یہ ہے چار دن کی ہے چاندنی یہ ریاستیں یہ وزارتیں

   

’’ایک ملک ایک الیکشن‘‘ … بے وقت کی راگنی
مودی ۔عمران خان … لو لیٹرس کا تبادلہ
تلگو دیشم سے انحراف … شریعت میں مداخلت کی کوشش تیز

رشیدالدین
راجیہ سبھا میں اکثریت کے لئے بی جے پی عجلت میں ہے۔ لوک سبھا میں بھاری اکثریت کے حصول کے بعد راجیہ سبھا میں اکثریت حاصل کرنے وہ ایک سال تک انتظار کیلئے تیار نہیں۔ بی جے پی کو مزید ایک سال میں راجیہ سبھا میں اکثریت یقینی ہے لیکن سنگھ پریوار کے طئے کردہ ایجنڈہ پر عمل آوری کی جلدی نے دوسری پارٹیوں میں پھوٹ پیدا کرنے پر مجبور کردیا ہے ۔ حکومت کے کسی بھی فیصلہ کی منظوری میں نریندر مودی کوئی رکاوٹ نہیں چاہتے۔ لوک سبھا میں اکثریت کے باوجود حکومت کو راجیہ سبھا میں مخالفت کا سامنا ہے۔ پہلی میعاد میں کئی بلز راجیہ سبھا میں محض اس لئے منظوری سے رک گئے کیونکہ بی جے پی کو اکثریت نہیں ہے۔ طلاق ثلاثہ پر پابندی سے متعلق بل لوک سبھا میں منظوری کے باوجود دو مرتبہ راجیہ سبھا میں منظور نہ ہوسکا۔ دوبارہ اقتدار کے ساتھ ہی نریندر مودی کو ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری میں جلدی ہے۔ لہذا دیگر پارٹیوں سے انحراف کی منصوبہ بندی کی گئی ۔ پہلا نشانہ تلگو دیشم کو بنایا گیا جس کے 6 کے منجملہ 4 ارکان راجیہ سبھا نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی ۔ لوک سبھا انتخابات کے بعد تلنگانہ میں ٹی آر ایس نے کانگریس سے بڑے پیمانہ پر انحراف کی حوصلہ افزائی کی تھی ۔ بی جے پی مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس قائدین پر ڈورے ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تلگو دیشم کے چار ارکان راجیہ سبھا کا انحراف دوسری پارٹیوں کیلئے خطرہ کی گھنٹی ہے۔ ابھی تو یہ آغاز ہے ، ہوسکتا ہے کہ دیگر اپوزیشن جماعتوں کو بھی نشانہ بنایا جائے گا تاکہ جلد سے جلد دونوں ایوانوں پر بی جے پی کا غلبہ ہوجائے اور کسی بھی قانون کی منظوری میں کوئی رکاوٹ نہ رہے۔ تلگو دیشم کے چار ارکان کی بی جے پی میں شمولیت سے شریعت کو خطرہ بڑھ چکا ہے کیونکہ حکومت جاریہ سیشن میں طلاق ثلاثہ بل کو منظور کرانا چاہتی ہے۔ لوک سبھا میں کام کے پہلے ہی دن حکومت نے طلاق ثلاثہ بل متعارف کردیا ہے، جس سے اس کے عزائم کا اندازہ ہوتا ہے ۔ بی جے پی کی حلیف جنتا دل یونائٹیڈ نے بل کی مخالفت کا اعلان کیا ۔ لہذا راجیہ سبھا میں ہزیمت سے بچنے کیلئے دوسری پارٹیوں میں پھوٹ پیدا کی جاسکتی ہے۔ ویسے بھی برسر اقتدار پارٹی کے پاس اقتدار کی کشش ہوتی ہے اور قائدین بآسانی لالچ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تلگو دیشم کے جن چار ارکان نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی، ان پر مختلف مقدمات زیر دوران ہیں اور س بی آئی و انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کی مزید کارروائیوں سے بچنے کے لئے ہوسکتا ہے انحراف کیا۔ بعض سیاسی حلقوں کا ماننا ہے کہ چندرا بابو نائیڈو کی منظوری سے یہ انحراف کیا گیا تاکہ مقدمات سے بچا جاسکے ۔ بی جے پی کے ایجنڈہ میں کئی ایسے متنازعہ امور شامل ہیں جن کی تکمیل پہلی میعاد میں نہیں کی جاسکی ۔ رام مندر کی تعمیر کیلئے قانون سازی ، کشمیر کے خصوصی موقف سے متعلق دفعہ 370 کی برخواستگی ، یکساں سیول کوڈ اور مسلمانوں کی شہریت کو نشانہ بنانے ملک بھر میں قومی شہریت رجسٹر جیسے امور ایجنڈہ کا حصہ ہے۔ ان تمام کا خلاصہ ہندو راشٹر کا قیام ہے ۔ آر ایس ایس نے ہندو راشٹر کے لئے 2024 کا نشانہ مقرر کیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مودی اپنے وزیر باتدبیر امیت شاہ کو وزیر داخلہ مقرر کرتے ہوئے دوسری میعاد میں ہندوتوا ایجنڈہ کی تکمیل پر توجہ دیں گے ۔ لوک سبھا میں اپوزیشن بالخصوص کانگریس پارٹی کافی کمزور ہے اور وہ بی جے پی کی عددی طاقت کے آگے بے بس دکھائی دے رہی ہے۔ کانگریس کی ابتر حالت کا اندازہ لگانے کیلئے یہ کافی ہے کہ آج تک نئے صدر کا انتخاب نہیں کیا گیا اور نہ ہی راہول گاندھی استعفیٰ واپس لینے تیار ہیں۔ سیاست میں جیت اور ہار کا کھیل چلتا رہتا ہے لیکن شکست کے بعد سپہ سالار ہی فرار کا راستہ اختیار کرلے تو پھر فوج کو حوصلہ کون دے گا ؟ راہول گاندھی نے کم عمری میں پارٹی کی کمان ضرور سنبھال لی ہے لیکن اپنے والد اور دادی کی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا ۔ انتخابی مہم میں راہول گاندھی نے کافی محنت کی لیکن مہم کے موضوعات کے انتخاب میں وہ دھوکہ کھاگئے۔ راہول گاندھی کے اطراف کا ٹولہ اور عوام کی نبض سے ناواقف مشیروں نے کانگریس کی نیا ڈبودی۔ کانگریس پارٹی کو شکست کا ماتم ختم کرتے ہوئے عوامی خدمت اور ملک کو جارحانہ فرقہ پرستوں کے چنگل سے بچاتے ہوئے دستور اور قانون کی بالادستی کی برقراری کے جذبہ کے ساتھ میدان عمل میں آنا ہوگا۔ اگر کانگریس اپنے فریضہ کی تکمیل میں ناکام ہوتی ہے تو پھر بی جے پی کو ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری سے کوئی روک نہیں پائے گا۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد برسر اقتدار پارٹی کو عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کی فکر ہوتی ہے لیکن نریندر مودی کو ابھی سے آئندہ انتخابات کی فکر لاحق ہوچکی ہے۔ پہلی میعاد کے نامکمل اور دوسری میعاد میں کئے گئے نئے وعدوں کی تکمیل پر اجلاس طلب کرنے کے بجائے نریندر مودی نے ایک ملک ، ایک الیکشن کا شوشہ چھوڑا ۔ لوک سبھا کے ساتھ ملک کی تمام اسمبلیوں کے یکساں انتخابات کے حق میں ہیں تاکہ بقول ان کے سرکاری خزانہ پر بوجھ کم کیا جاسکے۔ اپوزیشن کے ساتھ سر جوڑ کر ملک کے لئے ترقیاتی اور عوام کا فلاحی ایجنڈہ طئے کرنے کے بجائے بے وقت کی راگنی سے ذہنی عیاشی کا سامان کیا گیا۔ الیکشن کے فوری بعد دوبارہ الیکشن پر غور کرنا بے موقع ، بے محل ہی نہیں ، مضحکہ خیز بھی ہے۔ کوئی بھی پارٹی میعاد کی تکمیل سے قبل اسمبلی تحلیل کیوں کرے گی ؟ الیکشن کمیشن نے اس تجویز کو ناقابل عمل قرار دیا ہے لیکن مودی حکومت کو ایک جنون سوار ہے۔ کانگریس سمیت 8 اہم اپوزیشن جماعتوں نے اجلاس سے دور رہ کر دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے ۔
’’ایک ملک ، ایک الیکشن ‘‘ کے نعرے کے پس پردہ کچھ تو ضرور ہوگا جس کے سبب بی جے پی اسے ایجنڈہ سے نکالنے تیار نہیں۔ ایک ملک ، ایک الیکشن کے بعد ایک ملک ، ایک قانون کا نعرہ لگ سکتا ہے جو یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی راہ ہموار کردے گا ۔ مستقبل میں ایک ملک ، ایک پارٹی اور پھر ایک ملک ایک ایوان کا نعرہ لگایا جائے گا۔ سنگھ پریوار تو چاہتا ہے کہ ایک ملک ایک مذہب کا نعرہ لگاکر ہندوستان کو ہندو راشٹر میں تبدیل کردیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ مودی کو پہلی مرتبہ اقتدار ملتے ہی سنگھ پریوار نے گھر واپسی کا نعرہ لگایا تھا ۔ بی جے پی اگر واقعی ایک ملک ایک الیکشن میں سنجیدہ ہے تو پھر اس نے تلنگانہ میں وسط مدتی انتخابات کی اجازت کیوں دی ؟ لوک سبھا کے ساتھ کشمیر اسمبلی کے انتخابات کیوں نہیں کرائے گئے ؟ کشمیر میں عوامی منتخب حکومت کے قیام کے بجائے صدر راج میں توسیع کیوں کی گئی ؟ بی جے پی کشمیر کے معاملہ میں تعصب کی عینک لگائے ہوئے ہے۔ وہ ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کو نشانہ بنارہی ہے۔ کشمیر میں مسلم اکثریت بی جے پی کو برداشت نہیں لہذا وہ جغرافیائی حدود تبدیل کرتے ہوئے مسلمانوں کے اثر کو گھٹانا چاہتی ہے۔ مسلمانوں کو بے اثر کرنے کے علاوہ وہاں کی مسلم جماعتوں اور قائدین کی اہمیت گھٹانے کی منصوبہ بندی ہے۔ کیا کشمیر کے عوام کو اپنی پسند کی حکومت کے انتخاب کا اختیار نہیں ہے ؟ بی جے پی کو ڈر ہے کہ اسمبلی انتخابات کی صورت میں وہاں پی ڈی پی نیشنل کانفرنس اور کانگریس کا اتحاد برسر اقتدار آجائے گا ۔ دوسری طرف نریندر مودی اور پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے درمیان ’’لو لیٹرس‘‘ کا سلسلہ جاری ہے ۔ دونوں اپنے اپنے مقامات پر بیٹھ کر ڈرامہ بازی کر رہے ہیں۔ انہیں اپنے عوام کی بھلائی سے کوئی دلچسپی نہیں۔ تعلقات بہتر بنانے کے نام پر سیاست کی جارہی ہے۔ مودی کے دوبارہ وزیراعظم بننے پر عمران خان نے مبارکباد کا پیام روانہ کیا تھا جس کا جواب نریندر مودی نے روایتی انداز سے دہشت گردی کو بنیاد بناکر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک پاکستان دہشت گردی کے خلاف سخت کارروائی نہیں کرتا، اس وقت تک بات چیت کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ عمران خان نے انتخابی نتائج سے قبل ہی مودی کے دوبارہ وزیراعظم بننے کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار کردیا تھا ۔ اس کے باوجود مودی مذاکرات کیلئے شرائیط رکھ رہے ہیں جو ان کی مجبوری کے علاوہ کچھ نہیں۔ جب تک پاکستان کو نشانہ نہ بنایا جائے ، اس وقت تک بی جے پی کا ووٹر اور سنگھ پریوار خوش نہیں ہوگا۔ حال ہی میں کرغستان کی چوٹی کانفرنس میں شرکت سے قبل مودی نے عمران خان سے ملاقات نہ کرنے کا اعلان کیا لیکن کانفرنس میں خیر سگالی ملاقات کی اور عمران خان کی مبارکباد کو قبول کیا۔ جب ملک سے باہر اور عوام کی نظروں سے اوجھل ہوکر دونوں قائدین آنکھ مچولی کا کھیل کھیل رہے ہیں تو ملک اور عوام کے مفاد میں کھلے عام مذاکرات سے انکار کیوں ؟ پاکستان سے دہشت گردی کا مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ نواز شریف کے وقت بھی یہی شکایت تھی ، اس کے باوجود حلف برداری میں نواز شریف کو مدعو کیا گیا تھا ۔ مودی نے کسی دعوت کے بغیر لاہور پہنچ کر نواز شریف کو سالگرہ کی مبارکباد پیش کی۔ کیا اس وقت پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف کارروائی کی تھی ؟ اب جبکہ صورتحال وہی برقرار ہے تو پھر مذکرات سے انکار کیوں ؟ مودی اپنے قدیم دوست نواز شریف کی صحت کے بارے میں فکرمند نہیں ہیں۔ حالانکہ انہیں بیماری کی حالت میں جیل میں رکھا گیا ہے، اس کے باوجود انسانیت کے ناطے نریندر مودی ہمدردی کے دو بول ادا کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ کیا مودی کی دوستی صرف کرسی اور اقتدار تک محدود رہتی ہے ؟ اگر کوئی اقتدار سے محروم ہوجائے تو مودی اسے بھول کر نئے حکمراں سے دوستی کرلیتے ہیں۔ جس طرح فلموں اور ڈراموں میں اداکاروں کو اپنا پرانا کردار یاد نہیں رہتا ، اسی طرح نریندر مودی سابق میں پاکستانی حکمرانوں سے دوستی کو بھلاچکے ہیں۔ انہیں جان لینا چاہئے کہ دوسروںکی طرح ان کا اقتدار بھی مستقل نہیں ہے۔ ڈاکٹر بشیر بدر نے اسی بات کو یوں بیان کیا ہے ؎
یہ ہے چار دن کی ہے چاندنی یہ ریاستیں یہ وزارتیں
مجھے اُس فقیر کی شان دے کہ زمانہ جس کی مثال دے