امریکہ میں گن کلچر

   

امریکی ریاست نیویارک کے بفالو سوپر مارکٹ میں فائرنگ اور دس افراد کی ہلاکت نے ایک بار پھر اس ملک میں گن کلچر کو واضح کردیا ہے ۔ امریکہ کے مختلف شہروں میں وقفہ وقفہ سے مختلف عوامی مقامات پر فائرنگ کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ عوامی جانوں کا اتلاف مسلسل ہوتا ہے ۔ عام شہریوں کو نشانہ بناتے ہوئے انہیں موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے اور یا تو ملزم کو بھی گولی ماردی جاتی ہے یا پھر اسے گرفتار کرلیا جاتا ہے ۔ اس کے بعد حالات معمول پر آجاتے ہیں۔ عام زندگی بحال ہوجاتی ہے ۔ لوگ اس طرح کے واقعات کو فراموش کر جاتے ہیں۔ چند بعد دوبارہ اسی طرح کے واقعات پیش آتے ہیں۔ کبھی کوئی سیاہ فام باشندوں کو نشانہ بناتا ہے تو کبھی کوئی اور وجہ سے فائرنگ کی جاتی ہے ۔ کبھی نسل پرستی اس طرح کے جرائم کی وجہ ہوتی ہے تو کبھی بے اطمینانی کی کیفیت میں کوئی فائرنگ کردیتا ہے ۔ اصل مسئلہ امریکہ کے کلچر کا ہے جو ساری دنیا میں امن و امان کیلئے دہائی دیتا رہتا ہے ۔ کسی بھی ملک میں کوئی معمولی سا واقعہ بھی پیش آتا ہے تو امریکہ کی جانب سے پولیسنگ کی جاتی ہے ۔ اخلاقیات کا درس دیا جاتا ہے ۔ انسانی زندگیوں کی اہمیت پر لکچر دیا جاتا ہے ۔ گن کلچر کو ختم کرنے کی بات کہی جاتی ہے ۔ حکومتوں سے سوال جواب کئے جاتے ہیں۔ تاہم خود امریکہ میں جو کلچر فروغ پا رہا ہے وہ انسانیت کیلئے افسوسناک کہا جاسکتا ہے ۔ معاشرہ میں بے چینی اور بے اطمینانی عام بات ہوگئی ہے ۔ لوگ مادہ پرستی کی دنیا میں اس قدر محو ہوگئے ہیں اطمینان قلب کی کیفیت سے محروم ہوگئے ہیں۔ ایسے میں اس طرح کے واقعات عام بات ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ گن کلچر بھی عام ہوگیا ہے ۔ ان جنونیوں کو بندوق یا رائفل حسب سہولت دستیاب ہوجاتی ہے جس کے نتیجہ میں وہ اس طرح کے جرائم کا ارتکاب کرجاتے ہیں اور انسانی زندگیوں کا اتلاف ہوتا ہے ۔ ہر واقعہ کے بعد کچھ وقت تک سوگ منایا جاتا ہے اس طرح کے واقعات کی مذمت کی جاتی ہے اور پھر خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے ۔ گن کلچر کو ختم کرنے کیلئے حکام کی جانب سے کوئی اطمینان بخش کارروائی نہیں کی جاتی ۔
کبھی بھی اس طرح کے واقعات کی جڑ تک پہونچنے اور ان کا ازالہ کرنے کی سنجیدگی سے کوئی کوشش ہی نہیں کی گئی ہے ۔ ہتھیاروں کے استعمال کو روکنے کیلئے کوئی قانون نہیں بنایا گیا ہے اور نہ ہی ان کی فروخت روکنے کیلئے کوئی اقدامات کئے گئے ہیں۔ یہ پتہ چلانے کی ضرورت ہے کہ لوگ کس وجہ سے اس طرح کے جرائم کا ارتکاب کرنے تیار ہوجاتے ہیں۔ ان کے پس پردہ محرکات کیا ہوتے ہیں۔ اگر ذہنی کیفیت متاثر ہوتی ہے تو اس کی وجہ کیا ہوسکتی ہے ۔ سماجی برائیاں ہوں کہ بے اطمینانی کی کیفیت ہو اس کو بہتر بنانے اور برائیوں کو دور کرنے کیلئے کوئی منصوبہ نہیں بنایا جاتا ۔ اس جانب حکام کی جانب سے کوئی توجہ ہی نہیں دی جاتی ۔ ایک طرح سے ایسے واقعات پر خاموشی اختیار کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان وجوہات کا پتہ چلایا جائے جن کی وجہ سے لوگ اس طرح کے سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے تیار ہوجاتے ہیں۔ یہ پتہ چلانے کی ضرورت ہے کہ قوانین میں کیا خامیاں ہیں جن کی وجہ سے ایسے واقعات کی روک تھام نہیں ہو رہی ہے ۔ ہتھیار عوام تک کس طرح سے پہونچ رہے ہیں۔ عوام کی رسائی سے ہتھیاروں کو دور رکھنے کیلئے اقدامات کیوں نہیں کئے جاتے ۔ اس معاملے میں جامع اور موثر قانون سازی کیوں نہیں کی گئی ہے اور کیوں ایسے معاملات سے اب تک تغافل برتا گیا ہے ۔ تمام وجوہات کا تفصیلی طور پر جائزہ لینے کے بعد ان مسائل کی یکسوئی کیلئے اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔
امریکہ میں ہو چاہے دنیا کے کسی بھی مقام پر ہو عام اور بے گناہ و معصوم شہریوں کی جانوں کا اتلاف انتہائی افسوسناک ہوتا ہے ۔ زندگیاں اجڑ جاتی ہیں۔ ایسے واقعات کا نوٹ لیتے ہوئے ان کے سد باب او ر تدارک کیلئے جامع حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے ۔قانون کی سطح پر بھی اقدامات کئے جانے چاہئیں تو سماجی سطح پر بھی اس تعلق سے مہم چلانے اور شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے ۔ جب تک مختلف پہلووں پر غور کرکے اقدامات نہیں کئے جاتے اس وقت تک انسانی جانوں کے اتلاف اور اس طرح کے سنگین جرائم کا سلسلہ جاری رہے گا ۔ا س سلسلہ کو جتنا ممکن ہوسکے جلد روکنے کیلئے پہل کرنے کی ضرورت ہے ۔