تا کہ دور فرما دے آپ کے لیے اللہ تعالیٰ جو الزام آپ پر (ہجرت سے) پہلے لگائے گئے اور جو ( ہجرت کے) بعد لگائے گئے اور مکمل فرما دے اپنے انعام کو آپ پر اور چلائے آپ کو سیدھی راہ پر۔ (سورۃ الفتح ۲) 

   

گزشتہ سے پیوستہ … جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ فرعون کے پاس جاؤ اور اسے دعوت حق دو، تو آپ نے بارگاہ الٰہی میں عرض کی: وَلَـهُـمْ عَلَىَّ ذَنْبٌ فَاَخَافُ اَنْ يَّقْتُلُوْنِ ۔(۲۶:۱۴) ترجمہ: انہوں نے مجھ پر الزام لگا رکھا ہے، پس مجھے اندیشہ ہے کہ وہ مجھے قتل کر دیں گے۔ اس آیت میں ذنب سے مراد گناہ نہیں، بلکہ الزام ہے۔ کیونکہ آپ نے اپنے اور اپنے امتی کے بچاؤ کے لیے یہ اقدام کیا تھا۔ آپؑ کا ارادہ اس کو قتل کرنے کا ہر گز نہ تھا اور نہ عام طور پر مکا لگنے سے موت واقع ہوتی ہے۔ان آیات کے سیاق و سباق کو مدنظر رکھا جائے ، تو یہی معنی (الزام) یہاں موزوں اور مناسب معلوم ہوتا ہے۔ غفر کا معنی چھپا دینا، دور کر دینا۔ ما تقدم سے مراد ہجرت سے پہلے اور ماتأخر سے مراد ہجرت کے بعد۔یعنی اے حبیب! جو الزامات کفار آپ پر ہجرت سے پہلے عائد کیا کرتے تھے اور جو الزامات ہجرت کے بعد اب تک وہ لگاتے رہے ہیں، اس فتح مبین سے وہ سارے کے سارے نیست و نابود ہو جائیں گے اور ان کا نام و نشا ن بھی باقی نہیں رہے گا۔پہلے ہم قرآن حکیم اور کتب حدیث سے ان الزامات کی چھان بین کرتے ہیں اور اس کے بعد یہ وضاحت کریں گے کہ وہ الزامات اس فتح مبین سے کس طرح دور ہوگئے۔