بی سی تحفظات و مجالس مقامی چناؤکے اعلامیہ پر تلنگانہ ہائی کورٹ کا عبوری حکم التواء

   

انتخابی عمل پر 6 ہفتے تک روک، حکومت کو جواب داخل کرنے چار ہفتوں کی مہلت، چیف جسٹس اپریش کمار سنگھ اور جسٹس جی ایم محی الدین کا دو روزہ سماعت کے بعد اہم فیصلہ
حیدرآباد ۔ 9 ۔ اکتوبر (سیاست نیوز) تلنگانہ میں مجالس مقامی کے انتخابات اور پسماندہ طبقات کو 42 فیصد تحفظات کی فراہمی کے مسئلہ پر تلنگانہ ہائی کورٹ نے حکومت کو اس وقت جھٹکہ لگا جب عدالت نے تحفظات کے جی او اور انتخابات کے نوٹیفکیشن پر عبوری حکم التواء جاری کردیا۔ مجالس مقامی کے انتخابات کے پہلے مرحلہ کیلئے آج صبح نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا اور ہائی کورٹ کے عبوری حکم التواء سے انتخابی عمل 6 ہفتوں کیلئے موخر ہوچکا ہے ۔ چیف جسٹس اپریش کمار سنگھ اور جسٹس جی ایم محی الدین پر مشتمل بنچ نے آج دوسرے دن مقدمہ کی سماعت کی اور فریقین کے دلائل کی بنیاد پر 42 فیصد تحفظات کے سلسلہ میں حکومت سے جاری جی او ایم ایس 9 پر عبوری حکم التواء جاری کردیا ۔ عدالت نے حکومت کو ہدایت دی کہ اندرون چار ہفتے جوابی حلفنامہ داخل کرے اور حلفنامہ پر درخواست گزاروں کو جواب داخل کرنے دو ہفتے کی مہلت دی گئی۔ مقدمہ کی سماعت 6 ہفتوں بعد ہوگی۔ ہائی کورٹ کے احکامات کے نتیجہ میں نہ صرف تحفظات پر عمل آوری بلکہ مجالس مقامی کے انتخابات پر روک لگ چکی ہے۔ چیف جسٹس اپریش کمار سنگھ نے مقدمہ میں فریق بننے کیلئے داخل کی گئی تمام درخواستوں کو بھی قبول کرلیا ۔ اسٹیٹ الیکشن کمیشن نے ایم پی ٹی سی اور زیڈ پی ٹی سی نشستوں کے پہلے مرحلہ کے چناؤ کیلئے آج اعلامیہ جاری کیا تھا جس کے تحت پرچہ جات نامزدگی کے ادخال کا آ غاز ہوا۔ چیف جسٹس کے اجلاس پر آج لنچ کے بعد سماعت کا آغاز ہوا جس میں حکومت سے ایڈوکیٹ جنرل سدرشن ریڈی اور سینئر کونسل روی ورما کمار نے تحفظات کے حق میں دلائل پیش کئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے طبقاتی سروے کے اعداد و شمار کی بنیاد پر تحفظات فراہم کئے ہیں اور اعداد و شمار کے مطابق پسماندہ طبقات کی آبادی مجموعی آبادی کا 57 فیصد ہے ۔ ایڈوکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ آبادی سے متعلق اعداد و شمار کی بنیاد پر 50 فیصد کی حد میں اضافہ کی گنجائش ہے ۔ ہائی کورٹ میں دوسرے دن سماعت کے آغاز پر حکومت اور کانگریس کے حلقوں میں تجسس دیکھا گیا اور کئی وزراء اور کانگریس قائدین سماعت کے موقع پر عدالت میں موجود تھے۔ ایڈوکیٹ جنرل سدرشن ریڈی نے بتایا کہ بی سی مردم شماری کے حق میں اسمبلی میں منتخبہ طورپر قرارداد منظور کی گئی۔ آزادی کے بعد پہلی مرتبہ تلنگانہ میں طبقاتی سروے کا اہتمام کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ اسمبلی میں تمام سیاسی پارٹیوں نے تحفظات بل کی تائید کی۔ ایڈوکیٹ روی ورما نے کہا کہ دستور میں تحفظات پر 50 فیصد کی حد مقرر نہیں کی گئی ہے ۔ ایس سی ، ایس سٹی اور بی سی کی مجموعی آبادی 85 فیصد ہے اور تلنگانہ حکومت 85 فیصد آبادی کو 42 فیصد بی سی تحفظات کے ساتھ جملہ 67 فیصد فراہم کر رہی ہے ۔ 15 فیصد آبادی کو عام زمرہ میں 33 فیصد تحفظات کی گنجائش ہے ۔ تحفظات کی مخالفت میں وکلاء نے گورنر اور صدر جمہوریہ کے پاس تحفظات بل کے زیر التواء ہونے کا حوالہ دیا اور حکومت کے اختیارات کو چیلنج کیا۔ عدالت نے بھی وضاحت طلب کی کہ گورنر کے پاس زیر التواء بل پر قانون سازی کس طرح کی جاسکتی ہے ۔ ایڈوکیٹ جنرل نے سپریم کورٹ کے احکامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر گورنر مقررہ مدت کے دوران اسمبلی میں منظورہ بلز کو کلیئرنس نہ دیں تو از خود منظوری تصور کی جائے گی۔ ایڈوکیٹ جنرل نے اس سلسلہ میں ٹاملناڈو حکومت کی درخواست پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کا حوالہ دیا۔ فریقین کی سماعت کے بعد چیف جسٹس کی زیر قیادت بنچ نے جی او نمبر 9 اور الیکشن نوٹیفکیشن پر حکم التواء جاری کرتے ہوئے 6 ہفتوں بعد سماعت مقرر کی ہے۔ ایڈوکیٹ جنرل نے بتایا کہ حکومت نے سائنٹفک انداز میں سروے کا اہتمام کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انتخابی اعلامیہ کی اجرائی کے بعد عدالت کو انتخابی عمل میں مداخلت کا اختیار نہیں ہے۔ 1