قوم کی تعمیر میں نوجوانوں کا کردار

   

ابوزہیرسیدزبیرہاشمی نظامی، مدرس جامعہ نظامیہ
آپ نے اکثر یہ جملہ سنا ہو گا کہ ’’کسی قوم کی تعمیر میں اس کے نوجوانوں کا بڑا کردار ہوتا ہے‘‘۔اب نوجوان کس کو کہتے ہیں ؟
جوانی، عمر کا وہ حصّہ ہوتی ہے کہ جب آپ بچپن کے دور سے نکل چکے ہوتے ہیں لیکن ابھی پختہ عمر یا سن شعور کی حدود میں داخل نہیں ہوئے ہوتے ہیں۔ یہاں پرشاید لفظ سن شعور پڑھ کر آپ محسوس کررہے ہوں گے۔ شاید آپ میں سے اکثر کو اپنے والدین سے بھی کبھی نہ کبھی یہ سننا پڑا ہو گا کہ ’’تم کو تو کسی چیز کا شعور ہی نہیں ہے‘‘۔ اگرچہ ہم عام بول چال میں عقل و شعور ملا کر بولتے ہیں لیکن درحقیقت ان دونوں الفاظ کے معنی الگ الگ ہیں۔ عقل تو وہ صلاحیت ہے جو آپ کے اندراللہ تعالیٰ نے آپ کی پیدائش کے ساتھ پیدا کی ہے لیکن شعور، یعنی صحیح، غلط اور فائدے، نقصان کے درمیان تفریق کا ادراک اوراس ادراک کی روشنی میں کسی بھی عمل کو سرانجام دینا ، یہ وہ صلاحیت ہے جو علم ، مشاہدے اور تجربے کے ساتھ حاصل ہوتی ہے۔ آپ کے بزرگ اپنی عمر کے جس حصّے میں داخل ہو چکے ہیں وہاں انھیں اپنے مشاہدوں اور تجربوں سے بہت سی ان باتوں کا ادراک ہو چکا ہے ۔ لہٰذا انکے مشورے ، نصیحتیں اور کبھی کبھی کہا گیا یہ جملہ کہ ’’ تم کو کسی چیز کا شعور نہیں ہے‘‘ دراصل انکی وہ خیر خواہی ہے کہ وہ نوجوان کو ان غلطیوں سے بچانا چاہتے ہیں ۔
درحقیقت نوجوانی کا دور وہ دور ہوتا ہے جب انسان کے ارادے ، جذبے اور توانائی اپنے عروج پر ہوتے ہیں ۔ اگران جذبوں اور توانائی سے قوم و ملک فائدہ نہ اٹھا سکیں تو یہ انتہائی بڑا نقصان ہے۔ قوم کے یہ نوجوان وہ ہیں جو صلاحیتوں سے بھرپور ہیں۔ جنکے عزائم بلند ہیں۔ جو مایوس نہیں ہیں اور جنکو اپنے ملک سے محبت ہے اوراپنے مسلمان ہونے پر فخر۔
اب صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ نوجوان کے پاس ایک واضح خاکہ اور منصوبہ بندی ہو کہ نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوے کیسے ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ یہ کام والدین، اساتذہ،حکومت اور خود نوجوانوں، سب کو مل کر کرنا ہے۔
سب سے بنیادی چیز بہترین تعلیم کا حصول ہے۔ بہترین تعلیم کا مطلب مہنگے اور مشہور تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنا نہیں ہے، بلکہ اپنے وسائل اور استعداد کے مطابق جہاں بھی تعلیم حاصل کررہے ہوں ، اسوقت ایک ایک لمحہ سیکھنے کے عمل میں استعمال ہو۔ ایسے وقت میں آپ کے والدین اور ارد گرد کا تقریباً سارا ماحول تعلیم حاصل کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اس لئے اس ایسے قیمتی وقت کو بالکلیہ ضایع ہونے نہ دیں۔ زیادہ سے زیادہ علم (دین اور دنیا) حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ایسا علم جو آپ کو بہترین مسلمان اور اچھا انسان بنائے اور آپ کی صلاحیتوں کو ابھارنے میں معاون ثابت ہو۔ اگر لکھنے، پڑھنے،بولنے اور سمجھنے کی بہترین استعداد ہو گی، تب ہی ملکی، خاندانی، معاشرتی طور پر اپنا کردار بہتر ادا کر سکیں گے۔
تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کوئی نا کوئی جائز و بہترین ہنر سیکھنے کی کوشش بھی ضرور کریں۔ یہ ہنر ایک تو کارآمد ہوگا کہ عملی زندگی میں ایک سے زیادہ راستے کھل جائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ انسانوں کو انسان سمجھنا زیادہ آسان ہوجائے گا۔ معاشرے کے کچھ لوگوں کو ان کے پیشوں سے ہٹ کر اپنے جیسا انسان سمجھنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ کوئی لوہارہوتا ہے تو کوئی مستری تو کوئی پلمبر تو کوئی الکٹریشن۔ جب ان میں سے کوئی ہنر سیکھیں گے تو احساس ہوگا کہ یہ کوئی ذاتیں نہیں ہیں، بلکہ یہ تو بس کچھ ہنر ہیں جنھیں سیکھ کر لوگ اپنی روزی کما رہے ہیں۔
ایک اور اہم کام جو نوجوانوں کو کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ایک باخبر اور ذی شعور انسان بننا ہے ۔ اپنی تاریخ(اسلامی اور دنیوی) سے بھی باخبر اور مستقبل میں کیا ہوتا نظر آرہا ہے اس سے بھی باخبر۔ نوجوان ہی وہ نسل ہیں جنھیں آگے جا کر اپنے ملک کی ذمہ داریاں نبھانا ہے۔ اس لئے نوجوانوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ماضی کی غلطیاں کیا تھیں، جنھیں اب دھرانا نہیں ہے اور بہترین مستقبل کیلئے زمانہ کے موجودہ وسائل اور ایجادات کا کیسے صحیح استعمال کرنا ہے۔ کتابیں پڑھنے کی عادت ڈالنا بہت ـضروری ہے۔ اچھی اور علمی صحبت تلاش کیجئے۔ انٹر نیٹ کی سہولت سے مثبت طور پر استفادہ حاصل کیجئے۔ فیس بک ، واٹس آیپ، یوٹیوب وغیرہ یہ سب چیزیں وقت ضا یع کرنے کا باعث بھی بن سکتی ہیں اور ان سے فائدہ بھی اٹھانے کا باعث بن سکتی ہیں۔ لہٰذا نوجوان ان مذکورہ چیزوں سے فائدہ اٹھانے والے بنیں۔آپکو اپنے اردگرد رہنے والے لوگوں اوران کے مسائل سے بھی باخبر رہنا ہو گا تاکہ ایک دن جب آپ ایک عالمِ دین، حافظ قرآن، استاد، ڈاکٹر، جج ، وکیل ، صحافی ، یا کسی بھی پیشے کی حیثیت میں عملی طور پر مصروفِ عمل ہوں تو معاشرے میں موجود نسلی، لسانی اور طبقاتی اونچ نیچ سے بالا تر ہو کر معاشرے کی ان ناانصافیوں کو دور کرنے کا باعث بنے رہنا چاہئے۔ جس معاشرے میں انصاف ہوتا ہے، وہی معاشرہ ترقی کرتا ہے اور پھر اجتمای طور پر وہ پوری قوم ہی ترقی کی راہ پر گامزن ہوجاتی ہے۔
نوجوانوں کو اپنی زندگی میں نظم و ضبط اور اپنے کام میں حسن اورترتیب بھی ضرور پیدا کرنی ہوگی۔ کتنی ہی محنت سے کوئی کام کریں لیکن اگر اس میں بے ترتیبی ہوگی تو نتیجہ وہ نہیں حاصل ہوگا جو اتنی محنت کے بعد حاصل ہونا چاہیے۔ اگر اپنے اردگرد نظر ڈالیں تو محنت کرتا ہوا تو تقریباً ہر شخص نظر آتا ہے۔لیکن اس محنت کا کوئی قبل ذکر نتیجہ دکھائی نہیں دیتا ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اس محنت اور توانائی زیادہ بڑا حصّہ بے ترتیبی اور ناقص منصوبہ بندی کی نظر ہو جاتا ہے اور آخر میں جو چیز سامنے آتی ہے وہ حسن اور کمال سے عاری جس کو بس ایسے ہی قبول کرنا پڑتا ہے۔
نوجوانوں کو اپنی ذات میں ایک اچھا نمونہ ڈھالنے کی کوشش کرنی ہو گی۔ گھر کے اندر بھی اور گھر کے باہر بھی نوجوانوں کے اخلاق ایسے ہوں کہ لوگ ان سے خوش ہوں اور انکی صحبت میں رہنا پسند کریں۔ قوم کی تعمیر اور نوجوانوں کے اخلاق میں کیا نسبت ہے اس کو اس طرح سمجھئے کہ ایک گھر میں رہنے والے افراد ہی سے تو معاشرہ بنتا ہے اور معاشرے کے افراد مل کرہی ایک قوم تشکیل دیتے ہیں۔ آج گھروں کے اندر رشتوں میں دراڑیں اور نااتفاقیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ جب اس ماحول سے نکل کر ایک فرد، باہر کے افراد سے معاملہ کرتا ہے تو مزاج کی وہ برہمی ان معاملات پر بھی اثر انداز ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ دوکاندار، گاہک سے الجھ رہا ہوتا ہے۔ ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی کی شکل سے بیزار نظرآرہا ہوتا ہے اور دفتر میں ایک شخص دوسرے کو اپنا دشمن سمجھ رہا ہوتا ہے۔ جب اس بیزار اور الجھی کیفیت میں ذاتی اور ملکی مسائل حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اسکا بھی کوئی کارآمد نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔ لہٰذا اس ماحول کو بدلنے کی کوشش کرنی ہے۔ ایک بیٹا یا بیٹی، بہن یا بھائی کی حیثیت سے اپنے گھر میں، طالب علم اور دوست کی حیثیت سے اپنے تعلیمی ادارے میں اور اپنے محلے کے افراد کے ساتھ معاملات میں نوجوان، لوگوں کیلئے سکون اور خوشی کا باعث ہو۔ نوجوان تلخیوں اور غلط فہمیوں کو دور کرنے والے ہوں نہ کہ انکو بڑھاوا دینے والے۔نوجوان اگر اپنی ذات سے اس چیز کی ابتدا کردیں توکچھ وقت تو ضرور لگے گا، مگر یہ بے سکونی اور جھنجھلاہٹ کی فضا ضرور بدلے گی ۔ (ان شاء اللہ)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ تمام نوجوانوں کو نیک توفیق عطا فرمائے۔ آمین