کے سی آر ۔ نگاہِ شوق کی تسکین سے گریز!

   

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی نظروں کے اس فریب پر ہزاروں سچائیاں نثار ۔ انہوں نے اپنی تشہیر سے گریز کرتے ہوئے حکام کو سخت ہدایت دی کہ وہ سرکاری تشہیر کے لیے ان کی تصاویر کا استعمال نہ کریں ۔ آر ٹی سی کارگو سرویس میں ان کی تصاویر والے اشتہارات آویزاں نہ کئے جائیں ۔ انہوں نے اپنی حکومت میں خواہشات کی شمعیں روشن روشن بہ فروزاں کیے ہوئے ہیں ۔ انہیں معلوم ہے کہ تلنگانہ کے حصول کے لیے وہ سمجھتے ہیں کہ گذراہوں زندگی کے نشیب و فراز سے تو پھر وہ اپنی تشہیر کیوں کر نہیں چاہیں گے ۔ وہ ایک نگاہِ شوق کی تسکین چاہتے ہیں لیکن مصلحتاً گریز کررہے ہیں ۔ چیف منسٹر کو اس بات پر غصہ آیا کہ بعض اخبارات میں یہ رپورٹ شائع ہوئی کہ ٹی ایس آر ٹی سی نے کارگو سرویس میں ان کی تصاویر کو ڈسپلے کرنے کا منصوبہ بنایا ہے ۔ اس رپورٹ پر فوری حرکت میں آتے ہوئے انہوں نے واضح کردیا کہ وہ اپنی تشہیر کے آرزو مند نہیں ہیں ۔ سرکاری اسکیمات اور پروگراموں کو روبہ عمل لاتے ہوئے سستی شہرت حاصل کرنا نہیں چاہتے ۔ بلا شبہ کے چندر شیکھر راؤ اب اس مقام پر پہونچ چکے ہیں کہ انہیں سستی شہرت کی ضرورت نہیں ہے ۔ ان کے جھوٹے وعدے کی لذت مت پوچھئیے وہ ان وعدوں کو دہرا کر خوب تشہیر پا چکے ہیں ۔ چیف منسٹر کے سخت تیور دیکھ کر ان کے اسپیشل سکریٹری پی راج شیکھر ریڈی نے ٹی ایس آر ٹی سی منیجنگ ڈائرکٹر کو نوٹ لکھا ہے اور کہا ہے کہ آر ٹی سی کارگو بسوں پر چیف منسٹر کی تصاویر ڈسپلے نہ کریں ۔ کے سی آر کو بھلے ہی اپنی تشہیر کی اب ضرورت نہ رہی ہو لیکن وہ تو اپنی کارکردگی اور دوہرے معیار کے باعث عوام کے قریب ہر دم مقبول لیڈر سمجھے جاتے ہیں ۔ ملک بھر میں جہاں سارے سیکولر ہندوستانی شہریت ترمیمی قانون ( سی اے اے ) ، نیشنل رجسٹرڈ سٹیزن (این آر سی ) اور نیشنل پاپولیشن رجسٹر ( این پی آر ) کے خلاف احتجاج کررہے ہیں ۔ ہندوستان کے کونے کونے میں بلکہ بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں میں عوام کو اپنا احتجاج درج کرانے کی اجازت دی جارہی ہے لیکن تلنگانہ میں سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر پولیس کی طاقت کا استعمال کیا جارہا ہے ۔ عوام کو تعجب ہورہا ہے کہ ایک طرف کے سی آر نے سی اے اے کے خلاف اسمبلی میں قرار داد منظور کرنے کا اعلان کیا ہے تو دوسری طرف شہریوں کو اس قانون کے خلاف احتجاج کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے ۔ ریاستی حکومت اور پولیس کی کارروائیوں سے عوام ناخوش ہیں ۔ تلنگانہ میں خاص کر دارالحکومت حیدرآباد میں پرامن احتجاج کو دبایا جارہا ہے ۔ رات کے وقت شہریوں کی جانب سے فلاش پروٹسٹ ہورہے ہیں کیوں کہ پولیس شہریوں کو ایک جگہ جمع ہو کر احتجاج کرنے کی اجازت ہی نہیں دے رہی ہے ۔ اس لیے لوگ جگہ جگہ فلاش پروٹسٹ کے ذریعہ ہی شہریت قانون کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے غم و غصہ کا اظہار کررہے ہیں ۔ ان احتجاجیوں کے خلاف بھی پولیس کیس درج کررہی ہے ۔ اس سے شہریوں کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ آخر کے سی آر کے بیانات اور ان کی حکومت کی مخالف سی اے اے احتجاجیوں کے خلاف کیس درج کرانے میں تضاد کیوں ہے ۔ چیف منسٹر کے رویہ میں وحشت کا اندازہ تو ہوچکا ہے ، زمانے کو ، لیکن اس حقیقت کے باوجود ان کے چہرے پر ایک شکن تک نہیں آئی ہے ۔ عوامی احتجاج کو روکنے کے پیچھے ہوسکتا ہے کہ ٹی آر ایس کی منہ بولی دوست پارٹی کا بھی ہاتھ ہوکیوں کہ یہ قیادت نہیں چاہتی ہے کہ اس کے علاقہ میں لوگ اپنے طور پر لیڈر بن کر ابھریں اور احتجاجی مظاہروں کے ذریعہ عوام کے دلوں میں جگہ بنالیں ۔ شہریت قانون کے خلاف عوام جس طرح اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتجاجی نعروں کے ساتھ بیانات دے رہے ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ حیدرآباد کے مسلمانوں کا سیاسی شعور بہت پختہ ہورہا ہے ۔ اس پختگی کو دیکھ کر ان کی قیادت بوکھلاہٹ میں آگئی ہے کہ اگر سی اے اے کے خلاف احتجاج کی یوں ہی کھلی چھوٹ دی گئی تو پھر ان کا وزن گھٹ جائے گا اور وہ اپنے مرکزی حکومت کے آقاوں سے سودے بازی کرنے میں ناکام ہوجائیں گے ۔ پرانے شہر کے عوام کے اندر سی اے اے کے خلاف جو شاخیں بھڑک اٹھی ہیں وہ پھول شعلے بنتے جارہے ہیں ۔ اس حقیقت کے باوجود بعض طاقتیں ان معصوم عوام کے جذبات کو کچلنے میں کامیاب ہورہے ہیں ۔ پرانے شہر کے عوام اپنے لیڈر کی عزت اس قدر کرتے ہیں کہ احتجاج کرنے کے درمیان شعور بیکسی کا بھی مظاہرہ کرتے آرہے ہیں ۔ اگر انہوں نے اپنے لیڈر کی مرضی کے خلاف احتجاج شروع کیا تو لیڈر کی شانِ تغافل کی حقیقت کھل جائے گی ۔ شہر میں پولیس نے بھیم آرمی کے صدر چندر شیکھر آزاد کو بھی جلسہ کرنے نہیں دیا ۔ اس سے قبل کنہیا کمار کو بھی جلسہ کی اجازت نہیں دی گئی ۔ یہ اس لیے کیا گیا کیوں کہ مذکورہ دونوں قائدین شہر حیدرآباد کے عوام کے ہیرو بن کر طاقتور ہوجائیں تو مقامی لیڈروں کی سیاسی عاشقی کو خطرہ ہوگا ۔ عوام کو اپنے سامنے تبدیل ہوتے حالات سے بے خبر نہیں رہنا چاہئے ۔ اگر وہ اسی طرح اپنے جذبہ احتجاج کو محض ایک گوشے کے دباؤ میں آکر دبادیں گے تو پھر وہ کبھی حق کے لیے آواز نہیں اٹھا سکیں گے ۔ تم نہ مانو مگر یہ حقیقت ہے اپنے لیڈر کی محبت میں مرمٹنے والے سیاسی عشق کے گناہ میں عوام کا خسارہ کررہے ہیں ۔ یہ لوگ ایسے ہیں جو ہر دور میں عوام کے جوش کوٹھنڈا کرنے کا کام کرتے آرہے ہیں تاکہ اپنا سیاسی اُلو سیدھا ہوتے رہے ۔ یہ کس قدر دوہرا معیار ہے کہ ایک طرف پولیس مخالف سی اے اے احتجاج کو روک رہی ہے دوسری طرف موافق سی اے اے جلسوں کی اجازت دے رہی ہے ۔ ان جلسوں میں برسر عام اشتعال انگیز تقاریر کی جارہی ہیں ۔ بی جے پی سے وابستہ کئی قائدین اور تنظیموں نے نفرت انگیز ماحول کو بڑھاوا دینا شروع کیا ہے لیکن پولیس اس کا نوٹ نہیں لیتی ۔ حال ہی میں قلی قطب شاہ اسٹیڈیم میں سی اے اے کی حمایت میں جلسہ کرنے والوں نے پرانے شہر کے قلب میں پہونچکر سیکولر عوام کو للکارا ہے ۔ جامعہ کی خبر کھودیں گے ، بھارت ماں کی چھاتی پر ٹھوک کر دیں گے آزادی ، چیر ڈالیں گے پھاڑ ڈالیں گے ، اس کے بعد دیں گے آزادی ۔ کے نعرے لگانے والوں کو پولیس نے نظر انداز کردیا ۔ اس کھلی دشمنی کے سامنے سیکولر عوام پرامن طریقہ سے احتجاج کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ڈرا دھمکا کر چپ کردیا جارہا ہے ۔ یہ بڑی بد قسمتی کی بات ہے کہ عوام ڈر کر چپ بھی ہوجارہے ہیں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ جمہوری ملک ہے اگر عوام ایک جمہوری ملک میں ہیں تو ان کی جمہوری حکومت ہوتی ہے ۔ عوام کے ہر سوال کا جواب دینا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ عوام کے ہر مطالبہ پر غور کرنا حکومت کا فرض ہوتا ہے ۔ جمہوری عوام کے ووٹوں سے اقتدار پر آنے والی حکومت کو عوام کے سامنے جوابدہ بھی ہونا ہوتا ہے لیکن یہ حکومت صرف ایک فرقہ پرست ٹولے کی نمائندگی کررہی ہے ماباقی تمام سیکولر ہندوستانیوں کو اکھاڑ پھینک رہی ہے ۔ اس حقیقت کے باوجود عوام اپنے جمہوری حق کے حصول صرف پرامن احتجاج کو ترجیح دے رہے ہیں ۔ اس پر اس احتجاج کو بھی حیدرآباد کی پولیس جب اجازت نہ دے تو بنیادی انسانی اور دستوری حق کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔ اس خلاف ورزی کو برداشت کرتے ہوئے عوام چپ بیٹھ رہے ہیں تو پھر انہیں کل سی اے اے کو بھی چپ چاپ قبول کرنا پڑے گا ۔ پھر اس کے بعد تمہیں اُف کرنے کی اجازت تک نہیں ہوگی ۔۔
kbaig92@gmail.com