بغرضِ ایصالِ ثواب کھلانا شرعًا درست ہے

   

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید اپنے ماں باپ کی طرف سے قربانی دیتا ہے یا دعوت کرکے غریب اور رشتہ داروں کو کھلاکر اس کا ثواب اولیاء اﷲ یا اپنے مرحوم ماں باپ کو ایصال کرتا ہے۔
ایسی صورت میں شرعاً کیا یہ کھانا کھلانا جائز ہے یا کیا ؟
جواب : اگر کوئی شخص کچھ عمل خیر کرے مثلاً نماز پڑھے یا روزہ رکھے ، صدقہ دے ، کھانا پکاکر کھلائے ، قربانی دے ، قرآن پڑھے اور اس عمل سے اس کی یہ غرض ہو کہ اس کا ثواب بزرگان دین یا اپنے عزیز و اقارب کی ارواح کو پہنچے تو اس کا یہ فعل شرعاً جائز ہے اور اس کی نیت کے موافق اﷲ تعالیٰ اس کا ثواب ان ارواح کو ایصال فرماتا ہے ۔ ردالمحتار جلد اول صفحہ ۳۶۱ میں ہے للانسان أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلاۃً أو صوماً أو صدقۃ أو غیرھا کذا فی الہدایۃ اسی صفحہ میں ہے وفی البحر من صام أو صلی أو تصدق وجعل ثوابہ لغیرہ من الأموات والأحباء جاز ویصل ثوابھا الیھم عند أھل السنۃ والجماعۃ کذا فی البدائع۔ اور فتاویٰ قاضی خان بر حاشیہ عالمگیری جلد ششم فصل التصدق میں ہے۔ رجل تصدق عن المیت ودعا لہ قالوا یجوز ذلک ویصل الی المیت لما جاء فی الاخبار ان الحی اذا تصدق عن المیت بعث اﷲ تعالیٰ تلک الصدقۃ الیہ علی طبق من النور۔ پس صورت مسئول عنہا میں بغرض ایصال ثواب ارواح بزرگان دین و ارواحِ والدین قربانی دینا اور کھانا پکا کر فقراء و رشتہ داروں کو کھلانا شرعاً درست ہے۔