حج کا پیغام حجاج کرام کے نام

   

ڈاکٹر محمد سراج الرحمن قادری
حج اسلام کا آخری تکمیلی رکن ہے ، یہ وقت متعینہ پر اﷲ کے دربار میں دیوانوں کی طرح حاضر ہونا ہے اور اس کے خلیل حضرت ابراھیم علیہ السلام کی اداؤں اور طور طریقوں کی نقل کرکے ان کے سلسلے اور مسلک سے اپنی وابستگی اور وفاداری کا ثبوت دینا ہے ، اپنی قدرت کے بقدر ابراہیمی جذبات اور کیفیات سے حصہ لینا ہے ۔ اپنے کو ان کے رنگ میں رنگنا اور رب ذوالجلال ، حاکم العالمین کے سامنے ہماری حاضری ، محتاجی ، محکومی کے ساتھ اس کی شایان شان کے سامنے ادب کی تصویر بن کر حاضری دینا ہے جہاں پر دوران حج کپڑوں کے بجائے ایک کفن تھا ۔ لباس پہننا ، ننگے سر رہنا ، بالوں میں کنگھا نہ کرنا ، نہ ترشوانا ، تیل ، خوشبو کا نہ لگانا ، جسمانی میل کچیل کی عدم صفائی ، بے یار و مددگار کی طرح چیخ چیخ کر رب العالمین لبیک لبیک پکارنا ، بیت اﷲ کے گرد چکر لگانا ، حجر اسود ، کعبہ کی درودیوار کو چومنا ، گریہ زاری کرنا ، پھر رات میں پہنچنا ، وادی میں رات گذارنا ، عرفات میں اکھٹا نماز ادا کرنا ، مزدلفہ میں زیرسما پڑے رہنا ، صحراؤں سے گذرتے کنکریاں مارنا ( رمی جمرات ) یہ سارے اعمال سے ہمیں اﷲ تعالیٰ کی شہنشاہیت اور اس سے بندے کی والہانہ محبت کے ذریعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عشق کا حصہ دار بنارہا ہے ۔
حج میں اُمت وحدہ ( اجتماعیت ) کا نمونہ
مسلمان تنہا یا اکیلا حج ادا نہیں کرتا بلکہ سارے عالم کے مسلمانوں کے لئے حج کا ایک زمانہ ہوتا ہے ۔ کالا ، گورا ، امیر غریب ، عربی عجمی ، تونگر ، نحیف ، ناتوان ، صحتمند ، غیرصحتمند اپنی اسلامی زندگی کے بیداری کا احساس دلاتا ہے ۔ آپس میں اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے اتحاد کی خوشبو کو تازہ کرتا ہے ۔ ملت وحدہ کا پرکیف نظارہ سارے عالم کو دیتا ہے ، ہر دل و دماغ پر چھایا رہتا ہے ۔
حج کا مقصد :دورِ رسالت میں جب حج کا موسم آتا تو پیغمبر اسلام کی تڑپ اور بھی بڑھ جاتی ، کعبۃ اللہ جو ۳۶۰ بتوں کا مرکز بنا ہوا تھا لوگوں کی چہل پہل کے موقع کا فائدہ اُٹھاکر آپ ﷺ اپنے جاں نثار ساتھیوں کے ساتھ کبھی مکہ مکرمہ کی گلی کوچوں میں کبھی بازاروں میں ، کبھی پہاڑوں میں ، کبھی منی کی وادیوں میں ، مزدلفہ کے صحراؤں میں ، کبھی علی الاعلان ، کبھی چھپ کر ، کبھی رات کے اندھیروں میں ، یا دن کے اُجالوں میں ، کبھی خوفناک بارش میں یا کبھی جھلسنے والی کڑاکے کی دھوپ میں اپنی جان کی پرواہ کئے بنا یارِ غار ابوبکرؓ کے ساتھ ایک ہی پیغام پہنچاتے کہ ’’لاالہٰ الااﷲ تفلحو‘‘ کہو ، مانو عبادت کے لائق صرف اﷲ ہے اور میں اﷲ کا آخری رسول ہوں ، کامیاب ہوجاؤ گے ۔
آج بھی جب حاجی حج کیلئے جاتا ہے تو اس بات کا خیال رکھے ، تصور کریں کہ جس پرامن فضاء و سرزمین میں وہ حج ادا کررہا ہے ، یہ وہی سرزمین مکہ کی گلی کوچے ہیں جہاں پیغمبر اسلام کے قتل کی سازشیں رچی گئی ، یہ وہی جگہ ہے جہاں کلمہ کی محنت سے جڑنے پر حضرت خبابؓ کو سولی پر چڑھایا گیا ، حضرت ابوبکرؓ کو فقر و فاقہ سے گذرنا پڑا ، یہیں پر مصعب بن عمیر کا لباس چھین لیا گیا ۔ حضرت بلالؓ کو گرم ریت سے تکالیف دی گئی ، حضرت سمیہؓ شہید کی گئیں ، تب جاکر یہ شہر مکہ امن والا بنا ۔ اب آپ کو امن و امان میں پرسکون فضاء میں حج نصیب ہورہا ہے ۔ اب حجاج کو یہ ضرور سونچنا چاہئے کہ کہیں ہم نے صحابہ کرام کی قربانیوں کو تو نہیں بھلادیا ؟ جس دعوت دین کی محنت کو لیکر صحابہ اکرام ساری روئے زمین میں کامیاب ہوئے جس محنت سے اﷲ اُن سے راضی ہوا کیا وہ دعوت دین کی محنت ہم حاجی کررہے ہیں ؟ خطبۂ حجۃ الوداع کا بنیادی پہلو اعلائے کلمۃ الحق ہے ، کلمہ کی محنت کو عام کرنا ہی مشن رسول ﷺ ہے اس محنت سے دوبارہ کھویا ہوا وقار حاصل ہوگا ، ہند میں پائیدار امن قائم ہوگا ۔ ورنہ علامہ اقبالؒ کے مطابق ؎
ہے طوافِ حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا
کند ہوکر رہ گئی مومن کی تیغ بے نیام
اﷲ تعالیٰ ہمیں مشن رسول اکرم ؐکو عام کرنے کی توفیق نصیب فرمائے ۔