پروفیسر سلیمان اطہر جاوید

   

صابر علی سیوانی
پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کا حیدرآباد کے نامور ادیبوں اور مشہور ناقدوں میں شمار ہوتا ہے۔ انہوں نے ایک طویل وقت تک ادب کی خدمت انجام دی۔ زود نویس ادیبوں میں ان کا نام سرفہرست آتا ہے۔ ان کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ کم وقت میں کوئی بھی ادبی مضمون لکھ لیا کرتے تھے۔ اپنے نام سے پہلے وہ کبھی بھی پروفیسر نہیں لکھا کرتے تھے۔ ایک بار کا ذکر ہے کہ میں کسی کتاب کی تلاش میں ادارۂ ادبیات اُردو پنجہ گٹہ گیا تھا، وہاں ان سے ادارہ کے دفتر میں ملاقات ہوئی۔ وہ ماہنامہ ’’سب رس‘‘ کے مضامین کی تصحیح کررہے تھے۔ گفتگو کے دوران انہوں نے مجھ سے کہا کہ صابر صاحب آپ اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر کیوں نہیں لکھتے؟ میں نے بھی ان سے یہی سوال کیا کہ آپ بھی تو اپنے نام کے پہلے پروفیسر نہیں لکھتے۔ اس بات پر وہ کہنے لگے کہ اگر پروفیسر نہیں لکھتا ہوں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ مجھے اپنے نام کے ساتھ پروفیسر لکھنے کا شوق نہیں ہے۔ یہ تھی ان کی سادگی اور نام و نمود اور شہرت سے بے پروائی۔ انہیں اس بات کا زعم نہیں تھا کہ میں پروفیسر ہوں جیسا کہ اُردو کے بعض پروفیسرس کے ہاں پایا جاتا ہے۔ وہ ایک منکسرالمزاج اور شریف النفس انسان تھے۔ ان کی رہائش گاہ، سات گنبدوں والی سڑک (ارونا کالونی) پر واقع تھی جو ٹولی چوکی چوراستہ سے بالکل قریب ہے۔ وہاں سے وہ اکثر و بیشتر بس کے ذریعہ ادارۂ سیاست، عابڈس تک اپنے مضمون کی اشاعت کے لئے جایا کرتے تھے۔ ممکن ہے کہ وہ آٹو یا ٹیکسی کے ذریعہ وہاں (سیاست) یا کسی بھی ادبی جلسے میں جانا تضیع زر گردانتے ہوں۔ بہرحال وہ بسوں سے ہی کسی بھی انجمن، ادارہ، یا جلسہ گاہ میں بروقت پہنچ جایا کرتے تھے۔ واپسی میں کوئی نہ کوئی ٹولی چوکی کی طرف آنے والا شخص اپنی موٹر یا بائیک پر سوار کرلیتا تھا اور اس طرح وہ اپنے گھر تک پہنچ جایا کرتے تھے۔

پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کی پیدائش حیدرآباد میں 19 اپریل 1936ء کو ہوئی ان کے والد محمد حسین خاں محکمہ بلدیہ میں ملازم تھے۔ والدہ رحیم النساء بیگم ایک گھریلو خاتون تھیں۔ چہرے کے نقوش خوبصورت تھے اور رنگ بالکل گورا تھا جس کے باعث انہیں لوگ ’’گوری ماں‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ سلیمان اطہر جاوید کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی ۔ ان کے والد نے انہیں فارسی کی ابتدائی تعلیم دی ۔ بعدازاں ان کا داخلہ گورنمنٹ ہائی اسکول مستعد پورہ میں ہوا۔ پرائمری تعلیم کے حصول کے بعد وہ چادر گھاٹ ہائی اسکول میں داخل ہوئے۔ 1952ء میں میٹرک کا امتحان کامیاب کرنے کے بعد چادر گھاٹ کالج میں انٹرمیڈیٹ میں ان کا داخلہ ہوا۔ خوش قسمتی سے اس وقت اس کالج کے پرنسپل مشہورناقد، محقق اور ماہر لسانیات ڈاکٹر محی الدین قادری زور تھے۔حمیدالدین شاہد اور حامد صدیقی جیسے نامور اساتذہ بھی اس کالج کا حصہ تھے۔ سلیمان اطہر نے 1955 ء میں انٹرمیڈیٹ میں کامیابی حاصل کی اور پھر اسی سال آرٹس کالج عثمانیہ یونیورسٹی میں بی اے میں داخلہ لیا اور 1959ء میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس یونیورسٹی سے 1962ء میں ایم اے اُردو کی سند حاصل کی اور پی ایچ ڈی میں داخلہ پایا۔ ان کے تحقیقی مقالے کا موضوع ’’رشید احمد صدیقی : شخصیت اور فن‘‘ قرار پایا۔ پروفیسر مسعود حسین خاں عثمانیہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے استاد تھے اور خوش قسمتی سے انہیں کی نگرانی میں سلیمان اطہر جاوید نے پی ایچ ڈی کا مقالہ مکمل کیا۔ 1968ء میں عثمانیہ یونیورسٹی نے انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی۔
سلیمان اطہر جاوید کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ابھی زیرتکمیل ہی تھا کہ انہیں 1966 ء میں سری وینکٹیشور یونیورسٹی تروپتی میں لیکچرر کی ملازمت مل گئی۔ وہ یہیں کم و بیش 30 برس تک ملازمت کے بعد 1996ء میں پروفیسر کی حیثیت سے وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد بھی وہ نہایت فعال رہے چنانچہ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے دو سال تک خدمات انجام دیئے۔ مولانا آزاد یونیورسٹی حیدرآباد میں تعلیمی مشیر کی حیثیت سے کام کیا اور 2001ء سے 2002ء تک عثمانیہ یونیورسٹی گیسٹ فیکلٹی کے طور پر طلباء و طالبات کی علمی تشنگی بجھانے کا کام کیا۔ اس دوران مختلف رسائل و جرائد اور اخبارات میں بھی مضامین لکھتے رہے۔ پروفیسر سلیمان اطہر کی پہلی تصنیف اسلوب و انتقاد 1969ء میں حیدرآباد سے شائع ہوئی۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد ان کے تنقیدی جوہر منظر عام پر آئے۔ یہ کتاب ان کے مختلف تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔ ساہتیہ اکادمی نئی دہلی نے رشید احمد صدیقی کی شخصیت پر مشتمل ایک مونوگراف شائع کیا جسے سلیمان صاحب نے تحریر کیا تھا۔ یہ مونوگراف 88 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کی اشاعت 1988ء میں عمل میں آئی۔ رشید احمد صدیقی کے اسلوب کے متعلق جاوید صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں۔ رشید احمد صدیقی کے مزاج کا بڑا انحصار بذلہ سنجی پر ہے۔ وہ دراصل الفاظ کے استعمال اور اپنے اسلوب سے ظرافت پیدا کرتے ہیں۔ وہ فقروں اور جملوں میں سوچنے کے عادی ہیں۔ اردو اور فارسی کے رچے ہوئے ذوق کی وجہ سے ان کے طنز و مزاج میں ایک قسم کی گہرائی اور ادبی صدائے بازگشت کا مسلسل احساس ہوتا ہے جو پطرس اور فرحت اللہ بیگ دونوں کے ہاں مفقود ہے۔ اس مونوگراف رشید احمد صدیقی صفحہ 37 سلیمان صاحب کا شعری مجموعہ ’’آنگن آنگن تو دکھ کے پیڑ‘‘ اُردو اکیڈیمی آندھرا پردیش حیدرآباد کے جزوی مالی تعاون سے 1996ء میں شائع ہوا۔ شاعری میں وہ جاوید تخلص کرتے تھے۔ ان کا ایک بہت اچھا شعر ہے:
یہ کم نہیں کہ زمانے کو روشنی دی ہے
تمام عمر میاں ہم جلے دِیوںکی طرح
ایک شاعر کی حیثیت سے بھی سلیمان صاحب نے کامیاب کوشش کی۔ سیدھے سادھے انسان تھے اور یہی سادگی اور سلاست ان کی شاعری کا حصہ بنی۔ انہوں نے زندگی سے حاصل شدہ تجربات کو اپنی شاعری میں پیش کیا اور نہایت آسان لفظوں اور عام فہم زبان میں اپنے اشعار موزوں کئے۔ ان کے یہ دو شعر ملاحظہ کیجئے جو میرے دعوے کی دلیل بن سکتے ہیں۔
کوئی ملے یہ غنیمت ہے سوتی راہوں میں
اب ایسے وقت کوئی غیر کیا شناسا کیا
ایک دنیا دیکھ آئے، کیا کریں پھر بھی جناب!
اپنے گھر کے پاس کی ہے جو گلی اچھی لگی
حیدرآباد سے شائع ہونے والے کثیر الاشاعت اور موقر اخبار روزنامہ سیاست میں اکثر و بیشتر ان کی ادبی تحریریں پڑھنے کو ملتی تھیں۔ جب وہ 1996ء میں ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد مستقل طور پر حیدرآباد منتقل ہوئے تو انہوں نے ایک بار پھر ادبی کالم نگاری کا آغاز کیا۔ جناب زاہد علی خاں کی خواہش پر سلیمان صاحب نے روزنامہ سیاست کے ادبی و ثقافتی صفحہ کیلئے ادبی کالم لکھنے کا آغاز کیا۔ چونکہ اس وقت سیاست کا ادبی صفحہ ہفتہ کو شائع ہوتا تھا، اس لئے ان کا ادبی کالم ’’ادبی ڈائری‘‘ کے عنوان سے مارچ 2001ء سے سیاست کی زینت بننے لگا۔ اس کالم میں وہ حیدرآباد و بیرون حیدرآباد کی ادبی سرگرمیوں، سمیناروں ، شاعروں، ادبی محفلیں، جامعات میں ہونے والے ادبی جلسوں کی روئیداد لکھا کرتے تھے۔ علاوہ ازیں کتابوں پر تبصرے، کتابوں کی رسم اجراء کی رپورٹ وغیرہ پر مشتمل ان کی ’’ادبی ڈائری‘‘ ادبی حلقوں میں کافی مقبول ہوئی۔ عمر کے آخری حصے تک (مرض الموت) ان کا یہ سلسلہ سیاست میں جاری رہا۔ ایک ہفتہ میں ایک ادبی مضمون چاہے وہ تبصرہ ٔ کتاب ہی کیوں نہ ہو، نہایت پابندی سے لکھنا اوروقت پر بہ نفس نفیس سیاست کے دفتر تک پہنچانا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن وہ مستعدی سے یہ کام کم و بیش 13 برسوں تک انجام دیتے رہے۔ ادب کی انہوں نے بہت اہم خدمات انجام دیں۔ اگست 2018ء اللہ کو پیارے ہوگئے ۔
mdsabirali70@gmail.com