بہروں کا علاقہ ہے ذرا زور سے بولو

,

   

حجاب … سپریم کورٹ بھی فیصلہ نہ کرسکا
سنگھ پریوار کی لیباریٹری … شناخت مٹانے کی کوشش

رشیدالدین
اسلام ، شریعت ، مساجد اور مدارس پر حملے محض نفرت انگیز مہم کا حصہ نہیں ہیں بلکہ ایک منصوبہ بند سازش کے تحت مسلمانوں کی شناخت اور مذہبی تشخص کو ختم کرنے کا منصوبہ ہے ۔ آزادی کے بعد سے اگرچہ فرقہ پرست طاقتوں نے کبھی فسادات تو کبھی مآب لنچنگ کے ذریعہ ملک کی دوسری بڑی اکثریت کے حوصلوںکو پست کرنے کی کوشش کی لیکن جب یہ فارمولہ کارگر ثابت نہیں ہوا تو 2014 ء کے بعد سے چاروں طرف سے تابڑ توڑ حملوں کا آغاز کر دیا گیا۔ فسادات میں انسانی جانوں کے ضائع ہونے کے باوجود حوصلوں کو پست نہیں کیا جاسکا ، لہذا مذہبی شناخت کو مٹانے کے ایجنڈہ پر عمل کیا جارہا ہے تاکہ یکساں سیول کوڈ کے نفاذ میں کوئی مزاحمت نہ ہوسکے۔ نریندر مودی حکومت نے شریعت اور اسلام کے عائلی قوانین کو نشانہ بنایا اور پھر این آر سی اور سی اے اے کے ذریعہ مسلم اقلیت کی ہندوستانی شہریت کو مشکوک بنانے کا بیڑہ اٹھایا۔ ان تمام سرگرمیوں کا مقصد دستور ہند میں دیئے گئے حقوق بالخصوص ووٹ کے حق سے محروم کرنا ہے تاکہ مسلم ووٹ بینک سے لاحق خطرہ کو مستقل طور پر ختم کردیا جائے۔ جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کو ہرگز گوارا نہیں کہ مسلمان دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے مساوی درجہ حاصل کرچکے ہیں۔ ان میں احساس کمتری پیدا کرتے ہوئے یہ باور کرانا مقصد ہے کہ وہ ملک میں دوسرے درجہ کے شہری ہیں اور اکثریتی طبقہ کی مہربانی کے نتیجہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہندوتوا طاقتوں کے ایجنڈہ کی تکمیل میں حکومت کی سرپرستی ہر کسی پر عیاں ہیں۔ ساتھ میں ملک کی عدلیہ نے اپنے فیصلوں کے ذریعہ بالواسطہ طور پر مدد کی ہے۔ رام مندر کیلئے بابری مسجد کی اراضی حوالے کرنے کے بعد سے عدلیہ کے مخالف اسلام فیصلوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ طلاق ثلاثہ پر پابندی کے بعد عدالتوں میں شریعت کے خلاف فیصلوں کا فلڈ گیٹ کھل گیا۔ حکومت جو بھی فیصلہ کرے ، اس پر عدالتیں اپنی مہر تصدیق ثبت کر رہی ہیں۔ شریعت اور شرعی احکام کو ٹارگٹ کرنے کا معاملہ اذان اور حجاب تک پہنچ گیا ۔ بی جے پی ریاستوں میں تبدیلی مذہب پر امتناع عائد کرتے ہوئے قانون سازی کی گئی ۔ الغرض مودی حکومت کی سرپرستی میں جاری سرگرمیاں دستور میں دیئے گئے حقوق کے خلاف ہیں۔ دستور میں ہر شہری کو اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ مذہب کی تبلیغ کی اجازت دی ہے ۔ ایسے میں تبدیلی مذہب پر امتناع ، طلاق ثلاثہ اور حجاب پر پابندی کا دستوری جواز کہاں باقی رہے گا۔ اب تو کھلے مقامات پر نماز کی ادائیگی کھٹک رہی ہے۔ وہ دن دور نہیں جب نمازوں اور اذان کو مساجد تک محدود کرنے کا حکم دیا جائے گا ۔ مسلمانوں کی اجتماعی بے حسی اس صورتحال کی ذمہ دار ہے۔ قیادتوں سے لے کر جماعتوں ، تنظیموں اور مذہبی ، سیاسی اور سماجی اداروں پر سکوت طاری ہے۔ وقفہ وقفہ سے ایک نیا شوشہ چھوڑ کر عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنے کی سازش ہے۔ ملک میں گاؤ کشی پر امتناع اور بیف کے استعمال کے نام پر مآب لنچنگ کی گئی لیکن گوا اور شمال مشرقی ریاستیں کیا ہندوستان کا حصہ نہیں ہے جہاں بیف کاروبار کی سرکاری طور پر اجازت ہے۔ بی جے پی میں ہمت ہو تو اپنی زیر اقتدار ریاست گوا میں بیف کے کاروبار کو بند کر کے دکھائے۔ نریندر مودی کا ایک ویڈیو سوشیل میڈیا میں وائرل ہوا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ بیف کی برآمدات میں ہندوستان کا دنیا بھر میں پہلا نمبر ہے۔ بیف کے زیادہ تر بڑے کاروباری جو برآمدات کے ذریعہ بھاری آمدنی حاصل کرتے ہیں، ان کا تعلق مسلم اقلیت سے نہیں ہے ۔ بی جے پی ریاستوں کو سنگھ پریوار کی لبیاریٹری میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔ کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کا معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا لیکن کوئی حتمی فیصلہ نہیں آسکا۔ کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب پر امتناع کے حق میں فیصلہ سنایا تھا اور ججس نے قرآنی آیات کی غلط تشریح کرتے ہوئے حجاب کو لازمی شرعی عمل ماننے سے انکار کردیا ۔ یہ معاملہ جب سپریم کورٹ پہنچا تو دو ججس کا اختلافی فیصلہ سنایا گیا جس سے حجاب پر جاری تعطل ختم نہیں ہوا۔ جسٹس سدھانشو دھولیا نے حجاب کے شرعی طور پر لازم ہونے کو قبول کرتے ہوئے پابندی کی مخالفت کی جبکہ جسٹس ہیمنت گپتا نے پابندی کی تائید کی اور کہا کہ حجاب شریعت کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ دونوں ججس نے اگرچہ یکساں طور پر فریقین کے دلائل کی سماعت کی لیکن دونوں نے اپنے اپنے انداز میں نتیجہ اخذ کیا۔ اب اس معاملہ کو سہ رکنی بنچ سے رجوع کیا جائے گا ۔ اچھا ہوا کہ اختلافی فیصلہ آیا ورنہ ملک بھر میں حجاب پر پابندی کی راہ ہموار ہوجاتی۔ قرآن مجید میں خواتین کیلئے حجاب کے احکامات واضح طور پر موجود ہیں۔ لا اکراہ فی الدین یعنی دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ اس آیت میں قبولیت اسلام کا حوالہ ہے جس کے لئے کسی بھی جبر نہیں کیا جاسکتا۔ اس آیت کو عائلی قوانین سے مربوط کرنا غلط ہے۔ اختلافی فیصلہ کے بعد کرناٹک حکومت نے حجاب پر پابندی جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ مسلم لڑکیاں حجاب کریں تو اعتراض کرنے والے سکھوں ، راجستھانی اور دیگر طبقات کی خواتین کو ڈوپٹہ اوڑھنے سے روک کر دکھائیں۔ کئی علاقوں میں سر پر ڈوپٹہ کی روایت قائم ہے جو حجاب کی طرح خواتین کی عفت اور عصمت کے تحفظ کی ضمانت ہے۔ حجاب پر پابندی کے پس پردہ سازش کے تحت مسلم لڑکیوں کو تعلیم سے دور کرنے کی کوشش ہے۔ اس کے علاوہ مسلم طالبات کو اسلامی شعائر سے دور کرنا ہے۔ قابل مبارکباد ہے وہ طالبات جنہوں نے شریعت کو ترجیح دی اور تعلیم ترک کرنے کی پرواہ نہیں کی۔ کرناٹک کے کئی تعلیمی اداروں میں مسلم طالبات کی ایمانی حرارت کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔ سپریم کورٹ کے وسیع تر بنچ پر جب کبھی یہ مسئلہ جائے گا تو ججس کو قرآنی احکامات سے واقف کرانے کی ضرورت ہے۔ شریعت کے احکامات میں تبدیلی کا حق کسی کو حاصل نہیں اور یہی ہر مسلمان کا ایمان بھی ہے۔ اگر شریعت کے احکامات سے متعلق فیصلے عدالتوں میں ہونے لگیں تو پھر اس دستوری ضمانت کا کیا ہوگا جس میں ہر شہری کو اپنی پسند کے مذہب کو اختیار کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔
مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم پر لگام لگانے میں مودی حکومت ناکام ثابت ہوئی ہے۔ دہلی میں بی جے پی رکن پارلیمنٹ پرویش ورما نے مسلمانوں کے بائیکاٹ کی اپیل کرتے ہوئے جو زہر افشانی کی ہے اس پر بی جے پی کی خاموشی معنیٰ خیز ہے۔ نپور شرما کے گستاخانہ بیان پر مسلمانوں کے احتجاج کے سبب بی جے پی کو کارروائی کرتے ہوئے معطل کرنا پڑا لیکن پرویش ورما کے خلاف تاحال کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اشتعال انگیز بیانات کس کی ایماء پر دیئے جارہے ہیں۔ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت ایک طرف مساجد اور مدارس کے دورہ کی مہم پر ہیں تاکہ آر ایس ایس کے بارے میں غلط فہمیوں کا ازالہ ہو۔ دوسری طرف مسلمانوں کے بائیکاٹ کی اپیل سے عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ موہن بھاگوت دراصل مودی کے کپڑوں کی صفائی کر رہے ہیں جن پر مسلمانوں کے خون کے دھبے موجود ہیں۔ مسلمانوں کے بائیکاٹ کی اپیل ہندوستان میں کارگر ثابت نہیں ہوسکتی کیونکہ ہندوستانیوں کے خمیر میں رواداری اور محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ ہندوؤں کی اکثریت مذہبی رواداری پر عمل پیرا ہے اور وہ فرقہ پرست طاقتوںکے نعروں سے متاثر نہیں ہوں گے۔ ہندوستان میں ہندوؤں کی اکثریت کے باوجود تقریباً ایک ہزار برس تک مسلم حکمرانوں نے حکومت کی۔ دراصل مسلم حکمران روادار تھے ، لہذا اکثریتی طبقہ نے انہیں اپنے حکمراں کے طور پر قبول کیا۔ ناانصافیوں اور مظالم کے معاملہ میں مسلمانوں کی بے حسی نے فرقہ پرست طاقتوںکے حوصلوں کو بلند کردیا ہے۔ مساجد چھین لی گئیں لیکن مسلمان خاموش رہے۔ شریعت میں مداخلت کی گئی لیکن مسلمانوں نے اسے عدالت کا فیصلہ قرار دے کر قبول کرلیا۔ ملک کی تاریخ میں شائد یہ پہلا موقع ہے جب کسی مسلم وزیر کے بغیر مرکز میں حکومت کام کر رہی ہے۔ مودی حکومت میں مسلم چہرہ کے طور پر شامل کئے گئے مختار عباس نقوی کو جس انداز میں حکومت سے باہر کردیا گیا ، اسے مسلمانوں نے بآسانی ہضم کرلیا ۔ مختار عباس نقوی بھلے ہی بی جے پی نظریات پر سختی سے عمل پیرا تھے لیکن مودی نے حکومت میں مسلم چہرہ کو برقرار رکھنے پر توجہ نہیں دی۔ ملک میں مسلمانوں کی مزاحمت کا امتحان لیا جارہا ہے۔ فرقہ پرست طاقتیں دیکھنا چاہتی ہیں کہ مسلمان شریعت میں مداخلت اور شرعی احکام کے خلاف حکومت کے فیصلوں کو پر کس حد تک ردعمل ظاہر کریں گے۔ مسلمانوں کو جان لینا چاہئے کہ حق مانگنے سے نہیں بلکہ چھین کر لیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے کیا خوب کہا ہے ؎
جو طور ہے دنیا کا اسی طور سے بولو
بہروں کا علاقہ ہے ذرا زور سے بولو