بھارت بند

   

ترے شہر میں زندگی جاگ اٹھی ہے
یہاں بھی غم روزگار آ نہ جائے

ہندوستان کے کسانوں کے مسائل پر جب بیرون ممالک آوازیں اٹھنے لگیں تو یہ مرکز کی بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے حکومت کے لیے تشویش و افسوس کی بات ہونی چاہئے ۔ اس حکومت کی عالمی سطح پر بدنامی ہورہی ہے ۔ امریکہ ، برطانیہ ، کناڈا کے علاوہ کئی یوروپی ممالک کے ارکان پارلیمنٹ اور عوام نے کسانوں کے احتجاج کی حمایت کی ۔ آج کا بھارت بند مودی حکومت کی پالیسیوں پر کئی سوال اٹھاتا ہے ۔ بھارت بند کو ملک کی 22 ریاستوں میں حمایت مل رہی ہے ۔ کسانوں کے ساتھ لاپرواہی کے خلاف ، ادیب ، صحافی ، وکلاء اور کئی سماجی جہدکار بھی کھڑے ہوچکے ہیں۔ یہ ایک قومی مسئلہ ہے اس کو غیر سنجیدگی طور پر نمٹا جارہا ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی نے ایک ایسے وقت افسوسناک بیان دیا جب ملک کے تقریباً علاقوں میں کسانوں کا احتجاج شدت اختیار کرلیا ہے ۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ ملک صدیوں پرانے قوانین کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ وزیراعظم کو اس طرح کے بیان سے پہلے یہ غور کرنا تھا کہ کسانوں کے ساتھ اب تک کئی مرحلوں کی بات چیت ہوچکی ہے جو ناکام رہی ۔ وزیراعظم نے کسانوں کے حق میں کوئی مثبت بیان نہیں دیا ۔ بیرون ممالک احتجاج کو بھی غیر اہمیت دیتے ہوئے یہ کہا گیا کہ یہ احتجاج غلط معلومات کا نتیجہ ہے ۔ بیرون قائدین کو اصل مسائل سے ناواقف ہونے کا بیان اس مسئلہ کو مزید مشتعل کرتا ہے ۔ یہ وقت کسانوں کے غم و غصہ کو کم کرنے کا ہے لیکن مودی حکومت اپنی ہٹ دھرمی کے ذریعہ ملک کے ہر مسئلہ کو اپنی طاقت سے نمٹنا چاہتی ہے ۔ رام مندر ، یکساں سیول کوڈ ، کشمیر کے 370 کا مسئلہ سے نمٹنے میں آسانیاں ملنے کے بعد اس حکومت کا دماغ اس قدر خراب ہوچکا ہے کہ وہ ہر مسئلہ کو اس تناظر اور اس رویہ سے نمٹنے کی کوشش کررہی ہے ۔ ملک کے کسانوں کا مسئلہ ایک مختلف مسئلہ ہے ۔ یہ نازک صورتحال کسانوں کی روٹی روزی چھین کر امیروں ، کارپوریٹ گھرانوں کو فائدہ پہونچانے کی سازش سے اب ہر کوئی واقف ہوچکا ہے ۔ کسانوں کی زمینات ہڑپ کر کے امیروں کو مزید امیر بنادیں گے تو یہ سب آزاد ہند میں اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں غریبوں کو تباہ کردینے کی منصوبہ بندی کو کوئی بھی ہرگز بررداشت نہیں کرے گا ۔ کسانوں نے اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے تو اس آواز کو سننے کی ضرورت ہے ۔ لیکن مودی حکومت اپنے زرعی اصلاحات قانون کو واپس لینے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ کسانوں کو اپنا دشمن سمجھ رہی ہے ۔ کسانوں کے احتجاج کو خالصتائی دہشت گردی کا رنگ دینے کی بھی کوشش کی گئی ہے ۔ دہلی اور اس کے اطراف اکناف جاری احتجاج اب سارے ملک میں پھیل گیا ہے ۔ ایک طرف حکومت کسانوں سے بات چیت کرنے کی بات کررہی ہے دوسری طرح وزیراعظم نریندر مودی اپنی من کی بات میں کہتے ہیں کہ ہم ان قوانین کو واپس نہیں لیں گے ۔ حکومت کہتی ہے کہ وہ ایک دیش ایک منڈی قائم کرنا چاہتی ہے ۔ کیا اس ملک کے کئی ریاستوں کے کسانوں کے مسائل ایک منڈی میں لاکھر جھونک دیا جائے گا ۔ یہ ناقابل عمل بات ہے ۔ وزیراعظم مودی من کی بات میں واضح کردیا ہے کہ کسانوں کے لیے لایا گیا قانون پارلیمنٹ میں منظور کرلیا گیا ہے ۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مودی حکومت نے پارلیمنٹ میں ان بلوں کو زبردستی مسلط کردیا ۔ لوک سبھا ، راجیہ سبھا کے اندر ان بلوں کی مخالفت کو خاطر میں نہیں لایا ۔ اپوزیشن کے اعتراضات کے باوجود مودی حکومت نے راتوں رات بلوں کو پارلیمنٹ میں یکطرفہ طور پر منظور کرلیا ۔ پارلیمنٹ میں ارکان کے ساتھ تبادلہ خیال کیے بغیر اور ان بلوں کو بزنس اڈوائزری کو روانہ کئے بغیر کسانوں پر مسلط کردیا ۔ راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں کئی ارکان بلوں کے خلاف دھرنا دیتے ہوئے مہاتما گاندھی کے مجسمے اور پورٹریٹ کے سامنے احتجاج کیا لیکن مودی حکومت نے اس احتجاج کو اپنی زیادتیوں اور طاقت کے ذریعہ چپ کرانے کی کوشش کی ہے ۔ اس کو بعض طبقات خاص کر مسلمانوں ، کشمیر اور بابری مسجد تنازعات میں ناجائز طریقہ سے آگے بڑھنے میں کامیاب ہونے کی اس قدر مزہ لگ گیا ہے کہ وہ ہر شہری اور ہر طبقہ کو حقیر سمجھ کر حکومت کرنا چاہتی ہے ۔ یہ مسئلہ نازک ہے اب اسے ملک کی بھڑکتی نبض کو محسوس کرنی چاہئے ورنہ وقت اسے سبق سکھائے گا ۔ بھارت بند کی کامیابی کا سہرا ان تمام شہریوں کے سر جاتا ہے جو انصاف کے حصول اور حکومت کی من مانی کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں ۔۔