یوپی انتخابات۔ سیاسی پارہ عروج پر آنے کے بعد بھی مسلمان اپنے ہونٹ بند رکھے ہوئے ہیں۔

,

   

شیعہ ڈگری کالج میں ایک فیکلٹی ممبرنے کہاکہ مسلمانوں کے اندر یوگی دور میں دوسرے درجہ کے شہری ہونے کے احساس پیدا کیاگیاہے۔


لکھنو۔ اس مرتبہ ان کی خاموشی‘نہ صرف سماعت کو متاثربلکہ پریشان کن ہے۔ اترپردیش میں مسلمان رائے دہندے سختی کے ساتھ ہونٹ بند رکھے ہوئے ہیں یہاں تک کہ ریاست میں ووٹ بینک کی سیاست عروج پر ہے۔

سڑک پر کسی بھی مسلمان سے سیاسی امکانات کے متعلق بات کرنے پر نہ تو کوئی جواب مل رہا ہے بلکہ وہ مبہم دیکھائی دے رہے ہیں۔

مذہبی خطوط پر پولرائزیشن کے خوف سے زیادہ تر سیاسی پارٹیاں مسلم عنصر کے متعلق بات نہیں کررہی ہیں‘ اور مسلم خود بھی کم اہمیت کی برقراری کو ترجیح دے رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کوئی بھی ’تضحیک‘ مسئلہ درحقیقت ان کے مفادات کے لئے نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے۔

جب 2017میں یوگی ادتیہ ناتھ ن اترپردیش میں اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی تو انہوں نے اس احساس کو ختم کردیاکہ مسلمان حکومت بناسکتے ہیں یاپھر کسی حکومت کو بگاڑ سکتے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کو ایک کونے میں کرنے کے لئے وسیع تر ہندو تحریک کا انتخاب کیا ہے۔


گائے ذبیحہ پر امتناع
انہوں نے ایسی پالیسیوں کو متعارف کروایا جن کا تعلق مسلمانوں سے نہیں بشمول گاؤں ذبیحہ پر امتناع‘ کے علاوہ ’اذان‘ کے لئے لاؤ اسپیکرس کے استعمال پر تحدیدات ان میں سے کچھ ایک ہیں۔

تین طلاق پر امتناع ان کے مردوں کے لئے ناراضگی کا سبب بنا جو یہ سمجھتے ہیں کہ شرعی قوانین میں یہ مداخلت ہے۔ مذکورہ خواتین حالانکہ خوش ہیں‘ احساس میں ہیں کہ اس قانون سے ان کے مقاصد پورا نہیں ہوتے ہیں۔

ایک نوجوان گریجویٹ شاہین نے کہاکہ ”ہم کیسے اس مسلئے کو مردوں بغیر مالی آزادی کے چھوڑسکتے ہیں۔

اگر ہمارا اور ہمارے بچوں کا انحصارمذکورہ فیملی پر ہے‘ہم ان کے خلاف نہیں جاسکتے ہیں“۔گوشت کی منتقلی جیسے معاملات میں مسلمانوں پر بڑھتے حملے‘ مخالف سی اے اے مظاہرین اور لوجہاد جیسے قانون کے ذریعہ مسلم نوجوانوں پر (بین مذہبی تعلقات میں) ’ہراسانی‘کا ایک درواز ہ کھول دیاگیا ہے۔

مختصر یہ کہ یوگی ادتیہ ناتھ نے 20فیصد مسلمانوں کو’دفاع‘ پر ڈالا دیا اور یہ ثابت کردیاتھا کہ اقلیتی کمیونٹی کے بغیر بھی اقتدار حاصل کیاجاسکتا ہے اس پر قائم رہا جاسکتا ہے۔ان کا حالیہ تبصرہ’80فیصد بمقابلہ 20فیصد‘ نے یہ ثابت کردیاہے۔لکھنو میں شیعہ ڈگری کالج کے ایک فیکلٹی سینئر ممبر نے کہاکہ ”یوگی کے دورمیں مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری ہونے کا احساس دلایاگیاہے۔

انہوں نے ساری کمیونٹی کی ایک شناخت مخالف قوم‘ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی اور اس سے ہمیں بڑی تکلیف ہوئی ہے۔ ہم نے بھی کسی غلط کرنے والوں کو دی جانے والی سزا کی مخالفت نہیں کی مگر ساری کمیونٹی کو غلط کرنے والے بتانا افسوسناک ہے۔

پچھلے پانچ سالوں میں ہر کوئی دائیں بازو پولیس میں تبدیل ہوتا ہوا دیکھائی دیا ہے اور ایک بھگوا‘ گمچہ‘ کو بک کئے بغیر مسلمانوں پر تمام مظالم کئے گئے ہیں“۔یوگی ادتیہ ناتھ نے ذات پات کی لکیروں کو توڑتے ہوئے زبردست پیرو کار جو ہندوؤں میں پیدا کئے ہیں انہوں نے غیر بی جے پی سیاسی جماعتوں کو بھی مسلمانوں کے معاملات پر محتاظ رہنے کے لئے مجبور کردیاہے۔

کانگریس کے ایک ترجمان نے کہاکہ ”ہم جانتے ہی ں بی جے پی مسلمانوں پر ہمارے ایک لفظ ادا کرنے کا انتظار کررہی ہے اور وہ پھر مذہبی خطوط پر الیکشن کو لانے کے لئے پولرائزیشن شروع کردیں گے“۔

ذرائع کے بمواب اس مرتبہ پارٹیاں اسی وجہہ سے زیادہ مسلمانوں کو میدان میں اتارنے کاخطرہ نہیں مول لینا چاہتے ہیں۔


یوپی میں مسلمان نمائندے
اترپردیش میں مسلمان نمائندگیوں میں تاریخی گرواٹ ائی ہے۔

مذکورہ سماجی پارٹیوں کے1970اور1980 کے دہے میں عروج اور کانگریس میں کمی آزادی کے بعد پہلی مرتبہ ودھان سبھا میں 1967اور6.6فیصد اور 1985میں 12فیصد کا اضافہ مسلم نمائندگیوں میں ہوا تھا۔

ریاست میں بی جے پی پہلی مرتبہ عروج1980کے دہے کے آخر میں ملا اور1991میں اس تناسب میں 5.5فیصدکی کمی ائی ہے۔ اسی وقت کے ددوران انتخابات میں امیدواروں کے طور پر مسلمانوں کی مجموعی حصہ داری میں بھی کمی ائی ہے۔

مسلمانوں کی نمائندگی میں اضافہ کے دوسری مرحلے کی شروعات1991میں ہوئی ہے اور اس کا اختتام2012میں ہوا جب مسلمانوں نے اسمبلی کی 17فیصد سیٹوں پر جیت حاصل کی‘ اورپہلی مرتبہ آباد کے قریب کے تناسب کا حاصل کیاتھا۔

سال2000میں اتراکھنڈ کی تشکیل نے بھی اترپردیش میں مسلمانوں کی نمائندگی کے تناسب میں اضافہ کے لئے مددگارثابت ہوا ہے۔بی جے پی کی 2017میں تاریخ کامیاب نے 1991لہ سطح کے رحجان کا دوبارہ بحال کردیاجس میں 68کے مقابلے جو سابق انتخابات میں جیتے ہوئے تھے 23مسلمان ہی منتخب ہوکر ائے تھے۔

اس کا اثر کمیونٹی کی پالیسی سازی میں پسماندہ کی عکاسی ثابت ہوا۔ کل ہند مسلم پرسنل لاء بورڈنے رکن مولانا خالد رشید فرنگی مہالی نے کہاکہ ”یہ تعداد کے متعلق ہی نہیں‘ مذکورہ کمیونٹی کی نمائندگی میں کمی کا اثر پالیسی سازی میں ان کے رول پر بھی پڑا ہے‘ جو ریاست کی آبادی کے ایک بڑے حصہ کے لئے بہتر نہیں رہا ہے“۔

کیونکہ انتخابات کا عمل شروع ہوگیا ہے کہ اترپردیش میں مسلمان کوئی ’غلطی‘ نہیں کرنا چاہتے ہیں جس کی وجہہ سے ان کے ووٹوں کی تقسیم عمل میں ائے۔مذکورہ کمیونٹی کیسے یقین بنائے گی کہ ان کے ووٹوں کی تقسیم نہ ہو‘ اس موقع پر یہ بھی غیر واضح ہے۔

درالعلوم دیو بند کے ایک سینئر عالم دین نے کہاکہ ”بی جے پی کو شکست دینا ایک اہم عنصر ہے حالانکہ اور بھی عوامل ہیں جیسے امیدوار‘ پارٹی‘ دیہی سطح کا حرکیات اور مقامی دشمنی۔تمام مسلمانوں کو ایک مضبوط پارٹی کوووٹ دیا‘ بی جے پی 2017میں اقتدار میں نہیں آتی تھی“۔

ایک مسلم رکن اسمبلی نے اپنا نام ظاہر کرنے کی درخواست پرکہاکہ ”مذکورہ یوگی حکومت نے مسلمانوں کو ایسا نشانہ بنایا جیسا ماضی میں کبھی نہیں ہوا تھا۔ اعظم خان سے مختار انصاری تک‘ حکومت کو انہیں گرانے کے کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔

اسی طرح کے جرائم کرنے والے دیگر کو اس دور میں ہاتھ تک نہیں لگایاگیاہے“۔محمد اعظم خان اپنے رویہ کی وجہہ سے غیر معروف شخصیت تھے مگر یوگی حکومت نے ان پر 86سے زائد مقدمات درج کئے اور دوسالوں تک جیل میں بند رکھا جس کی وجہہ سے اس کمیونٹی میں ان کے ہمدردی پیدا ہوگئی ہے۔

اسی طرح مافیا ڈان او رسیاست دان مختار انصاری کے خلاف بھی کاروائی کی گئی جس کی کمیونٹی میں رابن ہٹ کی شبہہ تھے اس نے بھی مسلمانوں کومایوس کیاہے۔

ہائی کورٹ کے ایک وکیل عبدالاخلاق نے کہاکہ ”ان پانچ سالوں میں حکومت نے ان کی جائیدادوں کے انہدام کی بے شمار تصویریں چمکائی ہیں۔

اگر اس نے غیر قانونی طریقے سے یہ زمینات ہڑپے تھے تو مذکورہ حکومت کو عدالت کے فیصلے کا انتظار کرنا تھا۔ حکومت نے ویسا ہی غیر قانونی کام کیاہے جیسے مختار نے کیاتھا۔وہ پانچ مرتبہ کا رکن اسمبلی ہے اور تین الیکشن جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہ کر جیتے ہیں“


اے ائی ایم ائی ایم کے متعلق یوپی کے مسلمانوں کا کیااحسا س ہے؟۔
اسمبلی انتخابات میں اسدالدین اویسی کی موجودگی تاہم مسلمان ووٹوں کومتاثر کرنے میں کوئی بڑا عنصر نہیں لگ رہا ہے‘کیونکہ اقلیت میں اکثریت کو لگتا ہے کہ اویسی ابھی بی جے پی کو چیالنج کرنے کے موقف میں نہیں ہے۔

اترپردیش میں 143سیٹیں ایسی ہیں جہاں پر مسلم ووٹرس کا اثر ہے۔ ایسے 70سیٹیں ہیں جہاں پر مسلمانوں کی آبادی کا تناسب20سے 30فیصد ہے اور43سیٹیں مسلمان آبادی کی 30فیصد سے زائد پر مشتمل ہیں۔

یہاں یوپی میں 36سیٹیں ایسی ہیں جہاں پر مسلمان امیدوار اپنے طور پر جیت حاصل کرسکتے ہیں وہیں 107اسمبلی سیٹیں جہاں پر مسلمان ہار جیت کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ رام پور‘ فرخ آباد او ربجنور ایسے علاقے ہیں جہاں پر مسلمانوں کی آبادی کا تناسب40فیصد سے زیادہ ہے۔

اس کے علاوہ مغربی اترپردیش‘ روہلکنڈ‘ اور ایسٹرن اترپردیش کی کئی ایسی سیٹیں ہیں جہاں پر انتخابی نتائج میں مسلمان اثر انداز ہوسکتے ہیں۔

اسی وقت میں ویسٹرن اترپردیش کی نو ایسی سیٹیں یں جہا ں پرمسلم رائے دہندے اپنے ووٹوں کے ذریعہ امیدواروں کے مستقبل کا فیصلہ کرسکتے ہیں‘ یہاں پر مسلمان رائے دہندوں کی آبادی کا تناسب55فیصد ہے۔

وہ نو سیٹیں میرٹھ صدر‘ رام پور صدر‘ سنبھل‘ مراد آبا‘ رورل‘ کندارکی‘ امروہا نگر‘ دھاؤلانا‘ بیہات‘ برائے سہارنپور اور سہارنپور دیہات ہیں۔

رام پور میں سب سے زیادہ مسلم آباد ی کا تناسب50.57فیصد ہے۔

اترپردیش کے 2012اسمبلی انتخابات کے دوران ریاست کے مسلم اکثریت والی 57سیٹوں میں سے نصف پر اکھیلیش یادو کی سماج وادی پارٹی نے جیت حاصل کی تھی۔

سال2017میں مذکورہ بی جے پی بڑی مسلم آبادی والے حلقوں میں اپنی غالب کار کردگی کے ساتھ 37سیٹوں پر جیت حاصل کی تھی۔

مذکورہ سماج وادی پارٹی نے محض17جبکہ مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی نے 2017میں یہاں سے ایک سیٹ پر بھی جیت حاصل نہیں کی تھی۔