اگر مسلمان مخالفت کرتے تو مغل دور کے دوران ہندوستان میں ایک بھی ہند و باقی نہیں رہتا۔ کرناٹک کے سابق جج

,

   

انہوں نے مزیدکہاکہ ”ہندو دیوتائیں بھگوان رام اور بھگوان کرشنا ناول کے محض کردار ہیں۔ وہ تاریخی شخصیتیں نہیں ہیں“۔ ریٹارئرڈ جج نے مزیدکہاکہ بادشاہ اشوک حقیقی تاریخی شخصیت تھے۔


وجئے پورا۔ایک ریٹائرڈ ضلع جج واسانتھا مولسولگی نے یہ کہتے ہوئے ایک تنازعہ کھڑا کردیاہے کہ ہندوستان میں ہندو اس لئے زندہ ہیں کہ مسلمانوں نے انہیں رہنے دیاہے۔ مولسولگی نے کہاکہ ”اگر ہندو وں کی مسلمان مخالفت کرتے تو مغل دور میں ایک بھی ہندو باقی نہیں رہتا۔

وہ تمام ہندوؤں کو قتل کردیتے۔ حالانکہ انہو ں نے پانچ سوسالوں تک حکمرانی کی ہے‘ مسلمان کیوں اقلیت میں ہیں؟“۔ ریاست کے شہر وجئے پورا میں منعقدہ ایک سمینار جس کا عنوان تھا”کیا ائین کے مقاصد پورے ہوگئے ہیں؟ سے خطاب کے دوران مذکورہ ریٹائرڈ جج نے یہ متنازعہ بیان دیاہے۔

یہ بیان سوشیل میڈیاپر وائیرل ہورہا ہے۔ اس سمینار کو راشٹریہ سوہردا ویدیکا اور دیگر تنظیموں نے جمعرات کے روز منعقد کیاتھا۔انہوں نے کہاکہ ”جو لوگ دعوی کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے ایسا کیا ویسا کیا تو انہیں یہ جاننا ضروری ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حکمرانی کی700سال کی تاریخ کیاکہتی ہے“۔

انہو ں نے مزیدکہاکہ ”مغل بادشاہ اکبر کی بیوی ایک ہندورہی اور انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا۔ عدالت کے اندر اکبر نے کرشنا مند ر تعمیر کی تھی۔ لوگوں کو یہ بھی دیکھنا چاہئے“۔

انہوں نے مزیدکہاکہ ”ہندو دیوتائیں بھگوان رام اور بھگوان کرشنا ناول کے محض کردار ہیں۔ وہ تاریخی شخصیتیں نہیں ہیں“۔

ریٹارئرڈ جج نے مزیدکہاکہ بادشاہ اشوک حقیقی تاریخی شخصیت تھے۔واسنتا مولسولگی نے کہاکہ ”اتراکھنڈ میں شیو لنگ پر بدھا کی تصویر کی عکاس اتارا گیاہے۔

بدھ مت کے ماننے والوں نے اس ضمن میں ایک شکایت درج کرائی ہے۔ منادر کی تعمیر سے یہ بھی یہ کہا جاتا رہا ہے کہ منادر کو مساجد میں تبدیل کردیاگیاہے‘ بادشاہ اشوک نے 84,000بدھا وہاراس تعمیر کئے تھے۔

وہ کہاں چلے گئے؟وقفہ وقفہ سے اس کام کو انجام دیاگیاہے۔کیایہ بڑا مسئلہ نہیں ہے؟“۔انہوں نے یہ بھی کہاکہ ”ائین کے مقاصد واضح اور درست ہیں۔شکوک وشبہات پیدا ہورہے ہیں کیونکہ نظام ائین کے مقاصد کو پورا کرنے میں ناکام ہورہے ہیں۔ اس کو درست کرنے اورناکامی کو ختم کرنے میں نوجوان نسل کو اس سمت میں چوکنا رہنے اورفعل ہونے کی ضرورت ہے“۔


انہوں نے کہاکہ ”یہا ں پر 1999کا ایک قانون ہے تاکہ منادروں‘ گرجاگھرو ں او رمساجد کو جوں کا توں رکھا جائے۔ اس کے باوجود ضلع عدالت اس ضمن میں اس کے برعکس فیصلہ دے رہا ہے۔

وہ اس بات پر قائم رہے کہ ”ہمیں عصری منظرکے بارے میں سونچنا ہوگا۔ہمیں واپس نہیں جاناچاہئے۔ہمیں اپنی آواز کو صحیح طریقے سے اٹھانا ہے“۔

ایک اورریٹائرڈ جج ارالی ناگ راج نے رائے دہی کہ تمام امیدواروں کے ذریعہ حلف نامہ ہونا چاہئے کہ وہ انتخابات جتنے کے بعد پارٹی نہیں بدلیں گے۔

انہوں نے مزیدکہاکہ ”اس طرح کا ایک قانون لانے کی ضرورت ہے۔ آزاد ی سے قبل ہندوستان میں حب الوطنی کی سطح بہت عظیم تھی۔ اس وقت خود غرضی نے اس کو اپنی لپیٹ میں لے لیاہے“۔