مولانا احمد رضا خان بریلویؒ کی نعتیہ شاعری

   

پروفیسر محمد فیروز شاہ ۔ مرسلہ : شیخ حذیفہ العمودی
نعت… درِ حبیب ﷺ پر پلکوں سے دستک دینے کا عمل ہے ! عشق رسول ﷺ کے پھول جن دلوں میں کھلتے ہیں ان کے لبوں پر سدا بہار حرفوں کا نکھار جاگ اُٹھتا ہے ۔ اور ان کے ذہنوں اور لفظوں میں جاوداں جذبوں کی مہک بکھرنے لگتی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں یہ سرکارِ کائنات ﷺ سے والہانہ وابستگیوں کی عطائیں ہیں کہ فرش نشینوں کو عرش کے مکینوں کا ہم پلہ بنادیتی ہیں۔ جب آقائے کائنات ﷺ کعبؓ بن زہیر کو اپنی ردائے مبارک عطا فرماتے ہیں یا جب منبرِ رسول ﷺ حسان بن ثابت کی نعتوں سے گونجتا ہے تو ایک زمانہ بلکہ ہرزمانہ ان کا فسانہ خواں ہوجاتا ہے کہ لاریب جو اُن ﷺ کے غلام ہوجاتے ہیں وہ زمانے کے امام ہوجاتے ہیں … جن کے در سے روشنی کی خیرات ملتی ہے اور جس دربار سے خوشبو کو نکھار ملتا ہے ، موسموں کو اِذنِ بہار عطا ہوتا ہے اور جس سرکار سے انسانیت کو شرف و وقار ملتا ہے ۔ اس کی توصیف و تعریف ہر کسی کے بس کی بات بھی نہیں … بے شک ؎
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے
یہ بڑے نصیب کی بات ہے
جن کے نصیب کو نعت گوئی کی سعادت نصیب ہوتی ہے ان کا نصیبہ کھل جاتا ہے … ہاں ! مگر یہ اِذنِ سرکار ﷺ کے بغیر ممکن نہیں کہ نعت لکھی جاتی ہی نہیں جب تلک آرزو بھی نہ ہو باوضو … عقیدہ جب عقیدت کے زم زم سے وضو کرتا ہے تو محبت کا قرینہ نعت کے خزینہ تک رسائی کا راستہ روشن کردیتا ہے اور نگاہیں سبز گنبد کی ابدالآباد روشنی سے شاد ہو اُٹھتی ہیں ۔ یہ رسائی عشق کی توانائی سے کمک لے کر جاوداں دانائی کی سرمدی بستیوں سے آشنائی کا راز آشکارا کردیتی ہے … یہی وہ مقامِ اولیٰ ہے جہاں دلوں میں دھڑکتے راز جاودانی کے اعزاز سے سرفراز ہوتے ہیں اور قلمِ صادق محبتوں کا علم بن جاتا ہے اور عشق کی روشنی میں گندھی روشنائی میں ڈوب کر اُبھرتا ہے تو سینۂ قرطاس پر نور و سرور کی کہکشاں آراستہ کردیتا ہے ۔ لفظ خوشبو دینے لگتے ہیں اور جذبے فجر کے سہانے اجر کی طرح اندھیرے آنگنوں میں تازہ کار کرنوں کی سوغاتیں بانٹنے لگتے ہیں، یہ عشق کے کرشمے ہیں جو فقط اہلِ دل کا مقدر بنتے ہیں ۔ درِ محبوب ﷺ پر پلکوں سے دستک دینے کی سعادت سے بڑھ کر اور بشارت کیا ہوتی ہے یہ اور بات کہ نویدِ سعید نصیب کس کو ہوتی ہے … یقیناً فقط اہلِ نصیب کو ۔ اور نصیب سچی نسبتوں سے بنا کرتا ہے۔ آقائے دوجہاں ﷺ کی غلامی سے منسوب ہوکر لفظ لمحے اور لوگ زمانے بلکہ زمانوں کے محبوب ہوگئے ۔ برسہا برس گزرگئے لیکن مولانا احمد رضا خانؒ بریلوی کی نعت گوئی کے چرچے ایک عالم کی زبان پر اب بھی ہیں اور عشقِ رسول ﷺ کی روایتوں کے صدقے ابد تک اس اعزاز سے اُن کا نام سرفراز رہے گا کہ حضرت حسانؓ کی پیروی کرنے والے ہر خوش بخت کو تاابد یہ پایۂ تخت مقدر ہوگا !
مولانا احمد رضا خانؒ بریلوی ثروتِ عشق سے مالا مال تھے اس لیے ان کی نعتوں میں صدائے حسانؓ کی عظیم الشان بازگشت ملتی ہے اور بلاشبہ یہ حضرت حسانؓ کے نقشِ قدم کو سرمۂ چشم اور روشنائیِ قلم بنالینے ہی کا ثمرِ شیرینی تھا کہ آپؒ نے بجاطورپر تحدیثِ نعمت کے لئے کہا :
ملکِ سخن کی شاہی تم کو رضاؔ مسلّم
جس سمت آگئے ہو ، سکّے بٹھادیے ہیں
اس حقیقت میں شک کی گنجائش ہی نہیں کہ ان کے ’’بٹھائے ہوئے سکے‘‘ اب تاقیامت سکّہ رائج الوقت رہیں گے۔ عشقِ رسول ﷺ آپؒ کی شاعری اور زندگی کا لازمہ تھا ۔ آپؒ نے عشق کی سرشاریوں سے زندگی کو تابندگی اور پائندگی سے ہم کنار کردیا۔ یہی آپؒ کی نعتیہ شاعری کا جوازِ امتیاز بھی ٹھہرا:
دل ہے وہ دل جو تری یاد سے معمور رہا
سر ہے وہ سر جو ترے قدموں پہ قربان گیا
عشق کے سرمست موسموں میں پائے محبوب پر سر رکھ کر زندگی قربان کرنے کالطف ہی کچھ اور ہے ۔ محبوب کی یاد سے آباد دل کوئے محبوب سے آتی صرصر کو بھی صبا سمجھتے ہیں اور اس کی پیزاروں سے جھڑنے والے ذرّۂ خاک کو برترِ افلاک جانتے ہیں … کہ مدحِ محبوب ان کی حیاتِ فانی کے لئے نسخۂ جاودانی ہے اور یہ سرمدی راز اعلیٰ حضرت کے نعتیہ اشعار میں اعزاز کی طرح سرفراز ہے ! شاعری رنگِ تغزل سے حسن و خوبی پاتی ہے ۔ رمز و ایمائیت اور خوب روئیِ الفاظ مصرعوں اور شعروں کو دلوں میں اُترنے کی راہ دکھاتے ہیں۔ یہ شعری کلید تخلیقی عمل کی دنیا میں کامرانی کی نوید عطا کرتی ہے … اعلیٰ حضرتؒ کا کمالِ فن یہ ہے کہ انھوں نے تقاضائے نعت ، ادب و احترام کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی رنگِ تغزل کو زندہ تر کیا ہے ؎
سرتابقدم ہے تنِ سلطانِ زمن پھول
لب پھول ، دہن پھول، ذقن پھول، بدن پھول
یاد میں جس کی نہیں ہوشِ تن و جاں ہم کو
پھر دکھادے وہ رُخِ مہرِ فروزاں ہم کو
سلاست و روانی تخلیقی جولانی کا اہم وصف ہے۔ کمالِ فن کی معتبر گواہی ہے ۔ علامہ سیماب اکبرآبادی نے اپنے ایک خطبے میں کہا تھا ’’شاعری جوئے رواں کی مثل ہے ۔ الفاظ کی خوبصورت بندش ایسی ہونی چاہئے کہ پڑھنے سننے والوں کو سلاستِ زباں اور حسنِ بیاں کی تاثیر اپنی گرفت میں لے لے‘‘۔ اگرچہ ایسی شاعری کم ہی نظر آتی ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ رواں زباں تاثیر و تاثر کے آسماں پر چاند کی طرح چمکتی ہے اور اس کی چاندنی دلوں کے آنگنوں میں اُتری چلی جاتی ہے اور پھر صنفِ نعت میں تو یہ خوبی سراسر عطا ہوا کرتی ہے ۔ عشقِ رسول ﷺ کی وابستگی جس قدر مضبوط و مربوط ہوگی اتنا ہی نعتیہ شاعری دلوں سے دلوں تک سفر کرتے جذبوں کو زبان دینے میں مہارت و سلاست کی سفیر ہوگی ۔

مولانا احمد رضا خانؒ بریلوی کی لکھی نعتیں میرے موقف کی واضح ترین دلیلیں ہیں
سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی
سب سے بالا و والا ہمارا نبی
خلق سے اولیاء، اولیا سے رُسل
اور رسولوں سے اعلیٰ ہمارا نبی
لُطف اُن کا عام ہو ہی جائے گا
شاد ہر ناکام ہو ہی جائے گا
میرے کریم سے گر ، قطرہ کسی نے مانگا
دریا بہادیے ہیں، دُر بے بہا دیے ہیں
سرکارِ دوجہاں کی روشن رعنائیوں سے مستنیر ہوکر انسانیت بقعۂ نور بن گئی ۔ خزاں کا تسلط ختم ہوا ، بہاروں کے قافلے اُترنے لگے ۔ روشنیوں اور رنگوں سے کائنات آباد ہونے لگی ۔ تمدن کے اطوار سرفرازِ حیات کے انوار سے سرشار ہوگئے ۔ نفرتیں محبتوں میں بدل گئیں۔ شرفِ آدمیّت عکس پذیر ہوا اور آسمان نے زمین کی قسمت پر رشک کرتے ہوئے اپنے آفتاب و ماہتاب کی تمام صباحتیں دھرتی پر اُتار دیں۔ آقائے کائنات ﷺ نے زندگی کو ابدیت اور سرمدیت کی تابندگی عطا فرمائی تو زمانہ بلکہ زمانے ان کے ترانے گانے لگے ۔مولانا احمد رضا خان بریلویؒ کی نعتیہ شاعری ہم عصر آگہی کے اسی نور و سرور سے مملو ہوکر چاردانگِ عالم میں خوشبو بانٹنے لگی۔ خوشبو میں بھی ایک روشنی ہوتی ہے اور روشنی کی اپنی ایک خوشبو ہوتی ہے۔ آج دنیا ایک معطر نور کے سرور میں مسرور اس نعتیہ شاعری سے مسحور ہورہی ہے یہ عشق رسول ﷺ کا فیضان ہے ۔ نادر تشبیہات و استعارات ، سہلِ ممتنع ، تلمیحات، محاکات اور منظرنگاری کی ایسی شاندار مثالیں ان کی شاعری میں جابجا بکھری ملتی ہیں جنھوں نے اسے شعری قیادت کے منصبِ عظمٰی پر فائز کردیا۔ صدقِ عشق ایسی ہی کامرانیاں عطا کیا کرتا ہے جن کی شادمانیاں دوام لمحوں کی جاودانیاں بن جایا کرتی ہیں
ہے لبِ عیسیٰؑ سے جاں بخشی نرالی ہاتھ میں
سنگ ریزے پاتے ہیں شیریں مقالی ہاتھ میں
یہ شمس و قمر ، یہ شام و سحر ، یہ برگ و شجر، یہ باغ و ثمر
یہ تیغ و سپر ، یہ تاج و کمر ، یہ حکم رواں تمھارے لیے
تیری مرضی پاگیا سورج پھرا اُلٹے قدم
تیری انگلی اُٹھ گئی مہ کا کلیجا چِر گیا
ترا قدِ مبارک گلبنِ رحمت کی ڈالی ہے
اسے بوکر ترے رب نے بِنا رحمت کی ڈالی ہے
پتلی پتلی گلِ قدس کی پتیاں
ان لبوں کی نزاکت پہ لاکھوں سلام
طیبہ میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند
سیدھی سڑک یہ شہر شفاعت نگر کی ہے
برقِ انگشتِ نبیؐ چمکی تھی اس پر اک بار
آج تک ہے سینۂ مہ میں نشانِ سوختہ
مجھ سا کوئی غم زدہ نہ ہوگا
تم سا نہیں غم گسار آقاﷺ!
کوچہ کوچہ میں مہکتی ہے یہاں بوے قمیص
یوسفستاں ہے ہر اک گوشۂ کنعانِ عرب
الٰہی منتظر ہوں وہ خرامِ ناز فرمائیں
بچھا رکھا ہے فرش آنکھوں نے کم خوابِ بصارت کا
ابرِ نیساں مومنوں کو، تیغِ عریاں کفر پر
جمع ہیں شانِ جمالی و جلالی ہاتھ میں
اور پھر … بے پناہ حسنِ معانی کی آماجگاہ یہ شعر دیکھیے کہ جس میں اعلیٰ حضرتؒ کے تخلیقی کمال اور عشق کے جمال کی خوبصورت آمیخت سے کیسے دل نواز افکار عکس پذیر ہوئے ہیں۔
حُسنِ یوسفؑ پہ کٹیں مصر میں انگشتِ زناں
سر کٹاتے ہیں ترے نام پہ مردانِ عرب
صنعت تضاد کا شاہکار اپنے اندر معنویت کا ایک بے کراں سمندر آباد کیے ہوئے ہے۔ ’’وہاں کٹنے کا عمل ہے جو لاشعوری اور بے اختیاری ہے اور یہاں سرکٹانے کا رویہ ہے جو ارادتاً اور تمام تر محبت کے وفور سے ظہور پاتا ہے۔ اُدھر فقط انگلیوں کے لہو لہو ہونے کاذکر ہے اِدھر سر کٹاکر زندگی بھر کے نذرانے پیش کرنے کی سعادت ہے … شہادت کی بشارت ہے ۔ اُس طرف حسن کو دیکھ کر حواس گم ہونے کی کیفیت تھی اس جانب فقط نام پر بھی جانیں لٹادینے کا مقام آیا ہے ۔ عظمتِ محبت کی کیسی بے مثال مثالیں ہیں کہ جو اس ایک ہی شعر میں بیان کردی گئی ہیں‘‘۔
رباعی کسی شاعر کا فنی تکملہ ہوا کرتی ہے ۔ مہارتِ فن کی اشارت رباعی کی عبارت میں بین السطور چمکتی ہے تو شاعر تخلیقِ فن کے لمحوں سے سرخ رو ہو اُٹھتا ہے ۔ اعلیٰ حضرتؒ کی رباعیاں نعتِ محبوب ﷺ کے کیف سے تخلیقی توانائیاں پاتی ہیں
اﷲ کی سر تا بقدم شان ہیں یہ
ان سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ
قرآن تو ایمان بتاتا ہے انھیں
ایمان یہ کہتا ہے مری جان ہیں یہ
حضرت سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ آپﷺ کے رخسار نہایت ہی چمک دار تھے ، حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کے رخسار سفید تھے ، سیّدنا علیؓ اور ہند بن ابی ہالہؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ کے رخساروں میں اُبھار نہیں تھا۔ مختلف اقوالِ صحابہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کے رخسار مبارک نہایت خوب صورت ، سفید سرخی مائل ، نرم اور دل کش تھے اور ان میں اُبھار بھی نہ تھا جو خوبصورتی میں مانع ہو ، اب اعلیٰ حضرت کے اشعار ملاحظہ ہوں کس قدر مبنی برحقیقت ہیں:
چاند سے منھ پہ تاباں درخشاں درود
نمک آگیں صباحت پہ لاکھوں سلام
جن کے آگے چراغِ قمر جھلملائے
ان عذاروں کی طلعت پہ لاکھوں سلام
درج بالا سراپا کے اشعار سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ امام احمد رضا علیہ الرحمتہ نے سراپا نگاری میں کس قدر احتیاط برتی ہے اور کس درجہ حقیقت کو پیشِ نظر رکھا ہے اور سراپا نگاری کا انداز بھی کیسا منفرد اپنایا ہے ۔