یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

   

لاک ڈاؤن … عوام بیزار ، حکومت پریشان
نماز عیدکیلئے کرناٹک میں سی ایم ابراہیم کی پہل

رشیدالدین
کورونا لاک ڈاؤن کے 50 دن مکمل ہوگئے اور یہ آگے کب تک جاری رہے گا ، اس بارے میں کوئی دعویٰ نہیں کیا جاسکتا۔ ورلڈ ہیلت آرگنائزیشن نے بھی کہہ دیا ہے کہ کورونا کے ساتھ جینے کا ہنر سیکھ لینا چاہئے۔ ڈسمبر میں وجود میں آنے کے بعد دنیا بھر کو قہر کا شکار بنانے والے اس وائرس کی کوئی دوا اور ویکسن ابھی تک ایجاد نہیں ہوئی ۔ ایسے میں وائرس مزید کتنے سال برقرار رہے گا ، دوائی یا ویکسن کب ایجاد ہوگی ، اس کی کوئی گیارنٹی نہیں۔ دنیا نے اس حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے اور کئی ممالک نے لاک ڈاؤن ختم کرتے ہوئے معمول کی زندگی بحال کرنے کی سمت قدم اٹھائے ہیں کیونکہ وائرس کے خاتمہ کا انتظارکرتے ہوئے لاک ڈاؤن جاری رکھنا کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں ہوسکتا۔ کوئی بھی ملک آخر کب تک اپنی تباہی کا سامان کرتا رہے گا۔ ہندوستان نے بھی ملک کو بچانے کیلئے جزوی لاک ڈاون کے ذریعہ عام زندگی بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ طویل لاک ڈاؤن سے ایک طرف عوام بیزار ہیں تو دوسری طرف حکومت پریشان ہے۔ احتیاطی تدابیر کو ملحوظ رکھتے ہوئے معاشی اور تجارتی سرگرمیوں کی اجازت کا فیصلہ کیا گیا تاکہ معیشت دوبارہ پٹری پر لگ جائے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے خود اعتراف کیا کہ کورونا کے خاتمہ کے وقت کا تعین ممکن نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے صنعتی ، تجارتی ، تعمیری اور روزگار سے مربوط سرگرمیوں کو بحال کرنے لاک ڈاون میں نرمی دی ہے ۔ ایروپلین ، ٹرین اور بس خدمات کی بحالی سے قبل لاکھوں مائیگرنٹ لیبرس کو اپنے آبائی مقامات منتقلی کی اجازت دی گئی ۔ سرکاری و خانگی دفاتر اور فیکٹریز میں باقاعدہ کام کا آغاز ہوگیا۔ عوامی شعبہ جات کی تجارتی سرگرمیاں بحال ہوگئیں۔ بازاروں کی رونق ملک کے بیشتر شہروں میں لوٹ آئی ہے۔

حد تو یہ ہوگئی کہ حکومت نے مئے نوشوں کی بے چینی کو محسوس کرتے ہوئے شراب کی دکانات کو کھول دیا ہے۔ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں مرد و خواتین ، نوجوان اور بوڑھے کیا امیر کیا غریب کچھ اس طرح ٹوٹ پڑے جیسے وہاں صحت کو خراب کرنے والی شراب نہیں بلکہ کورونا کی دوائی یا ویکسن دستیاب ہے۔ طویل عرصہ کے لاک ڈاؤن کے دوران غریب اور متوسط گھرانوں کی مشکلات نے ہر کسی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا لیکن شراب کھلتے ہی منظر بدل گیا۔ یہ بات ثابت ہوگئی کہ لاک ڈاؤن میں لوگ بھوکے نہیں بلکہ پیاسے تھے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ شراب عوامی صحت کیلئے مضر ہے ، حکومت نے دکانات کو کھول دیا لیکن افسوس کہ انسانوںکی روحانی تسکین کے مراکز یعنی عبادتگاہوں کو بند رکھا گیا ہے ۔ شراب کی دکانات پر ہجوم ، پولیس لاٹھی چارج تو ہوتا رہا اور سماجی دوری اور دوران ماسک کے استعمال جیسی پابندیوں پر کس حد تک عمل کیا گیا ہے ، اس بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ شرابی جب حکومت کی نظر میں سماجی دوری کو برقرار رکھ سکتے ہیں تو عبادت گاہوں میں خدا کے آگے سر جھکانے والے پابندی کیوں نہیں کرسکتے ؟

گھر واپسی کیلئے مائیگرنٹ لیبرس اور شراب کیلئے شرابی بے چین ہوکر اپنے مقصد کو پاسکتے ہیں تو پھر مساجد سجدوں سے محروم کیوں ہیں ؟ حالانکہ مسلمان عبادت کے لئے لیبر اور شرابیوں سے زیادہ بے چین ہیں۔ انہیں طاقت کے بل پر کیوں عبادت سے روکاجارہا ہے ، حالانکہ وہ سماجی دوری اور دیگر احتیاط کی پاسداری دوسروں سے بہتر کرسکتے ہیں۔ شراب کی بوتل کے لئے جب کوئی سماجی دوری پر عمل کرسکتا ہے تو خدائے واحد کے آگے سر جھکانے والا ڈسپلن شکن کیسے ہوگا۔ لاک ڈاؤن کے درمیان رمضان المبارک کا آغاز ہوگیا اور ابھی تک مسلمان 8 جمعے کی عبادت سے محروم ہوگئے۔ اب جبکہ رمضان المبارک وداعی کے راستے پر گامزن ہے اور دوسری طرف جزوی لاک ڈاون کے ذریعہ شراب اور دیگر تجارتی سرگرمیوں کو بحال کیا گیا تو پھر مسلمانوں کا بھی حق بنتا ہے کہ وہ کم از کم جمعتہ الوداع اور عیدالفطر کے سلسلہ میں حکومت کو توجہ دلائیں۔ اس سلسلہ میں پہل کرتے ہوئے سابق مرکزی وزیر سی ایم ابراہیم نے مسلمانوں کی مذہبی اورسیاسی قیادت کو روشنی دکھائی ہے۔ انہوں نے چیف منسٹر کرناٹک یدی یورپا کو مکتوب روانہ کرتے ہوئے سماجی فاصلہ اور دیگر احتیاط کے ساتھ عیدگاہ اور مساجد میں نماز عید الفطر کی اجازت کا مطالبہ کیا۔ سی ایم ابراہیم کا ماننا ہے کہ جب دیگر سرگرمیاں بحال ہورہی ہیں تو پھر سال میں ایک مرتبہ آنے والی اس خصوصی عبادت کی اجازت بھی دی جانی چاہئے ۔ جب ہر کسی کو کورونا کے ساتھ جینا سیکھ لینا ہے تو پھر مساجد میں عبادت کی اجازت کیوں نہیں۔ اگر کورونا مزید دو برسوں تک اثر دکھاتا رہا تو کیا مساجد کو دو برس تک بند رکھیں گے ؟ کسی نے شراب ، کسی نے ٹرین ، کسی نے ایروپلین ، کسی نے بس اور کسی نے تجارت کی خواہش کی ایسے میں مسلمان مسجد کی جانے کی خواہش کا اظہار کریں تو جرم یا برائی کیا ہے ۔ لاک ڈاؤن سے انسان تو کیا جنگلی جانور بھی بیزار ہوچکے ہیں اور وہ جنگل سے نکل کر آبادیوں میں پہنچ رہے ہیں۔ دراصل یہ جنگلی جانور جاننا چاہتے ہیں کہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے ، اس قدر بزدل کیوں ہوچکا ہے ۔ ایک جنگلی جانور تو حیدرآباد میں ایک مسجد پہنچ گیا تاکہ نمازیوں کی بے حسی اور مساجد کی ویرانی پر ماتم کرسکے۔ کرناٹک کی طرح ملک بھر میں نماز عید الفطر کی اجازت کیلئے باقاعدہ مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ اس معاملہ میں قیادتوں پر تکیہ کرنے اور ان کی بیداری کا انتظار کئے بغیر عوام کو ذرائع ابلاغ اور سوشیل میڈیا کے ذریعہ حکومت پر دباؤ بنانا ہوگا۔ کیا ہم مائیگرنٹ لیبر اور شرابیوں سے بھی گئے گزرے ہیں کہ آواز بھی نہیں اٹھاسکتے۔ حیدرآباد جو ہندوستانی مسلمانوں کا دارالخلافہ تھا، آج مخلص اور بے باک قیادتوں سے خالی ہوچکا ہے۔ حکومت کے پوچھنے سے پہلے ہی مذہبی اور سیاسی رہنماؤں نے اپنے طور پر رمضان کی طرح عیدالفطر پر مساجد اور عیدگاہوں سے دوری کا اعلان کردیا۔ آخر حکومت کی تابعداری میں اتنی تیزی کیوں ؟ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ نازک گھڑی میں جن کو رہنمائی کرنا تھا ، وہی مذہبی اور سیاسی قیادت سیلف کورنٹائن ہوچکی ہے۔

کورونا کے قہر سے بچنے کے لئے اللہ تبارک و تعالیٰ کو راضی کرنا ضروری ہے۔ کورونا دراصل عذاب الٰہی کی ایک جھلک ہے جو بندوں کی نافرمانیوں اور اعمال کا نتیجہ ہے۔ خدا کو راضی کرنا ہے تو توحید و رسالت پر ایمان رکھنے والوں کو مساجد میں جانے کی اجازت دی جانی چاہئے ۔ مائیگرنٹ لیبرس نے اپنی منزل مقصود پہنچنے کیلئے سواری کی پرواہ نہیں کی اور ہزاروں کیلو میٹر کا فاصلہ طئے کیا لیکن امت مسلمہ کو آخر کیا ہوگیا کہ وہ عزیمت کے بجائے رخصت کا راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ عزیمت کا راستہ اختیار کرنے والوں نے ہمیشہ دنیا کو جھکنے پر مجبور کیا ۔ موجودہ صورتحال میں مسلمانوں کو فتوے سے زیادہ تقوے کی ضرورت ہے۔ فتوؤں کے ذریعہ مسلمانوں کے حوصلوں کو مزید پست کیا جارہا ہے حالانکہ جمعتہ الوداع اور عیدالفطر کے موقع پر مساجد کھولنے کا مطالبہ غیر دستوری اور غیر قانونی نہیں ہے ۔ اگر ہم مساجد کا راستہ اختیار کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے خود بہ خود کھل جائیں گے۔ شہر کی بڑی مساجد میں جہاں پانچ افراد کے ساتھ نمازوں کا اہتمام کیا جارہا ہے ، ان میں سے ایک پولیس کا سادہ لباس ملازم ہوتا ہے۔ آخر حکومت کے خلاف کوئی بغاوت تو نہیں ہوئی کہ مساجد میں جاسوسوں کو متعین کیا گیا۔ ساری دنیا نے کورونا وائرس کی دوائی کے بارے میں ہاتھ اٹھالئے ہیں مومن مسلمانوں کے پاس دعاء ایسا ہتھیار ہے جو وائرس کا خاتمہ کرسکتا ہے۔ دعاء ہر ممکن کا ہتھیار ہے لیکن مساجد کو بند کرتے ہوئے اس حق سے محروم رکھا گیا ہے۔ وائرس کیا چیز ہے دعا انسانی تقدیر بدل سکتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کو اللہ کے دربار میں ہاتھ اٹھانے کی اجازت دی جائے ۔ علامہ اقبال نے اسی لئے شائد کہا تھا ؎
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات