے پی کو بڑی اکثریت ملی۔یہ اس سیاسی مہم کا اثر تھا کہ ایس پی ریاست میںیادو او رمسلمانوں کی پارٹی ہے اور بی ایس پی دلت او رمسلمانوں کی پارٹی بن کر رہ گئی ہے۔

ان دونوں پارٹیوں پر ذات پات کی تفریق کے الزامات لگے۔ ویسے موجودہ چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ چار سال گیارہ مہینے راجپوت رہتے ہیں اور الیکشن کے مہینے میں ہندو ہوجاتے ہیں۔

مگر ہندوتوا کے نام پر بی جے پی ریاست میں بھاری اکثریت سے جیت کر ائی۔او ر پارٹی نے ساتھ میں پسماندہ طبقات کو بھی اپنے ساتھ لیا۔چھوٹی چھوٹی پارٹیوں سے اتحاد کرکے اس نے اپنا ووٹ بینک بڑھایا

۔ جبکہ ایس پی اور بی ایس پی کے ووٹ بینک کو کہیں فروغ نہیں ملا۔دونوں ایک دوسرے کے خلاف لڑکر بری طرح شکست فاش ہوگئے۔اس شکست کے ساتھ یہ بھی طئے ہوگیا کہ مودی والی بی جے پی کا مقابلہ دنوں دل تنہا نہیں کرسکتے۔

پلپور اور گورکھپور کے ضمنی الیکشن نے دونوں پارٹیوں کے اتحاد کی بنیاد قائم کی ۔بعد میں مرکز نے جس طرح سی بی ائی کا سیاسی استعمال کیا اس کا مقصد علاقائی پارٹیوں میں پھوٹ پیدا کرنا تھا اس سے اتحاد کو اور مضبوطی ملی۔ ایس پی ‘ بی ایس پی اتحاد کانگریس بھی شامل ہوسکتی تھی ‘ لیکن چھتیس گڑ ‘ راجستھان اور مدھیہ پردیش میں کانگریس نے بی ایس پی کے ساتھ جو سلوک کیا ‘ اس کااثر یوپی پر بھی پڑا ۔

بی ایس پی کی وجہہ سے ایس پی نے بھی اپناہاتھ کھینچ لیا ورنہ مدھیہ پردیش میں کانگریس کے ساتھ اس کا اتحاد قائم ہوسکتا تھا۔د وسرا یوپی میں کانگریس نے پرینکا گاندھی کو مستقبل کے چیف منسٹر کی شکل میں پیش کردیاہے۔

ایسے میں بی ایس پی کے ساتھ ایس پی کا بھی جھٹکا کھاکر دو ر جانا ایک فطری عمل ہے۔سیاسی جانکاروں کا ماننا ہے کہ کانگریس ‘ ایس پی او ربی ایس پی کو کچھ سیٹوں پر مسلم ووٹ بینک پر انحصار ہے مگر بی جے پی سے مقابلے میں زیادہ تر سیٹوں پر انہیں دلت ‘ پسماندہ طبقا کے ووٹ پر منحصر رہنا ہے۔