الکوثر اور سیدہ فاطمۃ الزھراء رضی اﷲ عنہا کی شانِ اقدس

   

حبیب سہیل بن سعید العیدروس
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کی چار شہزادیوں میں سب سے چھوٹی اور سب سے محبوب شہزادی حضرت سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا ہیں ۔ یہی وہ ہیں جنھیں حضور اکرم ﷺ کی مکمل شباہت حاصل اور یہی رازدانِ مصطفی ﷺ بھی تھیں۔ آپؓ کے کثیر فضائل جمع کئے گئے لیکن مختصر تحریر پیش خدمت ہے جس میں معنیٔ کوثر اور سیدہ فاطمۃ الزھراء رضی اﷲ عنہا کی شانِ اقدس کے حوالے سے روشنی ڈالی گئی ہے ۔ چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے : ’’بیشک ہم نے آپ کو ( ہر خیر و فضیلت میں) بے انتہا کثرت بخشی ہے o پس آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھا کریں اور قربانی دیا کریں ( یہ ہدیۂ تشکر ہے) o بیشک آپ کا دشمن ہی بے نسل اور بے نام و نشاں ہوگا o (سورۃ الکوثر )
احادیثِ مبارکہ اور کتبِ تفسیر میں لفظ کوثر کے بہت معانی ہیں لیکن جس معنی کو موضوع سے موافقت ہے اور جس کو امام فخرالدین رازیؒ بیان فرماتے ہیں کہ الکوثر سے مراد حضور اکرم ﷺ کی اولاد ، نسل و ذریت کی کثرت ہے ۔ اور اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب حضور ﷺ کے صاحبزادے حضرت قاسمؓ یا حضرت ابراہیمؓ کا انتقال ہوا تو ایک گستاخ العاص بن واثل نے حضور اکرم ﷺ کو طعنہ دیا کہ اے محمد ﷺ ! آپ بے نسل ہوگئے (العیاذ باﷲ ) اور کفار کہنے لگے محمد ﷺ کی نسل منقطع ہوگئی اور ان کی اولاد باقی نہ رہی اور اب محمد ﷺ کا نام لینے والے کوئی باقی نہ رہے گا ۔ کفار کے اس طعنے کے ردّ میں اﷲ تعالیٰ نے سورۃ الکوثر کا نزول فرمایا اور ارشاد ہوا کہ اے حبیبِ مکرم ﷺ ! آپ کی نسل نہیں کٹی بلکہ آپ کا دشمن ہی یقینا بے نام و نسل ہوجائیگا ۔ آپؓ کے طعنہ زن ہی کی نسلیں اور ان کے نشان تک آئندہ زمانوں میں کسی کو دکھائی نہیں دیگا ۔ لہذا امام رازیؒ فرماتے ہیں کہ الکوثر سے مراد حضور ﷺ کی ذریت ، نسل و اولاد کی کثرت ہے چونکہ اس طعنہ کا ردّ ہے اس لئے حبیب پاک ﷺ کو ذریت کی وہ کثرت عطا کی ہے کہ قیامت تک کوئی زمانہ اور مقام سادات کے وجود ، اہلبیت و عترت اور ذریت مطہرہ سے خالی نہ ہوگا ۔ ایسی عظیم الشان کثرت سے آپ کو مشرف کیا گیا ہے۔مزید امام رازیؓ اس بات کی دلیل دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ لوگو دیکھو کہ اہلبیت کے کتنے نفوسِ قدسیہ کو چُن چُن کر شہید کردیا گیا اور کتنی کثرت کے ساتھ اہلبیت کے افراد کو نشانہ بنایا گیا مگر اس کے باوجود ہرزمانے میں سارا عالم حضور ﷺ کی اہلبیت و ذریت سے بھرا ہوا ہے ۔ نیز فرماتے ہیں کہ اتنی شہادتوں کے باوجود اور کربلا کے بعد صرف امام حسینؓ کے ایک صاحبزادے امام زین العابدینؓ بچ گئے تھے اور امام حسنؓ کی اولاد بھی زیادہ نہیں تھی ، ان تمام معاملات کے ہوتے ہوئے ذریّتِ رسولؐ پھیلی اور قیامت تک روئے زمین کے گوشے گوشے میں ذریّتِ محمد ﷺ ہے اور امام رازی فرماتے ہیں کہ ادھر بنو اُمیّہ جنھوں نے حضور اکرم ﷺ کی اہلبیت کو شہید کیا ان میں سے ایک شخص بھی باقی نہ بچا ، نہ ان کی نسل نہ نشان ۔ پھر مزید فرمایا کہ لوگو دیکھو کہ نہ صرف نسل باقی رہی بلکہ کیسے کیسے علم کے پہاڑ ہوئے اور کیسے کیسے معرفت کے ستون اور رہنمائی و امامت کے کیسے کیسے پیشوا حضور اکرم ﷺ کی اہلبیت میں ہوئے ،ایک طرف امام باقر رضی اللہ عنہ تو دوسری طرف امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نظر آتے ہیں۔ اُدھر موسیٰ کاظمؒ ، علی عریضیؒ نظر آتے ہیں ایک طرف امام علی رضاؒ اور محمد نفس زکیہؒ نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب امام مہاجر احمد ؒ، فقیہ المقدم محمد ؒ، امام عبداﷲ العیدروسؒ، امام الحداد ؒ وغیرہ نظر آتے ہیں ۔ اسی طرح معرفت کے اتنے بڑے بڑے ستون اور علم کے مینار حضور ؐ کی اہلبیت میں پیدا ہوتے رہیں گے ۔
امام بیضاویؒ فرماتے ہیں کہ الکوثر کے ایک معنی حضور ؐ کی اولاد کی کثرت بھی ہے اور امام صاویؒ نے بھی بیان کیا کہ الکوثر کا ایک قول یہ بھی ہے کہ جس کی اﷲ تعالیٰ نے تحقیق فرمادی کہ جتنی ذریت واولاد و نسل حضورِ اکرم ﷺ کی بڑھی کائنات میں کسی انسان کی نسل اتنی نہیں بڑھی ہے اور فرمایا کہ یہ کثرت صرف عدد میں ہی نہیں ہے بلکہ برکت میں بھی یہی کثرت ہے اور یہ دونوں کثرتیں قیامت کے دن تک قائم رہیں گی ۔ (حاشیہ صاوی علی الجلالین)
امام صاویؒ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ کی جمیع اولاد میں جوکہ منجملہ سات (۷) اولاد تین صاحبزادے اور چار صاحبزدیوں میں سے سب کے سب حضور ﷺ کی حیاتِ مبارکہ ہی میں وفات فرماگئے سوائے سیدہ فاطمہؓ کے اور حضور ﷺ کی اولاد میں سے صرف سیدہ فاطمہؓ کو منتخب کیا گیا اور قیامت تک جو حضور ﷺ کی نسل و ذریت سے کائنات بھری ہوئی ہے وہ صرف بطنِ فاطمہؓ کی برکت کے سبب سے ہے۔ پس حضور ﷺ کی جس ذریت کی کثرت کو الکوثر کہا گیا ہے اس کی نہر سیدہ فاطمہؓ ہیں۔ نہرِ کوثر نسل و ذریت مصطفی ﷺ حضرت سیدہ فاطمۃ الزھراء رضی اﷲ عنہا ہیں۔ ایک سیدہ کائنات سے کثرتِ آلِ رسول چلی اور دنیا آج ان کی برکات سے معمور ہے ۔
اب بات رہی کہ نسل انسانی بیٹے سے چلتی ہے نہ کہ بیٹی سے تو پھر سیدہ فاطمہؓ سے کیسے حضور اکرم ﷺ کی نسل چلی ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے تینوں صاحبزادے کم عمری میں وصال فرماگئے ۔ یہ ختم نبوت کا راز تھا اور تمام صاحبزادے جوانی کو پہونچنے سے پہلے ہی وصال کرگئے، اسی پر طعنہ دیا گیا تھا ۔ جب صاحبزادے نہ رہے تو حضور اکرم ﷺ کی نسل آگے کیسے بڑھی ؟ اس کے جواب میں روایت آتی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ’’ہر ماں کی اولاد اپنے باپ کی طرف منسوب ہوتی ہے ، سوائے فاطمہؓ کی اولاد کے ، کہ میں ہی ان کا ولی ہوں، میں ہی ان کا باپ ہوں ‘‘۔ (المعجم الکبیر)
جیسا کہ نظامِ قدرت ہے کہ ماں کا جو شوہر و خاوند ہوتا ہے نسل اسی کی طرف منسوب ہوتی ہے اور اسی کی اولاد کہلاتی ہے ، کبھی اولاد نانا کی طرف منسوب نہیں ہوتی لیکن نظام سب کے لئے ہے سوائے حضرت سیدہ فاطمہؓ کی اولاد کے۔ اب سیدہ فاطمہؓ کی اولاد حضرت علیؓ کی طرف منسوب نہیں ہوگی بلکہ حضور ﷺ کی طرف منسوب ہوگی اور یہی وجہ ہے کہ حضور ﷺ نے کبھی امام حسن و حسین رضی اﷲ عنہما کو اپنا نواسہ نہیں کہا بلکہ جب بھی فرمایا تو یہی کہ یہ دونوں میرے بیٹے ہیں۔
حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ : ’’ہر عورت کی اولاد کا نسب اپنے باپ کی طرف سے ہوتا ہے سوائے فاطمہؓ کی اولاد اور ذریت کے ، اس کا نسب بھی میں ہوں ، اس کا باپ بھی میں ہوں ‘‘۔ (مسند احمد) ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ : ’’ہر ماں کی اولاد کا عصبہ اس کا باپ ہوتا ہے اور اس کی طرف وہ منسوب ہوتی ہے سوائے فاطمہؓ کی اولاد کے ، ان کا باپ میں ہونگا اور وہ میری طرف منسوب ہوگی ‘‘۔ (مستدرک حاکم )
پس حضور نبی اکرم ﷺ نے اس طرح سے آلِ رسول کے نسب کو اپنی طرف منسوب فرمایا اور سیدہ کائنات فاطمۃ الزھراء رضی اﷲ عنہا کی جمیع اولاد و ذریت کے ولی و باپ ٹھہرے ۔ اﷲ تعالیٰ نے اس طعنہ کا جواب دیا اور فرمایا کہ اے حبیب ﷺ ! میں آپ کی نسل و ذریت کو اتنا بڑھاؤں گا اور اس میں اتنی کثرت و برکت پیدا کرونگا کہ قیامت تک آپؐ کی نسل و ذریت باقی رہے گی اور آپ کے دشمنوں کی نسلیں مٹ جائیں گی ۔ مگر کیونکہ آپؐ کے کوئی صاحبزادے باحیات نہ رہے لہذا اﷲ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی نسل و ذریت کو قیامت تک پھیلانے کیلئے بیٹے کا مقام سیدہ فاطمہؓ کو دیا ۔ پس جس کثرتِ نسل کی کوثر حضور ﷺ کو عطا کی گئی اس کی نہر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو بنایا گیا ۔ اس طرح اس معنیٰ کی رو سے سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کوثرِ ذریت محمد ﷺ ہیں۔ شانِ اقدس کی وہ جلالت ہے کہ تنہا قیامت تک ہونے والی آلِ رسول ﷺ کی آپؓ ہی اصل و مرکز ہیں۔ اﷲ تعالیٰ آپؓ کی ذات گرامی ، سیرت و کردار اور شان و عظمت سے ہمیں فیضیاب فرمائے اور آپؓ کی اولاد و ذریت سے محبت و مودت عطا فرمائے اور سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے سبب حضور ﷺ کی التفات کا حقدار بنائیں۔
آمین بجاہ سیدالمرسلین وآلہ الطیبین