ابھی تو ایک ہی ٹھوکر لگی ہے ظالم کو

,

   

کرناٹک … کانگریس کے اچھے دن … مودی کا جادو بے اثر
مہاراشٹرا … ادھو ٹھاکرے کی اخلاقی جیت

رشیدالدین
’’وقت رہتا نہیں کہیں ٹک کر‘‘ انسان کی زندگی ہو یا سیاست کا میدان، حالات ہمیشہ یکساں نہیں ہوتے۔ خوشی کے ساتھ غم ، تاریکی کے ساتھ روشنی ، رات کے ساتھ دن، اقتدار کے ساتھ اپوزیشن، جیت کے ساتھ ہار اور عروج کے ساتھ زوال کا ہمیشہ اٹوٹ رشتہ رہا ہے۔ قانون فطرت یہی ہے کہ ہر کسی کے حالات ہمیشہ یکساں نہیں ہوتے۔ حالات کی تبدیلی کا ایک مقصد آزمائش ہوتا ہے تو بسا اوقات غرور کا سر نیچا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ حالات کو الٹ دیتا ہے۔ دنیا نے افراد ، اداروں اور سیاسی پارٹیوں کے عروج و زوال کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ قانون قدرت سے کسی کو انکار نہیں ہوتا اور عارضی عروج اور اقتدار کا سر اس وقت جھک جاتا ہے جب قدرت تبدیلی پر آتی ہے۔کرناٹک اسمبلی الیکشن کے نتائج سے ایک نہیں کئی سبق ملتے ہیں۔ عوام کا فیصلہ تبدیلی کا اظہار تو ہے لیکن بی جے پی کی شکست سے یہ بات درست ثابت ہوتی ہے کہ کفر سے حکومت باقی رہ سکتی ہے لیکن ظلم سے اقتدار باقی نہیں رہتا۔ کرناٹک میں بی جے پی کی شکست اگرچہ ایک ریاست تک محدود ہے لیکن اس کے اثرات سارے ملک پر پڑیں گے ۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ کرناٹک کی شکست لوک سبھا چناؤ کے امکانی نتائج کی سمت اشارہ ہے۔ کرناٹک نتائج ملک بھر میں کانگریس کے اچھے دن کی شروعات بھی ہوسکتے ہیں۔ رائے دہندوں نے پھر ایک بار کانگریس پر اعتماد ظاہر کیا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کا عروج و زوال کوئی نئی بات نہیں۔ بی جے پی لوک سبھا میں محض دو ارکان سے اقتدار تک پہنچی ۔ جس وقت صرف دو زعفرانی ارکان تھے، اس وقت تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ واضح اکثریت کے ساتھ بی جے پی ملک پر حکمرانی کرے گی۔ حالات کی تبدیلی اور کانگریس کے اوور کانفیڈینس سے بی جے پی کو دوسری میعاد کیلئے بھی اقتدار حاصل ہوا۔ اس کے علاوہ کئی ریاستوں میں بی جے پی برسر اقتدار رہی۔ کانگریس جو کبھی ناقابل تسخیر سمجھی جاتی رہی، آج اس کی حالت اس قدر کمزور ہے کہ لوک سبھا میں مسلمہ اپوزیشن کا موقف بھی حاصل نہیں ہوا۔ وقت کا پہیہ ہمیشہ گھومتا رہتا ہے لیکن مودی ۔امیت شاہ جوڑی اقتدار کے نشہ میں فرعون وقت کا روپ دھارن کرچکے تھے۔ مودی کا جادو اپنا اثر کھونے لگا ہے۔ صرف جملہ بازی اور اداکاری سے عوام کا پیٹ نہیں بھرتا۔ عوام مہنگائی سے بدحال ہیں اور مودی امیت شاہ روم کے شہنشاہ کی طرح بانسری بجا رہے ہیں۔ بی جے پی کو مودی میجک پر بھروسہ تھا لیکن یہ بھرم اب ٹوٹنے لگا ہے۔ مودی کی عام جلسوں میں جملہ بازی کو سن کر کسی ملک کی مہارانی کا قصہ یاد آگیا۔ سلطنت میں شدید خشک سالی سے بے حال رعایا مدد کے لئے راج محل پہنچ گئے۔ مہارانی کو جب بتایا گیا کہ لوگ دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں تو مہارانی نے کہا کہ اگر روٹی میسر نہیں ہے تو کیک کیوں نہیں کھاتے۔ ٹھیک اسی طرح نریندر مودی گزشتہ 9 برسوں سے عوام کو ہتھیلی میں جنت دکھا رہے ہیں۔ کرناٹک کے رائے دہندوں نے اپنے فیصلہ کے ذریعہ پیام دیا ہے کہ مزید دھوکہ میں آنے والے نہیں ہیں۔ کرناٹک نتائج کا اثر آئندہ ایک سال میں 9 ریاستی اسمبلیوں کے نتائج پر پڑے گا اور 2024 ء لوک سبھا انتخابات بی جے پی کیلئے بھاری پڑسکتے ہیں۔ کرناٹک سے ملک کیلئے یہ پیام بھی ملا کہ بی جے پی کو شکست دینے کیلئے سیکولر طاقتوں کو متحد ہونا پڑے گا۔ ووٹوں کی تقسیم روکنے کیلئے چھوٹی جماعتوں نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ جنتا دل سیکولر کے مقابلہ سے بی جے پی کو امید تھی کہ سیکولر ووٹ تقسیم ہوں گے لیکن باشعور رائے دہندوں نے متحدہ رائے دہی کے ذریعہ بی جے پی کے خواب کو چکنا چور کردیا ۔ مبصرین کے مطابق آئندہ سال لوک سبھا چناؤ میں مخالف مودی طاقتیں کانگریس کے ساتھ دکھائی دیں گی اور اصل مقابلہ مودی حامیوں اور مودی مخالفین میں ہوگا۔ کرناٹک میں بسواراج بومائی حکومت نے ترقی کے بجائے ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل کرتے ہوئے اترپردیش کی نقل کی۔ لیکن جنوبی ہند میں اتر پردیش ماڈل کو عوام نے کبھی بھی پسند نہیں کیا۔ 40 فیصد کمیشن سے بی جے پی عام آدمی میں اپنا اعتبار اور وقار کھو چکی ہے۔ حجاب ، لو جہاد ، اذان اور انتخابات سے عین قبل مسلم تحفظات جیسے مسائل کو ہوا دے کر ہندو ووٹ متحد کرنے کی کوشش کی گئی۔ مودی اور امیت شاہ کو پتہ چل گیا کہ حکومت کا بچنا مشکل ہے تو دونوں نے انتخابی مہم کی کمان سنبھال لی ۔ مودی اور امیت شاہ کے جلسے اور ریالیاں عوام سے خالی تھیں۔ دونوں نے دہلی چھوڑ کر کرناٹک میں ڈیرہ جمالیا۔ مودی نے مسلسل ایک ہفتہ تک قیام کرتے ہوئے تھکادینے والی مہم چلائی۔ بنگلور میں چھتیس کیلو میٹر تک مودی کا روڈ شو رائیگاں ثابت ہوا۔ یہ جوڑی شکست کے خوف سے اس قدر بوکھلاچکی تھی کہ انتخابی ضابطہ اخلافق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مذہبی بنیادوں پر ووٹ کی اپیل کی لیکن الیکشن کمیشن بے بسی کے ساتھ تماشائی بنا رہا۔ بجرنگ دل پر پابندی کے کانگریس کے وعدہ کو مودی نے بھگوان کی توہین سے جوڑ کر ووٹ دیتے وقت مذہبی نعرہ لگانے کی اپیل کی۔ مسلم تحفظات کے خلاف امیت شاہ کی بیان بازی پر سپریم کورٹ نے ناراضگی کا اظہار کیا ۔ نریندر مودی نے متنازعہ فلم ’’دی کیرالا اسٹوری‘‘ کا عام جلسوں میں پروموشن کیا ۔ الغرض ہندوتوا کارڈ کھیل کر مودی ۔ امیت شاہ جوڑی نے رائے دہندوں میں زہر گھولنے کی کوشش کی ۔ لیکن یہ منصوبہ ناکام ہوگیا۔ دوسری طرف کانگریس نے سماج کے ہر طبقہ کیلئے بھلائی کا وعدہ کیا ہے۔ مسلم تحفظات کی بحالی کے وعدہ نے جنتا دل سیکولر کے روایتی مسلم ووٹ بینک کو کانگریس کی طرف موڑ دیا۔ بی جے پی کی شکست کا اندازہ اسی وقت ہوگیا جب مودی میڈیا یا گودی میڈیا نے اگزٹ پول نتائج کے ساتھ بی جے پی کی جگہ مودی کی تصویر ہٹاکر جے پی نڈا کی تصویر لگادی تاکہ شکست کیلئے پارٹی صدر کو ذمہ دار قرار دیاجائے۔ اگر کامیابی کا امکان ہوتا تو مودی کی تصویر لگاکر سہرا ان کے سر باندھا جاتا ۔
رائے دہی کے دن نریندر مودی نے راجستھان سے کرناٹک کی مہم چلائی ۔ راجستھان میں مشہور مندر کا درشن کیا اور سرکاری تقریب میں کانگریس پر تنقید کی۔ گودی میڈیا نے مندر کے درشن کو لائیو پیش کیا تاکہ کرناٹک کے رائے دہندوں پر ہندو کارڈ کا اثر ہو۔ 2019 ء کے عام انتخابات کی مہم کے بعد مودی پہاڑوں پر گھپا میں بیٹھ گئے تھے اور گودی میڈیا نے لائیو پیش کرتے ہوئے رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ۔ کرناٹک میں بی جے پی شکست اور کانگریس کی کامیابی کا سہرا راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی کے سر جاتا ہے ۔ بھائی بہن نے کرناٹک میں غیر معمولی محنت کی۔ کانگریس کی کامیابی میں اپنی حصہ داری جوڑنے کیلئے سونیا گاندھی بھی آخری دن کی مہم میں شامل ہوگئیں۔ صدر کانگریس ملکارجن کھرگے اپنی ریاست میں اقتدار کا تحفہ ہائی کمان کو پیش کیا، وہ کانگریس کے لئے نیک قدم ثابت ہوئے۔ پارٹی صدارت سنبھالتے ہی ہماچل پردیش میں کانگریس کو اقتدار حاصل ہوا۔ سابق چیف منسٹر سدا رامیا نے بی جے پی کے تمام حربوں کا موثر جواب دیتے ہوئے رائے دہندوں کو کانگریس سے جوڑنے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ کرناٹک میں عوام نے بی جے پی کو مسترد کیا تو دوسری طرف سپریم کورٹ نے مہاراشٹرا حکومت کو پھٹکار لگائی ہے جس کی قیادت بی جے پی کر رہی ہے۔ ادھو ٹھاکرے کے خلاف شیو سینا ارکان اسمبلی کو بغاوت پر اکسا کر گورنر کی مدد سے حکومت تشکیل دی گئی۔ سپریم کورٹ نے تشکیل حکومت کے عمل کو غیر قانونی قرار دے دیا اور کہا کہ گورنر نے دستور اور قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ادھو ٹھاکرے حکومت کے استعفیٰ کو قبول کرلیا۔ جمہوریت اور جمہوری عمل کے خلاف گورنر کے اقدام کی بی جے پی بے شرمی کے ساتھ تائید کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے گورنر اور اسپیکر دونوں کے فیصلوں کو غلط قرار دیا لیکن دیویندر فڈنویس اور ایکناتھ شنڈے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو جمہوریت کی تائید قرار دیتے ہوئے اپنی بے شرمی کا مظاہرہ کر رہے ہیںجبکہ یہ ادھو ٹھاکرے کی اخلاقی جیت ہے۔ سپریم کورٹ نے باغی ارکان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ موجودہ اسپیکر پر چھوڑ دیا ہے۔ اسپیکر کا تعلق اگرچہ بی جے پی سے ہے لیکن انہیں باغی ارکان کو بچانے میں دشواری ہوگی۔ سپریم کورٹ کے 7 رکنی دستوری بنچ سے اس معاملہ کو رجوع کیا گیا ہے اور اگر اسپیکر غلط فیصلہ کریں تو دستوری بنچ اس کا جائزہ لے گا۔ جس طرح شیوسینا میں بغاوت کے ذریعہ بی جے پی نے مہاراشٹرا میں اقتدار حاصل کیا تھا ، ٹھیک اسی طرح کرناٹک میں بھی پھوٹ کے ذریعہ حکومت تشکیل دی گئی تھی ۔ کئی ریاستوں میں بی جے پی نے کانگریس اور دیگر پارٹیوں میں بغاوت کے ذریعہ اپنی حکومت قائم کی۔ پھوٹ ڈالو حکومت کرو کی یہ پالیسی دیرپا ثابت نہیں ہوگی۔ کرناٹک کے نتیجہ پر حیدر علوی نے کیا خوب تبصرہ کیا ہے ؎
ابھی تو ایک ہی ٹھوکر لگی ہے ظالم کو
یہ ایک قسط ہے سارا حساب تھوڑی ہے