سیدۂ کائنات خاتون جنتکیسیرت کے درخشاں پہلو

   

خاتون جنت حضرت سیدہ بی بی فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے متعلق جو احادیث وارد ہوئی ہیں‘ اس کے پیش نظر آپ کو تعظیم و توقیر‘ عزت و شرافت میں دنیا کی عورتوں میں افضل و اعلیٰ مانا جاتا ہے۔ ایک مرفوع حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ و سلم نے فرمایا ’’جنتی عورتوں میں حضرت خدیجہ اور حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہما) افضل ہیں‘‘ (سیراعلام النبلاء ۲:۹) ایک دوسری حدیث میں نبی اکرم ﷺ دنیا کی تمام عورتوں میں سے حضرت خدیجۃ الکبریٰ‘ حضرت فاطمۃ الزہرا‘ حضرت مریم اور حضرت آسیہ کو بہترین خواتین فرمایا ۔(نفس کتاب) بعض روایات میں حضرت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
حضرت بی بی فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو محققین نے بسبب قرابت دنیا کی تمام خواتین میں افضل قرار دیا‘ اس لئے کہ حضرت بی بی فاطمۃ الزھرا رضی اللہ عنہا نبی اکرم ﷺکا ایک جز ہیں (البخاری ۴:۲۱) نیز نبی اکرم ﷺنے بی بی فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے متعلق فرمایا کہ ’’آپ خواتین جنت کی سردار ہیں‘‘ (الاستیعاب ۴:۲۷۶) واضح رہے کہ علماء نے اہل بیت‘ آل الکساء‘ آل العباء کی تعبیرات خصوصیت کے ساتھ نجران کے عیسائیوں کے خلاف مباہلہ میں بی بی فاطمۃ الزہرا کی شمولیت سے بھی دیگر خواتین پر آپ کی فضلیت پر استدلال کیا ہے۔ مخفی مبادکہ بی بی فاطمۃ الزہرا کے علاوہ نبی اکرم ﷺکی دیگر صاحبزادیوں کو بھی جزو بدن ہونے کا اعزاز حاصل ہے‘ تاہم محققین نے بی بی فاطمہ کو متعدد وجوہات کی بناء اپنی حقیقی بہنوں میں بھی افضل قرار دیا ہے۔
الذہبی نے ابوجعفر الباقر سے روایت کیا ہے کہ بی بی فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی ولادت باسعادت اس وقت ہوئی جب قریش خانہ کعبہ کی تعمیر میں مصروف تھے (سیراعلام النبلاء ۲:۹۳) تعمیر کعبہ کا واقعہ بعثت سے پانچ سال پیشتر کا ہے‘ اس وقت نبی اکرم ﷺکی عمر شریف ۳۵ برس تھی۔
نبی اکرم ﷺنے جب نبوت کا اعلان فرمایا اور اشاعت اسلام کے اہم فریضہ کو انجام دینا شروع کیا تو اس وقت نہ صرف نبی اکرم ﷺ کے لئے مشکلات کھڑی کی گئیں بلکہ آپ ﷺکے ساتھ آپ ﷺکے خاندان کو بھی مصائب و مشکلات سے گزرنا پڑا۔ شعب ابی طالب میں عرب کے سماجی بائیکاٹ کے صبر آزما ایام میں بی بی فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا اپنے والد ماجد کے ساتھ کٹھن مراحل سے گزریں۔
بی بی فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے بچپن میں ایک دن جب نبی اکرم ﷺ صحن کعبہ میں عبادت الٰہی میں مشغول تھے کہ ابوجہل کے اشارہ پر عقبہ بن ابی معیط نے مذبوحہ اونٹ کی اوجھڑی کو سجدہ کے دوران آپ ﷺ کی گردن پر رکھ دیا۔ حضرت فاطمہؓ دوڑتی ہوئی پہنچیں اور نبی اکرم ﷺ سے اذیت و تکلیف کو دور کیں۔
(البخاری ۱:۶۴۳)
حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بھی اعلائے کلمۃ اللہ و اشاعت اسلام میں بھرپور حصہ لیا اور اسلام کی سربلندی میں مجاہدانہ کردار نبھایا۔ چنانچہ جنگ احد میں بی بی فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا شریک رہیں‘ احد کے مجاہدین کو پانی پلانے کی ذمہ داری ادا کیں اور جب نبی اکرم ﷺ زخمی ہوئے تو بی بی فاطمۃ الزھرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مرہم پٹی کی۔ نیز بی بی فاطمۃ الزہرا فتح مکہ کی مہم میں بھی شریک رہیں۔
نبی اکرم ﷺنے اشارہ غیبی سے اپنی لخت جگر خاتون جنت بی بی فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لئے اپنے چچازاد بھائی حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کو منتخب فرمایا‘ اس طرح یہ افضل الانبیاء کی محبوب صاحبزادی بی بی فاطمہ کی شادی جنگ بدر کے بعد نہایت سادگی سے انجام پائی اور اللہ تعالیٰ نے اس رشتہ میں ایسی برکت عطا فرمائی کہ حضور پاک ﷺ کی نسل پاک کا سلسلہ آپؐ کی اولاد امجاد میں صرف اور صرف بی بی فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے جاری ہوا۔
حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ‘ بی بی فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بڑا لحاظ رکھتے اور نبی اکرم ﷺہمیشہ بی بی فاطمہؓ کو اپنے شوہر کی اطاعت و فرماں برداری اور امور خانہ داری کے بارے میں تقسیم کار کی نصیحت فرمایا کرتے‘ جس کے سبب بی بی فاطمہؓ کی ازدواجی زندگی نہایت آسودگی اور مکمل راحت و سکون سے گزری۔ عرب میں تعدد ازدواج کا رواج تھا لیکن حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے حضرت بی بی فاطمہ کے وصال تک کوئی دوسری شادی نہیں کی۔
حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا شکل و صورت میں اپنی والدہ ام المومنین حضرت سیدہ بی بی خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مشابہ تھیں اور آپؓ کی رفتار و گفتار نبی اکرم ﷺسے سب سے زیادہ ملتی جلتی تھی۔ آپؓ بلند پایہ شاعرہ بھی تھیں۔ چوں کہ بی بی فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال ۲۸ برس کی عمر میں نبی اکرم ﷺ کی رحلت سے چند ماہ بعد ہوا‘ اس لئے آپؓ سے بہت کم احادیث مروی ہیں۔ محدثین نے آپؓ کی روایت کردہ احادیث کی تعداد اٹھارہ اور انیس بتائی ہیں‘ جنہیں بی بی فاطمہ سے حضرت علی‘ حضرت حسن‘ حضرت حسین‘ حضرت عائشہ‘ حضرت سلمیٰ‘ حضرت اُم ہانی‘ حضرت انس (رضی اللہ عنہم و اجمعین)نے روایت کی ہے۔
حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو تین صاحبزادے حضرت حسن‘ حضرت حسین‘ حضرت محسن اور دو صاحبزادیاں حضرت زینب اور حضرت ام کلثوم تھیں۔ حضرت زینب کا نکاح حضرت عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب سے ہوا اور حضرت ام کلثوم کا عقد حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوا۔ تاہم بی بی فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نسل صرف حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ذریعہ دنیا میں باقی رہی۔