اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ اور خواتین اسلام کی فکری بیداری

   

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی حیات طیبہ خواتین اسلام کے لئے عظیم نمونہ ہے ۔ کتب احادیث میں آپ کے فضائل و مناقب میں کثرت سے روایات محفوظ ہیں ، آپ خلق اسلامی کے بلند ترین مقام پر فائز تھیں۔ آپ کی تربیت نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کی صحبت بافیض میں ہوئی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ زہد و پارسائی کا بہترین نمونہ تھیں، فیاض ، قناعت ، اﷲ تعالیٰ کی عبادت گزاری اور انسانی ہمدردی کے اوصاف آپ کی ذات میں بدرجہ کمال و تمام موجود تھے ۔ علاوہ ازیں وہ صحابہ کرام میں علم و فضل کے اعتبار سے بھی منفرد اور اخلاق عالیہ کی بناء پر تمام صحابہ کرام اور تابعین کی عقیدت مندی کا مرکز بنی رہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا شمار کثیرالروایۃ صحابہ کرام میں ہوتا ہے ۔ آپ سے مروی احادیث کی کل تعداد (۲۲۱۰) ہے ، ان میں سے (۲۹۷) احادیث صحین ( بخاری و مسلم ) میں شامل ہیں ۔ ان میں سے (۱۷۴) روایات بخاری و مسلم میں بالاتفاق مروی ہیں اور بخاری میں (۵۴) اور مسلم میں (۹۹) علی الانفراد مروی ہیں۔
امام زہری فرماتے ہیں کہ اگر حضرت عائشہؓ کے علم کو تمام ازواج مطہرات بلکہ تمام عورتوں کے علم کے ساتھ جمع کیا جائے تو حضرت عائشہؓ کا علم بڑھ جائیگا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا قرآن ، حدیث ، فقہ ، شعر ، عرب کی تاریخ ، انساب پر سند اعلیٰ سمجھی جاتی تھیں۔ نامور تابعی حضرت عروۃؒ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے قرآن ، علم الفرائض ، حلال و حرام ، شعر ، عرب کی تاریخ اور ان کے انساب پر حضرت عائشہ ؓ سے زیادہ کسی کو عالم نہیں پایا ‘‘۔ (الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ )
حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے علم و فضل کا یہ عالم تھا کہ حضرت ابوموسیٰ الاشعری فرماتے ہیں : ہم اصحاب محمد ﷺپر جب بھی کوئی علمی مشکل آئی ہم نے حضرت عائشہؓ کے پاس اس بارے میں علم پایا ۔ ( معجم اعلام النساء ۲؍۸۵۴) نامور تابعی حضرت مسروقؒ کہتے ہیں کہ میں نے بزرگ صحابہ کرام کو دیکھا ہے کہ وہ حضرت عائشہؓ سے علم الفرائض اور وراثت کے مسائل پوچھا کرتے تھے ۔
ام المؤمنین کو سینکڑوں اشعار اور قصائد یاد تھے ، چنانچہ ابوالزناد (تابعی ) کہتے ہیں کہ میں نے عروہؒ سے زیادہ کسی کو اشعار روایت کرنے والا نہیں پایا ۔ میں نے پوچھا کہ آپ اس میں کیسے ماہر ہوئے تو انھوں نے کہاکہ میں اپنی خالہ عائشہؓ کے پاس ہوتا تھا ۔ ان کے ہاں کوئی بھی مسئلہ پیش آتا تو ضرور کوئی شعر پڑھتیں۔ ( معجم ۲؍۸۵۵)
ابن جزم نے حضرت عائشہ کا شمار ان سات صحابہ میں کیا ہے جن کے فتاوی عہد صحابہ میں سب سے زیادہ چلتے تھے ( جوامع السیرۃ )
امام الزرکشی نے اپنی کتاب ’’المعتبر‘‘ میں صراحت کی ہے کہ مسائل فقہ میں حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ ، حضرت عائشہؓ سے مسائل دریافت کرتے تھے۔ ( معجم ۲؍۸۵۶)
آپ کے پاس قرآن مجید کا ایک قلمی نسخہ موجود تھا جسے انھوں نے اپنے غلام ابویونس سے لکھوایا تھا ، قرأت کے بعض طریقے بھی ان سے مروی ہیں ۔ تابعین میں اکابر علماء کی اکثریت آپ کی شاگردوں کی صف میں شامل ہے ۔ ان میں عروہ بن زبیر ، قاسم بن محمد ، ابوسلمہ بن عبدالرحمن ، مسروق ، عمرۃ ، صفیہ بنت شیبہ ، اور عائشہ بنت طلحہ جیسے متعدد تابعین کے نام شامل ہیں۔
نبی اکرم ﷺ وفات سے پیشتر تیرہ(۱۳) دن علیل رہے جن میں سے آخری آٹھ دن آپؐ نے حضرت عائشہؓ کے حجرے میں گزارے۔ ازواج مطہرات نے آپ ﷺ کو بطیب خاطر حجرۂ عائشہ صدیقہ میں قیام فرمانے کی درخواست کی ۔ حضرت عائشہؓ نے بیماری کے دوران میں آپ کی جس طرح خدمت اور تیمارداری کی وہ ان کے لئے بہت بڑا شرف اور اُمت کے لئے ایک عظیم مثال ہے ۔ دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد نبی اکرم ﷺ کی آخری آرامگاہ بھی آپ کا حجرہ بنا ۔ بعد میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ بھی آپﷺ کے پہلو میں آرام فرمارہے ہیں ۔
خیبر فتح ہونے کے بعد نبی اکرم ﷺ نے اپنی ازواج کے لئے سالانہ مصارف کے لئے وظیفے مقرر کردیئے تھے ۔ فتح مکہ کے بعد پورا جزیرۃ العرب آپ کے قدموں میں تھا ، مال و دلت سب آپ کے اختیار میں تھی لیکن اس زمانے میں بھی آپ ﷺکی ازواج مطہرات نے تنگ دستی کی زندگی بسر کی اور کبھی دنیوی آرام و آسائش کو مقصد زندگی نہیں بنایا ۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے عہد خلافت میں امہات المؤمنین کے لئے عام صحابہ کرام سے زیادہ وظیفہ مقرر کئے ۔ تمام ازواج مطہرات کے لئے دس دس ہزار اور حضرت عائشہؓ کے لئے بارہ ہزار سالانہ وظیفہ مقرر کیا۔
نبی اکرم ﷺ کی وفات کے وقت اُم المؤمنین حضرت عائشہ ؓ کی عمر اٹھارہ سال تھی ۔ آپ کو کوئی اولاد نہیں ہوئی ۔ رسول اﷲ ﷺ کے بعد تقریباً ڈھائی سال تک حضرت عائشہؓ کے والد حضرت ابوبکر صدیقؓ خلیفہ رہے اور ان کے بعد دس سال تک حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ خلیفہ رہے۔ تاریخ سے ایسا کوئی واقعہ پایہ ثبوت کو نہیں پہنچا کہ شیخین کے زمانے میں حضرت عائشہؓ نے کبھی سیاسی اُمور میں دخل دیا ہو ۔ حضرت عثمانؓ کی خلافت کے پہلے چھ سال نہایت امن و سکون سے گزرے لیکن اس کے بعد بعض طبقوں کو حضرت عثمانؓ سے شکایات پیدا ہوگئیں اور یہ لوگ ان کے مخالف بن گئے ۔ اُم المؤمنین ہونے کی حیثیت سے لوگ حضرت عائشہ ؓکے پاس بھی آکر حضرت عثمانؓ کے خلاف شکایات پیش کرتے لیکن وہ سب کو صبر و تحمل کی تلقین کرتیں ، گروہ بندی سے انھیں کوئی سروکار نہیں رہا۔ بالآخر ۱۸؍ ذوالحجہ ۳۵؁ ھ کو باغیوں نے حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو شہید کردیا ۔ اس وقت حضرت عائشہؓ مکہ معظمہ میں مقیم تھیں جہاں وہ حج کے سلسلے میں آئی ہوئی تھیں۔ ہر طرف سے خلیفہ ثالث کے قصاص کا مطالبہ کیا جانے لگا ۔ مدینہ سے حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓنے آکر حضرت عائشہؓ کو وہاں کے حالات سے تفصیلاً مطلع کیا۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا موقف یہ تھا کہ حضرت عثمانؓ کا قصاص ضرور لیاجائے مگر اس وقت جب حالات میں استحکام آجائے ۔ حضرت عائشہؓ اصلاح احوال کے لئے بصرہ کو روانہ ہوئیں۔ فریقین میں سے کسی کو گمان تک نہ تھا کہ جنگ تک نوبت پہنچ جائیگی بالآخر دونوں جماعتوں کے درمیان وہ جنگ برپا ہوئی جو تاریخ اسلام میں ’’جنگ جمل‘‘ کے نام سے مشہور ہے کیونکہ تمام جنگ کا زور اس اونٹ کے گرد تھا جس پر اُم المؤمنین حضرت عائشہؓ سوار تھیں۔ اس جنگ میں حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ شہید ہوئے اور لڑائی میں حضرت علیؓ کا پلڑا بھاری رہا ۔ جنگ کے بعد حضرت علیؓ نے اُم المؤمنین کا غایت درجہ اکرام کیا ۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو تاحیات اس جنگ کا افسوس رہااور اس قدر روتی تھیں کہ آنچل تر ہوجاتا تھا ۔ جنگ کے بعد حضرت علیؓ نے اُم المؤمنین کو پوری حفاظت کے ساتھ حجاز روانہ کردیا ۔ زندگی کا باقی حصہ آپ نے مدینہ منورہ میں دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں مصروف رہ کر گزارا ۔ آپؓ نے ۱۷ رمضان المبارک ۵۷؁ھ میں داعی اجل کو لبیک کہا اور حسب وصیت مدینہ کے قبرستان جنت البقیع میں دفن کی گئیں۔ دراصل اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ کی ذات مسلمانوں کے لئے ایک ایسی دانشگاہ تھی جس سے مسلم خواتین سمیت تمام صحابہ کرام مستفید ہوئے اور ازواج مطہرات کا یہ علمی اور فکری فیضان خواتین اسلام کی فکری بیداری کی صورت میں اب تک موجود ہے ۔