اصلاحِ معاشرہ

   

ڈاکٹر قمر حسین انصاری
معاشرہ افراد کے مجموعہ کا نام ہے اور ہر فرد اس بات کا ذمہ دار ہے کہ وہ اپنے معاشرہ کو ہر طرح کی خرابیوں اور بُرائیوں سے پاک و صاف رکھے۔ دینِ اسلام نے مسلمانوں کو اس بات کی بطورِ خاص تعلیم دی ہے ۔ نبی اکرمﷺ جس وقت دنیا میں مبعوث ہوئے ، وہ دور انسانیت کی تباہی کا سنگین دور تھا ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے : ’’اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ گئے تھے؛تو خدا نے تم کو اس سے بچالیا‘‘ ( اٰل عمران:۱۰۳)نبی اکرم ﷺ نے اپنی پیاری تعلیمات سے انسانوں کو تباہی کے دلدل سے نکالا اور دنیا کے سامنے ایک ایسا پاکیزہ اور پیارا معاشرہ پیش فرمایا جس کی نظیر قیامت تک نہیں پیش کی جاسکتی اور اس معاشرہ کے افراد کو قیامت تک آنے والی انسانیت کے لئے ایک نمونہ بنادیا ،کہ جن کے طریقوں پر چل کر لوگ راہ ِ ہدایت پاسکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ مزید فرماتا ہے : مسلمانو!تم وہ بہترین اُمت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لئے وجود میں لائی گئی ہے۔تم نیکی کرتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘( اٰل عمران:۱۱۰)
آج کے اس پرفتن دور میں ہمارا معاشرہ کئی خرابیوں اور بُرائیوں میں مبتلا ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : ’’یقینا تمہارے بعد صبر کے دن آئیں گے ( یعنی تکالیف اور آزمائشوں کا دور ہوگا ) اُن دنوں میں دین اسلام پر کاربند شخص کو ۵۰ آدمیوں کے عمل کے برابر اجر و ثواب ملے گا ۔ صحابہ کرام نے پوچھا: یا رسول اﷲ ﷺ اُسی زمانے کے ۵۰ آدمیوں کے برابر ؟ آپ ﷺ نے جواب دیا ’’تم میں سے ۵۰ آدمیوں کے برابر اجر و ثواب ملے گا‘‘۔ (المعجم الاوسط الطبرانی )
معاشرہ کی اصلاح وقت کی پکار ہے : عام طورپر شہر کے امیر اور خوش حال علاقوں میں مساجد ، علماء و حفاظ ، تعلیمی ادارے بہت ہوتے ہیں مگر افسوس کہ غریب زدہ علاقوں اور دوردراز کے دیہاتوں میں نہ دُنیوی اور نہ دہی دینی ہلچل نظر آتی ہے ۔ جہاں کام کی شدید ضرورت ہے جیسے عقائد کاتحفظ ، تعلیمی نظام کا استحکام ، لائبریریوں کا قیام ، دینی مسائل سے شعور بیداری ، حلال و حرام کا فرق ، خواتین کے پامال شدہ حقوق کی واپسی ، روزگار کے مواقع پیدا ہوں ، وغیرہ وغیرہ ۔
غربت ایک عالمگیر مسئلہ ہے جس سے کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ دینِ اسلام غربت ، محتاجی ، اور فقر کی حوصلہ شکنی کرتا ہے جبکہ اعتدال کے ساتھ امیری اور خوشحالی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔ فقر سے اﷲ کی پناہ مانگنے کا حُکم دیا گیا ہے ۔ مال و دولت اﷲ کی نعمت ہے اور اﷲ نے جن بندوں کو نوازا ہے اُنھیں اس پر شکر بجالانے کا حکم دیا ہے ۔ قرآن و حدیث میں بار بار اس نعمت کو اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ غربت انسان کو اُس کے عقیدہ سے محروم کرتی ہے اور کبھی اپنے خالق ، مالک ، رازق کی بغاوت پر بھی آمادہ کردیتی ہے ، کبھی قتل و غارت گری ، چوری اور ڈکیتی پر اُکساتی ہے ۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ’’قریب ہے کہ فقر انسان کو کُفر میں مبتلا کردے ‘‘ ( رواہ البیہقی فی شعب الایمان ) اسی وجہ سے آج کل ارتدادِ اسلام کے واقعات سننے میں آرہے ہیں جس میں زیادہ تر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں متاثر ہیں۔ ساری دنیا میں لوگ مسائل سے دوچار اور اُلجھن کا شکار ہیں جن میں سب سے اہم مسئلہ غربت اور ناخواندگی ہے ۔ غربت سے ہی حسد ، بغض ، کینہ ، کمینگی ، لالچ ، حرص ، عصمت فروشی ، خودکشی ، لوٹ مار ، کرپشن جیسے سینکڑوں مسائل پیدا ہوتے ہیں جس کی خبریں ہمیں آئے دن اخبارات اور سوشل میڈیا سے ملتی رہتی ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ہم میدان میں اُتریں اور عملی طورپر حضرت جعفر ابن طیارؓکی طرح ’’ابوالمساکین‘‘ بن کر غرباء ، مساکین ، محتاجوں کی مدد کریں۔
مالدار اور صاحب ثروت حضرات اپنے غریب خداموں کی کفالت کریں ۔ اُن کے بچوں کی تعلیم و تربیت پر دل کھول کر خرچ کریں۔ اُن کو خودکفیل بنانے کی کوشش کریں۔ ہم خود اپنی اپنی ذمہ داری نبھائیں۔ پہلے خود اپنی اصلاح کریں اور صحیح معنوں میں ’’اُمت محسنِ انسانیت ‘‘ بنے اور انسانیت کی خدمت کرے ۔ ہماری قوم کی جہالت کیسے ختم ہوگی جو اپنی اولاد کی تعلیم سے زیادہ اُن کی شادیوں پر زیادہ سے زیادہ خرچ کرنا باعث فخر سمجھتی ہے ۔ مسلم علاقوں میں اسکول ، لائبریریاں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے اور ہوٹل پہ ہوٹل ، شادی خانہ پر شادی خانہ کھولے جارہے ہیں جس سے دماغ سُکڑتے اور پیٹ بڑھتے جارہے ہیں ۔ کاش ! یہ ہوٹلیں اور شادی خانے لائبریریوں اور اسکولوں میں تبدیل ہوجائیں !
آج کی اس مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کی دُنیا میں لوگ مصنوعی ہوگئے ہیں ۔ نہ جانے اپنے اندر کتنے مصنوعی چہرے چُھپا رکھے ہیں کہ ہمارا برتاؤ ہر کسی کے ساتھ اُن کے رنگ و نسل ، طاقت و رُتبہ ، دولت و شہرت دیکھ کر ہوتا ہے اور ہم بہت بڑے ’’ابن الوقت‘‘ بن گئے ہیں ۔ ہمیں چاہئے کہ ہم یہ چہرے در چہرے نکال پھینکیں اور ایک بندہ مومن کا چہرہ بنالیں جسے دیکھ کر اﷲ اور اُس کے رسول ﷺ یاد آجائیںاور ہم خدمت انسانیت میں جُٹ جائیں ؎ (حفیظ جالندھری )
قلم ہی تک نہ رکھ محدود یارب ولولہ میرا
بڑھا دے حوصلہ میرا ، بڑھا دے حوصلہ میرا
اَللّٰهُمَّ يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِيْ عَلٰى دِيْنِكَ o
آمِیْن یَارَبَّ الْعَالَمِیْنَ o