تمام مقدمات ہٹائے جانیکی شرط پرخلع

   

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کا نکاح ہندہ سے ہوا۔ بعد خسر و داماد میں نااتفاقی اور اختلاف کی وجہ خسر نے طلاق کا مطالبہ کرکے طلاق نہ دینے کی صورت میں مختلف جگہوں کی مہیلامنڈل کی عدالتوں میں مختلف مقدمات اپنے داماد پر درج کرائے۔ تب داماد نے اپنے اوپر درج کرائے گئے مہیلا منڈل کی عدالتوں میں تمام مقدمات ہٹائے جانیکی شرط پر تمام مقدمات ہٹ جانے کے بعد ہی خلع دینے کا وعدہ کیا۔ اور ابھی تمام مقدمات نہیں ہٹائے گئے۔
ایسی صورت میں کیا ہندہ زید کے نکاح میں ہے یا نہیں ؟ اور کیا وہ کسی دوسرے شخص سے اپنا نکاح کرسکتی ہے ؟
جواب : بشرط صحت سوال و صدق بیان مستفتی صورت مسئول عنہا میں داماد زید نے اپنے اوپر در ج کرائے گئے تمام مقدمات ہٹائے جانے کی شرط پر خلع دینے کا وعدہ کیا ہے۔تو تمام مقدمات ہٹائے جانے کے بعد بیوی ہندہ کی طرف سے بطور ایجاب درخواست خلع کرنے کے بعد شوہر زید کا اس کو قبول کرنے پر خلع مکمل ہوکر دونوں میں تفریق ہوگی۔ فتاوی تاتارخانیہ جلد ۳ فصل فی الخلع ص ۴۵۳ میں ہے : فی الملخص والایضاح : الخلع عقد یفتقر الی الایجاب والقبول یثبت الفرقۃ ویستحق علیھا العوض۔
لہذا ہندہ، زید دونوں اب بھی میاں بیوی ہیں۔ اور ہندہ زید کے نکاح میں رہتے ہوئے کسی دوسرے شخص سے نکاح بھی نہیں کرسکتی۔
خلع
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بکر نے اپنی زوجہ ہندہ کے خلع چاہنے پر کہا کہ ’’میں اپنی مرضی سے چھوڑ دے رہاہوں خلع دے کے میری بیوی کو، اس میں کوئی ذمہ دار نہیں ہے۔ وہ چاہے تو شادی کرلے سکتی ہیں، انکی مرضی، میرے کو اس سے کوئی بھی تعلقات نہیں ہے‘‘۔ اس کی تحریر پر گواہان کے ہمراہ دونوں میاں بیوی کے دستخط ثبت ہے۔ایسی صورت میں کیا شوہر کی اس تحریر سے خلع ہوگیا یا طلاق ؟
جواب : صورت مسئول عنہا میں ہندہ کے خلع چاہنے کے بعد شوہر نے مذکورہ الفاظ ادا کرتے ہوئے تحریر کرکے دستخط کرتے ہی خلع مکمل ہوکر ایک طلاق بائن ہوگئی، اور دونوں کے درمیان رشتۂ زوجیت منقطع ہوگیا۔ فتاوی عالمگیری جلد اول باب الخلع ص ۴۸۸ میں ہے : الخلع ازالۃ ملک النکاح ببدل بلفظ الخلع کذا فی فتح القدیر … {وحکمہ} وقوع الطلاق البائن کذا فی التبیین۔
ماں کے اخراجات تمام اولادپر مساوی
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہندہ معمرہ تقریبا ۹۰ سالہ باحیات اور علیل ہیں۔ موصوفہ اس وقت اپنے بڑے فرزند کے پاس مقیم ہیں۔ موصوفہ کو مزید تین لڑکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہندہ کے علاج و معالجہ و دیگر اخراجات کی ذمہ داری صرف بڑے فرزند کی ہے کیا اُسی کو یہ خرچہ برداشت کرنا ہے۔ جبکہ تمام فرزندان صاحب استطاعت ہیں۔شرعاً کیا حکم ہے اور کس حساب سے یہ برداشت کریں ؟
جواب : صورت مسئول عنہا میں ہندہ کے علاج ومعالجہ و کھانے، پینے، کپڑے وغیرہ کے اخرجات کی ذمہ داری موصوفہ ہندہ کے چاروں لڑکوں پر برابر برابر ہیں۔شرعاً تمام مساوی طور پر اخراجات کی پابجائی کریں۔ فتاوی عالمگیری جلد اول کتاب النفقات ص ۵۶۴،۵۶۵ میں ہے : قال ویجبر الولد الموسر علی نفقۃ الأبوین … وان کان للفقیر ابنان أحدھما فائق فی الغنی والآخر یملک نصابا کانت النفقۃ علیھما علی السوائ۔ فقط واﷲ أعلم