بی جے پی اور فرقہ پرستی کیوں ہو رہے ہیں مستحکم

   

رام پنیانی
پچھلے تین دہوں یا اس سے زیادہ عرصہ سے یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ وقفہ وقفہ سے اس بات پر مباحث کئے جارہے ہیں کہ آیا کانگریس اور بی جے پی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ؟ کئی سیاسی جماعتیں وقفہ وقفہ سے تیسرا محاذ تشکیل دینے کی باتیں کررہی ہیں اور بی جے پی و کانگریس دونوں سے ہٹ کر تیسرے محاذ کے قیام کو منصفانہ بھی قرار دینے کی کوششیں بھی کی جارہی ہے ہیں۔
بنگال اسمبلی کے پچھلے انتخابات میں کانگریس ۔ بائیں بازو اتحاد کام نہ آسکا اور نہ ہی اسے ترنمول کانگریس کے خلاف کوئی کامیابی مل سکی لیکن فی الوقت اس طرح کے اتحاد کی باتیں کئی دلت جماعتیں اور اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی کرنے لگے ہیں۔ اسد الدین اویسی نے تو مغربی بنگال کے انتخابات میں ایک محاذ بنانے کی تجویز پیش کردی ہے (یہ اور بات ہے کہ مغربی بنگال میں بی جے پی پوری طاقت کے ساتھ ممتابنرجی کی زیر قیادت ترنمول کانگریس حکومت کو اکھاڑ پھینکنے میں مصروف ہو گئی ہے) ۔ بہار اسمبلی انتخابات کے بعد جہاں آر جے ڈی اور کانگریس نے مہاگٹھ بندھن بنایا تھا اسے رائے شماری کے دن ابتداء میں زبردست برتری دکھائی گئی اور ایک مرحلہ ایسا آیا جب لگ رہا تھا کہ یہ اتحاد کامیاب ہو جائے گا لیکن معمولی اکثریت سے اسے شکست ہوگئی۔ اب تجزیہ نگار اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کررہے ہیں کہ آر جے ڈی کی عظیم الشان ریالیوں اور صرف چار گھنٹوں کی نوٹس پر مرکز کی جانب سے نافذ کردہ کورونا لاک ڈاون کے نتیجہ میں عوام کو خوفناک پریشانیوں سے گذرنا پڑا تھا اس کے باوجود کس طرح بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے کامیاب ہوسکی۔ اکثر تجزیہ نگار این ڈی اے کی کامیابی کے لئے اے آئی ایم آئی ایم پر انگلی اٹھا رہے ہیں اور اسے اس کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ اگرچہ نشستوں کے حقیقی تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس عنصر نے بی جے پی کو چند نشستوں پر راست فائدہ پہنچایا ہوگا، لیکن تجزیہ نگاروں کی دلیل ہے کہ بہار اسمبلی انتخابات میں اے آئی ایم آئی ایم کے داخلہ نے ہندو ووٹوں کو متحد کردیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بی جے پی مستحکم ہوئی، جبکہ اسد الدین اویسی نے اقلیتوں کو درپیش مسائل دستور کی آواز میں اٹھائے۔ ان کے چھوٹے بھائی اور پارٹی کے دیگر ارکان نے ایسے بیانات دیئے جو تخریبی اور فرقہ وارانہ نوعیت کے ہیں۔ اکبر الدین اویسی کی بدنام زمانہ تقریر نے بھی ہندوستان میں آر ایس ایس اور اس کے سائے میں پل رہی طاقتوں کو ایک نئی توانائی بخشی۔ اکبر الدین اویسی کی تقریر کو سوشل میڈیا پر بہت پھیلایا گیا جبکہ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں نے اپنا ووٹ بینک مضبوط و مستحکم کرنے کے لئے اکبر الدین اویسی کی تقریر کا بہت استعمال کیا۔ اس تقریر میں اکبر الدین اویسی نے مسلمانوں اور پھر اکثریتی طبقہ اور پولیس کے حوالہ سے جو باتیں بھی کی تھیں وہ سارا ہندوستان جانتا ہے۔ سد الدین اویسی کا جہاں تک سوال ہے انہوں نے ملک کے سیاسی سرگرمیوں میں یا سیاسی شعبہ میں مسلمانوں کو حاشیہ پر لادینے کا رونا رویا ہے اور وہ درست بھی ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کی گرتی سماجی صورتحال کو بیان کیا ہے۔ وہ اپنی تقریروں کے ذریعہ اپنی کمیونٹی کو اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب بھی رہے۔ انہوں نے کئی اشتعال انگیز بیان دے کر جہاں اپنی کمیونٹی کو اپنی طرف راغب کیا وہیں ہندوؤں کو متحد کیا۔ مثال کے طور پر انہوں نے ایک مرتبہ یہ بھی بیان دیا کہ اگر ان کی گردن پر تلوار رکھ دی جائے تب بھی وہ ’’بھارت ماتا کی جئے‘‘ نہیں کہیں گے۔ اسی طرح ان کے ایک رکن اسمبلی نے لفظ ’’ہندوستان‘‘ کہنے سے انکار کیا۔
جہاں تک اسد الدین اویسی کی پارٹی کا سوال ہے ان کی پارٹی کے تین پرتی آپریشنس ہیں۔ پہلا یہ کہ پارلیمنٹ میں اویسی اپنی پارٹی کی موجودگی کا پوری پوری طرح احساس دلاتے ہیں۔ دوسرے میڈیا ان کی ہر حرکت کو پیش کرتا ہے یعنی ایک طرح سے ہندوستان کا ذرائع ابلاغ اسد الدین اویسی کو ایک بہت بڑے لیڈر کی حیثیت سے پیش کررہا ہے اور اکثر اسد الدین اویسی مسلم کمیونٹی کے درد و غم کا حوالہ دیتے رہتے ہیں اور کئی مسائل پر انتہائی جذباتی ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر بھارت ماتا کی جئے جیسے نعرہ پر اویسی کا ردعمل رہا ہے۔ ان کی پارٹی کے ارکان صرف نفرت انگیز اور اشتعال انگیز تقریر کرتے ہیں عام طورپر میڈیا کا ایک بڑا گوشہ ان پر زیادہ توجہ نہیں دیتا۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ اے آئی ایم آئی ایم مختلف ریاستوں میں کامیابی کے لئے مسلسل کوشش کرتی ہے۔ چاہے وہ مہاراشٹرا میں پرکاش امبیڈکر کے ساتھ اتحاد ہو یا پھر جھارکھنڈ اور بہار میں بی ایس پی سربراہ مایاوتی اور کشواہا کے ساتھ اتحاد کی بات ہو۔ یہی دیکھا جا رہا ہے کہ وہ ایسے حلقوں میں زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں جہاں ووٹوں کی تقسیم سے کانگریس اور اسکے اتحاد کمزور ہوسکتے ہیں۔ ایک بات تسلیم کرنی ہوگی کہ مسلمانوں کے سیاسی اور سماجی حالات ابتر ہیں اور سطحی طور پر اس کے لئے کانگریس کو ذمہ دار قرار دیا جاسکتا کیونکہ ہندوستان کی تاریخ میں جتنے بھی فسادات ہوئے ہیں کانگریس کے دوران میں ہوئے ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت بھی کانگریس کے دور اقتدار میں ہوئی۔ کانگریس اور اس کی حکومت، مودی ۔ بی جے پی ۔ آر ایس ایس کی طاقت کو روکنے سے قاصر رہے۔ شاہ بانو فیصلہ کو بھی کانگریس کی حکومت میں واپس لیا گیا۔ بابری مسجد کے تالے بھی کانگریس حکومت کے دوران کھلائے گئے۔ اسی لئے کانگریس پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ بی جے پی نے دن کے اُجالے میں جو کیا کانگریس نے رات کی تاریکی میں وہ کام انجام دیا۔ ویسے بھی آر ایس ایس نے جئے پرکاش نارائن کی تحریک میں شامل ہوکر خود کو ایک جائز مقام اور پلیٹ فارم پر لایا۔ اسی طرح اڈوانی نے جب رام مندر مہم شروع کی تب بی جے پی کو ایک ایسا پلیٹ فارم مل گیا جو فرقہ وارانہ خطوط پر عوام کو تقسیم کرنے کے لئے ضروری تھا یعنی اکثریتی ووٹوں کو متحد کرنا۔ اس پلیٹ فارم کو آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں نے فرقہ واریت کے رنگ سے رنگ دیا اور نتیجہ میں فرقہ واریت پچھلے چند دہوں سے ہندوستانی سیاست کا اہم عنصر بن گیا ہے۔ فرقہ واریت کا ہی دباؤ تھا جس کے نتیجہ میں راہول گاندھی نے خود کو جنیو دھاری شیو بھکت وغیرہ قرار دیا۔ حد تو یہ ہے کہ کئی تنظیمیں اور جماعتیں بھی اس اثر کی زد میں آگئیں۔ مختلف تنظیموں، پرچار کاس اور سویم سیوکس نے مہذب سماج، سماجی اور سیاسی سطح پر اپنے پر پھیلائے اور جذباتی مسائل کے ذریعہ عوام کے جذبات کا استحصال کیا۔ اسی طرح نوٹ بندی، کورونا لاک ڈاون، عوامی شعبہ جات کی کمپنیوں یا اداروں کو اپنے پسندیدہ صنعتی گھرانوں کے ہاتھوں فروخت کرنے جیسے عوام دشمن پالیسیوں کے باوجود بی جے پی کو کامیابی ملتی رہی اور یہ بی جے پی کی نصب کردہ انتخابی مشن کا نتیجہ ہے۔ جس طرح ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات پیش آئے اس سے مسلمانوں کا ایک گوشتہ قدامت پسند عناصر کی تائید پر اتر آیا۔ یہ تشدد دراصل ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت بھڑکایا گیا اور اس کے لئے جھوٹی باتیں، غلط تصورات و نظریات گڑھے گئے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی گئی پھر عیسائیوں کے خلاف بھی نفرت پر مبنی مہم شروع کی گئی۔ یو پی اے نے سچر کمیٹی کا تقرر کیا لیکن اس کی تجاویز پر اس لئے عمل آوری نہیں کی جاسکی کیونکہ اس کی شدت سے مخالفت کی گئی تھی۔ یو پی اے حکومت انسداد فرقہ وارانہ تشدد بھی لانے کی خواہاں تھی لیکن قومی یکجہتی کونسل اور پھر پارلیمنٹ میں اس کی مخالفت کئے جانے کے باعث وہ ایسا نہیں کرسکی۔ آج مذہبی قوم پرستی کی بڑھتی ہوئی لہر کا رجحان پایا جاتا ہے اور یہ ایسی لہر ہے جو سماج کو مذہبی خطوط پر تقسیم کررہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے مسائل پر بنا کسی جذباتی اشتعال انگیزی کے بات کی جائے۔ اکبر الدین اویسی اور واجد پٹھان جیسے لوگوں کے فرقہ وارانہ بیانات کو فوری روکا جائے۔ یہ بھی جان لیں کہ ایسا کوئی بھی اقدام جس سے بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کو انتخابی لحاظ سے استحکام بخشتا ہو وہ جمہوریت کے مفادات کو نقصان پہنچاتا ہے۔ آج بی جے پی کا مستحکم ہونا جمہوری مفادات کے خلاف ہے۔