کتاب : لہو بولتا بھی ہے جنگ ِآزادی ہند کے مسلم کردار

   

تبصرہ
ہندوستان کی آزادی میں سب سے زیادہ اہم کردار مسلمانوں نے ادا کیا اور اس کیلئے انہیں اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کرنا پڑا۔ انگریزوں کے ظلم و ستم کا سب سے زیادہ نشانہ بھی مسلمان ہی بنے۔ خاص طور پر علماء کرام کو انگریز سامراج نے چن چن کا نشانہ بنایا کیونکہ انگریزوں کو مسلمانوں کے جذبہ جہاد سے بہت زیادہ خوف تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ مسلم مجاہدین آزادی کو سب سے زیادہ ظلم و جبر کا نشانہ بناتے تھے۔ ہندوستان کی تاریخ میں کئی ایسے مناظر بھی دیکھے گئے جہاں سڑکوں کے کنارے درختوں پر علمائے کرام کی نعشیں لٹکتی دکھائی دیں۔ کالا پانی کی سزا ہو یا پھر آزاد ہند فوج میں اہم رول ادا کرنے کا معاملہ مسلمان پیش پیش رہے۔ آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کے ساتھ انگریزوں نے جو بدترین سلوک کیا گیا۔ مغل شہزادوں کو موت کے گھات اتارا گیا ، مولوی محمد باقر کو توپ کے منہ پر رکھ کر اُڑا دیا گیا۔ ٹیپو سلطان کو غداروں کے ذریعہ جس طرح شہید کیا گیا، گاندھی جی کی زندگی بچانے والے بطخ میاں کی ہڈیاں توڑ دی گئیں، وہ تاریخ میں محفوظ ہے، لیکن فرقہ پرست طاقتیں جو آج اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھی ہوئی ہیں، ان مسلم مجاہدین آزادی کو یکسر نظرانداز کردیا ہے۔ تاریخ کو سرکاری سرپرستی میں مسخ کیا جارہا ہے۔ مسلم مجاہدین آزادی کے نام و نشان کو مٹانے کی سازشوں پر بڑی تیزی سے عمل ہورہا ہے۔ مسلم مجاہدین کی قربانیوں کو فراموش کیا جارہا ہے۔ ان حالات میں محب وطن ہندوستانیوں کا یہ فریضہ بنتا ہے کہ وہ ان طاقتوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں اور ہماری نئی نسل کو مسلم مجاہدین آزادی کی شہادتوں ، ان کی قربانیوںاور مادر ہند کیلئے انجام دیئے گئے کارناموں سے واقف کروائیں کیونکہ جو قوم اپنی تاریخ کو محفوظ نہیں کرپاتی، وہ حال اور مستقبل کو بھی بچانے سے قاصر رہتی ہے۔ نئی نسل کو جنگ آزادی میں مسلمانوں کے کردار سے واقف کروانے کی سید شاہ نواز احمد قادری ، کرشن کلکی نے مخلصانہ کوشش کی ہے ۔ ان ہی کی کوششوں کے نتیجہ میں ’’لہو بولتا بھی ہے …‘‘ جیسی کتاب منظر عام پر آئی ہے۔ اس کتاب میں 43 خاتون مسلم مجاہدین آزادی اور 1725ء مرد مسلم مجاہدین آزادی کے کارناموں پر پراثر انداز میں روشنی ڈالی گئی ۔ آمنہ طیب جی ، بیگم کلثوم سیانی ، نشاط النساء بیگم (بیگم حسرت موہانی) ، عبادی بانو بیگم (بی اماں) ، ریحانہ طیب جی اور ارونا آصف علی جیسی خاتون مجاہدین شامل ہیں۔
سید شاہ نواز احمد قادری نے اس کتاب کے ذریعہ اُن لوگوں کو ایک پیام دیا ہے جو جدوجہد آزادی میں مسلمانوں کے کردار سے متعلق تعصب برتتے ہیں۔ 628 صفحات پر مشتمل اس کتاب کا سرورق اس قدر جاذب نظر ہے کہ اس پر جو تصویر نمایاں کی گئیں وہ کتاب میں موجود متن کے بارے میں واضح پیام دیتی ہے۔ مصنف نے اپنی کتاب میں جدوجہد آزادی کے دوران پھانسی کی سزا پانے والے، کالا پانی کی سزا برداشت کرنے والے اور آندولن میں شہید مسلم مجاہدین آزادی سے نئی نسل کو واقف کروایا۔ کتاب ’’لہو بولتا بھی ہے‘‘ ، کی خاص بات ییہ ہے کہ اس کا مقدمہ جسٹس راجندر سچر نے تحریر کیا ہے جبکہ مولانا عبید اللہ خاں اعظمی نے پیش لفظ کے ذریعہ اس کی اہمیت میں اضافہ کیا ہے۔ راجندر سچر کے مطابق یہ کتاب تاریخ میں میل کا پتھر ثابت ہوگی۔ اسی طرح مولانا عبداللہ خاں اعظمی کے خیال میں شاہ نواز احمد قادری کرشن کلکی کی یہ کتاب تاریخ کے خزانہ کتب میں ایک بیش قیمتی اضافہ ہے۔ زیرتبصرہ کتاب اس لئے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ کیونکہ نئی نسل کو 1725 مسلم مجاہدین کے بارے میں جاننے کا موقع ملے گا اور انہیں اندازہ ہوگا کہ آزادی یوں ہی نہیں ملتی بلکہ اس کیلئے جانوں کا نذرانہ پیش کرنا ضروری ہوتا ہے۔ بہرحال مصنفین قابل مبارکباد ہیں کہ ان لوگوں نے وقت کی اہم ضرورت کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ عملی طور پر قدم آگے بڑھاتے ہوئے نوجوان نسل کو بہترین و معلوماتی کتاب کا تحفہ بھی دیا۔ آپ کو بتادیں کہ کتاب کے ناشر لوک بندھو نرائن کے لوک ٹرسٹ ہے۔ کفایت اللہ خاں ندوی، پرویز عالم بھٹو اور فروخ حسن کی شاندار کمپوزنگ ؍ مرتب کی بھی ستائش کی جانی چاہئے۔ کتاب کی قیمت 500 روپئے ہے۔ دہلی، ممبئی ، لکھنؤ، واراناسی، حیدرآباد کے مشہور و معروف بک ڈپوس اور ڈسٹری بیوٹرس کے یہاں یہ کتاب دستیاب ہے۔ حیدرآباد میں ہدیٰ ڈسٹری بیوٹرس، پرانی حویلی سے بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔