آتی جاتی سرکاروں سے کیا لینا

,

   

مودی میان آف دی میچ…ہندو راشٹرا کا خطرہ بڑھ گیا
پنجاب میں کجریوال کی جھاڑو … کانگریس کے وجود کو خطرہ

رشیدالدین
بی جے پی نے 2024 ء لوک سبھا چناؤ کا سیمی فائنل 4-1 سے جیت کر فائنل ٹرافی پر اپنی دعویداری کو برقرار ہی نہیں مضبوط کرلیا ہے ۔ سیمی فائنل میں غیر متوقع طور پر دہلی (عام آدمی پارٹی) ٹیم کا مظاہرہ غیر متوقع اور چونکادینے والا ثابت ہوا۔ پنجاب کے قلعہ پر اپنا پرچم لہرانے اور کانگریس کو دھول چٹانے کے بعد 2024 ء کے فائنل میں اپنے اہم رول کی گیارنٹی کو کجریوال نے ابھی سے یقینی بنالیا ہے۔ پانچ ریاستوں کے انتخابات میں بی جے پی نے چار پر قبضہ برقرار رکھتے ہوئے 2024 ء میں دوبارہ اقتدار کے امکانات کو روشن کردیا ہے۔ نتائج میں بی جے پی کا کوئی نقصان اس لئے بھی نہیں ہوا کیونکہ پنجاب میں اس کی حکومت نہیں تھی ۔ اترپردیش ، گوا ، اترا کھنڈ اور منی پور میں بی جے پی دوبارہ برسر اقتدار آئی اور گوا میں اس نے ہیٹ ٹرک کی ہے۔ پنجاب جو کبھی کانگریس کا گڑھ تھا ، وہاں محض 10 سال عمر کی عام آدمی پارٹی نے 137 سالہ تاریخ رکھنے والی بزرگ پارٹی پر جھاڑو پھیردی، جسے اپنے تجربہ پر بڑا ناز تھا۔ کھیل کا میدان ہو کہ سیاسی میدان دونوں میں مقابل کو کمزور تصور کرنے کی بھول مہنگی پڑتی ہے۔ چار ریاستوں میں کامیابی کے باوجود بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا اور توسیع پسندی کی مہم اپنے مقام پر رکی ہوئی ہے۔ برخلاف اس کے کانگریس ریاستوں کی فہرست 3 سے گھٹ کر محض 2 ہوچکی ہے۔ راجستھان اور چھتیس گڑھ کانگریس کی دو آنکھیں باقی رہ چکی ہیں۔ سیمی فائنل میں عام آدمی پارٹی نے دہلی کے بعد پنجاب پر قابض ہوتے ہوئے 2 پوائنٹس حاصل کرلئے ۔ اترپردیش اور تین ریاستوں میں اقتدار میں واپسی کو سیاسی مبصرین نریندر مودی کی مقبولیت کا طوفان نہیں بلکہ سونامی کہہ رہے ہیں لیکن پنجاب میں اکالی دل اور امریندر سنگھ سے اتحاد کے باوجود مودی کا جادو نہیں چل سکا۔ حالانکہ پنجاب میں کسانوں کے احتجاج سے نریندر مودی کے قافلہ میں رکاوٹ کے بعد مودی نے زندہ واپس ہونے کا ریمارک کرتے ہوئے عوامی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ 5 ریاستوں کے نتائج سے یہ ثابت ہوگیا کہ صرف پنجاب کے رائے دہندے سیاسی طور پر باشعور ہیں۔ دیگر ریاستوں میں عوام مودی کے دلفریب نعروں اور جملہ بازی کا شکار ہوگئے لیکن پنجاب میں عوام نے ایسی پارٹی کو اقتدار عطا کیا جس کے قائدین اور کارکن تک مناسب تعداد میں موجود نہیں ہیں۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ عام آدمی پارٹی کو حقیقی عام آدمی نے جتایا ہے۔ کیڈر اور تنظیم کے مضبوط نہ ہونے کے باوجود عوام نے عام آدمی پارٹی کو کامیاب کرتے ہوئے ثابت کردیا کہ جب عوام ٹھان لیں تو دیگر طاقتور پارٹیاں بے بس ہوجاتی ہیں۔ اروند کجریوال کی دہلی میں کارکردگی کے ماڈل کو پنجاب میں عمل کرنے کا موقع دیا گیا ۔ کانگریس کے مقابلہ پنجاب میں کامیابی یقینی طور پر سیاسی انقلاب کے سوا کچھ نہیں۔ اسمبلی نتائج نے ایک طرف بی جے پی کو مضبوط بنادیا ہے تو دوسری طرف اروند کجریوال اور ممتا بنرجی کی قیادت میں قومی سطح پر نئی صف بندی کے امکانات روشن ہوچکے ہیں۔ 2024 ء فائنل سے قبل سیمی فائنل کے میان آف دی میچ نریندر مودی رہے جبکہ اترپردیش میں مودی اور یوگی ادتیہ ناتھ مشترکہ طور پر اس اعزاز کے حقدار ہیں۔ اترپردیش کی کامیابی سے یوگی ادتیہ ناتھ کی صورت میں بی جے پی کو نریندر مودی کا جانشین مل چکا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اگر 2024 ء تک مودی کی مقبولیت کا گراف گرتا ہے تو یوگی ادتیہ ناتھ وزیراعظم کے دعویدار بن سکتے ہیں۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کو ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری کیلئے جن خصوصیات کی ضرورت ہے ، وہ تمام یوگی ادتیہ ناتھ میں موجود ہیں۔ گھر دار ، بیوی بچوں سے کوئی دور کا تعلق نہیں ہے ، لہذا ملک کو ہندو راشٹرا میں تبدیل کرنے کیلئے پورا وقت دے سکتے ہیں۔ نفرت اور اشتعال انگیز زبان کے استعمال میں یوگی اپنے گروہ نریندر مودی سے آگے ہیں۔ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کو ایسی خوبیوں والا لیڈر چاہئے جو ہندو ووٹ متحد کرسکے۔ چار ریاستوں میں اقتدار کی واپسی میں اگر اترپردیش شامل نہ ہوتا تو بی جے پی کے لئے خوشی اور عوام کیلئے تشویش کی کوئی بات نہیں تھی۔ اترپردیش اور وہ بھی یوگی ادتیہ ناتھ کا واپس آنا ملک کے سیکولر اور جمہوریت پسند طاقتوں کیلئے خطرہ کی گھنٹی ہے۔ ہندو راشٹرا کے تجربہ کا آر ایس ایس نے اترپردیش سے پہلے ہی آغاز کردیا ہے اور سیمی فائنل کی کامیابی کے بعد بے خوف ہوکر ہندوتوا کے ایجنڈہ پر عمل کیا جائے گا۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پہلے ہی قومی اور ریاستی سطح پر قانون سازی کے ذریعہ شریعت پر عمل آوری سے روکنے کی کوشش کی گئی ۔ مودی حکومت نے طلاق ثلاثہ پر پابندی کیلئے شریعت میں مداخلت کی لیکن مسلمان مزاحمت نہ کرسکے۔ اترپردیش کی کامیابی کے بعد چن چن کر مخالف مسلم پالیسی اور پروگرام تیار کئے جائیں گے ۔ دینی اداروں اور مذہبی جماعتوں کے علاوہ مسلمانوں کی سیاسی ، مذہبی اور سماجی قیادت کو کمزور کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جائے گی ۔ دوسرے درجہ کے شہریوں جیسا سلوک کرتے ہوئے حوصلوں کو پست کردیا جائے گا تاکہ مزاحمت کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔ مذہبی اور ملی تشخص کو ختم کرتے ہوئے ووٹ کے حق سے محروم کرنے کی تیاری ہوسکتی ہے تاکہ 2024 ء میں کامیابی کے بعد آخری حربہ کے طور پر یکساں سیول کوڈ اور ہندو راشٹرا کی تشکیل کا خواب پورا کیا جائے ۔ عدلیہ کا استعمال کرتے ہوئے شرعی امور کے خلاف فیصلے صادر کرائے جائیں گے ۔ ان حالات کا سامنا کرنے کیلئے مسلمانوں کو تیار ہونا پڑے گا۔ صرف قیادتوں پر انحصار کرنے کے بجائے انفرادی طورپر شعور اور پامردی کے ساتھ مزاحمتی حکمت عملی تیار کرنی ہوگی۔ تاریخ اسلام میں عزیمت کے واقعات ہمیشہ پیش نظر رہیں تاکہ مزاحمت کا جذبہ پیدا ہو۔ ہمیں یہ بھولنا نہیں چاہئے کہ ہر ظالم کے دل میں چھپا ہوا ڈر ہوتا ہے اور جب کوئی اسے چیلنج کردے تو وہ فرار کا راستہ اختیار کرتا ہے ۔ ملک کے موجودہ حالات کسی امتحان سے کم نہیں ۔ ہمیں پست ہمت یا حوصلہ شکن ہونے کے بجائے اپنے تشخص کی برقراری کیلئے ہزیمت کے بجائے عزیمت کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے آزمائش کے ذریعہ امت مسلمہ کو سنبھلنے اور سدھرنے کا موقع فراہم کیا۔ جو کچھ بھی نامساعد حالات ہیں ، وہ ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ظلم کو سہتے رہیں گے یا پھر ظالم کا ہاتھ پکڑ کر روکیں گے۔
لوک سبھا کے سیمی فائنل کے نتائج سے کانگریس کی حالت قابل رحم ہوچکی ہے۔ ملک میں کانگریس کے وجود کو خطرہ لاحق ہوچکا ہے ۔ اترپردیش چناؤ میں پرینکا گاندھی نے خوب محنت کی اور ریالیوں اور جلسوں میں ہزاروں لوگ دکھائی دیئے لیکن نتیجہ صفر رہا۔ اترپردیش وہ ریاست ہے جو ہمیشہ کانگریس کی آبائی ریاست کے طورپر پارٹی کو مستحکم کرتی رہی لیکن آج اسی اترپردیش میں گاندھی خاندان اجنبی دکھائی دے رہا ہے ۔ جس پارٹی نے ملک کو آزادی دلائی اور ہندوستان کو نیوکلیئر طاقت بنانے کا کارنامہ انجام دیا ، ایسی پارٹی کے ساتھ رائے دہندوں کا رویہ حیرت انگیز ہے ۔ پنڈت جواہر لال نہرو سے منموہن سنگھ تک ملک کی معاشی ترقی میں کانگریس نے جو رول ادا کیا ، وہ آج کی نئی نسل تک نہیں پہنچا۔ اترپردیش اور دیگر تین ریاستوں میں بی جے پی نے نئی نسل کے دماغ میں نفرت کا جو زہر گھول دیا ہے، وہ آسانی سے ختم ہونے والا نہیں ہے ۔ ہندوتوا اور ہندو راشٹرا کا خواب کچھ اس طرح دکھایا گیا کہ لوگ اپنے مسائل کو درکنار کرتے ہوئے بی جے پی کی کامیابی کو سب کچھ سمجھ رہے ہیں۔ وقت آچکا ہے کہ کانگریس پارٹی اپنا محاسبہ کرے۔ پارٹی کے G-23 قائدین کا موقف درست ثابت ہوا ہے۔ پارٹی کی صدارت کیلئے گاندھی خاندان کے باہر کے کسی قائد کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ راہول گاندھی کو یوراج کے کردار سے نکل کر زمینی حقائق کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ اترپردیش اور دیگر ریاستوں میں کسان ایجی ٹیشن کا بی جے پی کو کوئی نقصان نہیں ہوا اور لکھم پور کھیری جہاں کسانوں کو گاڑی سے روند دیا گیا تھا ، وہاں کی تمام نشستوں پر بی جے پی کامیاب رہی۔ سماج وادی پارٹی کی نشستوں میں اضافہ ضرور ہوا لیکن بی جے پی کا ووٹ فیصد بھی گزشتہ کے مقابلہ بڑھ چکا ہے۔ جلسوں اور ریالیوں میں عوام کے ہجوم کو ووٹ میں تبدیل کرنے کیلئے بنیادی سطح پر کیڈر کی ضرورت ہے۔ ملک میں فی الوقت کوئی بھی پارٹی بی جے پی کی کیڈر مشنری کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ الغرض 5 ریاستوں کے نتائج نے سیکولر اور جمہوری طاقتوں کیلئے کئی سبق چھوڑے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ طاقتیں سبق حاصل کریں گی یا پھر بی جے پی کیلئے کھلا میدان چھوڑ دیا جائے گا ۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے شائد اسی وقت کیلئے یہ شعر کہے تھے ؎
اونچے اونچے درباروں سے کیا لینا
ننگے بھوکے بیچاروں سے کیا لینا
اپنا مالک اپنا خالق افضل ہے
آتی جاتی سرکاروں سے کیا لینا