حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اﷲ علیہ دل و روح کے حکمراں

   

ہندوستا ن کی سرزمین مذاہب وادیان کا گہوارہ رہی ہے۔ یہاں ہر زمانے میں مذہبی رہنما اوراخلاق وانسانیت کا درس دینے والے پیدا ہوتے رہے ہیں، اسی لیے اس کی خمیر میںروحانیت رچی بسی ہے، تاہم گردش ایام نے یہاں کی مذہبیت کو متاثر کیا۔ لوگوں کے ایک بہت بڑے طبقہ نے انسانیت کا سبق بھلا دیا اور مادی بھول بھلیوں میں کھوگیا۔ خود مذہب کے نام پر لوگوںکا استحصال کیا جانے لگا۔ ایسے ماحول میں نور تصوف و روحانیت کی قندیل لے کر حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ سرزمین ہند میں وارد ہوئے اور ہندوستان کے ایک اہم مقام اجمیر میں قیام پذیر ہوئے۔ یہ ان کے قدموں کی برکت تھی کہ رائے پتھورا کا اجمیر اب ہمیشہ کیلئے اجمیر شریف ہوگیا اور ہمیشہ کے لیے حضرت خواجہ غریب نواز سے وابستہ ہوگیا۔
سرزمین ہند پر حضرت خواجۂ اجمیری کا ورود مسعود کوئی سادہ واقعہ نہیں ہے، بلکہ ایک عہد ساز، عہد آفریں اور انقلاب انگیز آغاز ہے، جس نے مستقبل کے ہندوستان کی تعمیر کی۔ حضرت خواجہ غریب نواز نے تصوف کے سلسلۂ چشتیہ کی اور اس سلسلے نے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی بنیاد رکھی، جس کی کلاہ افتخار میں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، حضرت بابافریدالدین گنج شکر، حضرت مخدوم علاء الدین صابر کلیری، محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیا، حضرت شاہ نصیرالدین چراغ دہلی، سدابہار مؤرخ، ادیب و شاعر، موسیقار، بے زبانوں کی زبان امیر خسرو اور خواجہ بندہ نواز گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہم اجمعین جیسے گراں بہا ہیرے جڑے ہوئے ہیں۔ اس سلسلہ نے یہاں کے مذہب، سماج، معاشرت، ادب، لوک ادب، موسیقی، سیاست، معیشت ہرچیز کو متاثر کیا اور ایک ایسی تہذیبی و ثقافتی عمارت کھڑی کی، جس کے شاندار آثار آج بھی ایستادہ ہیں۔

حضرت خواجۂ اجمیری کا اصل وطن سجستان تھا۔ وہاں صحیح روایت کے مطابق ۱۸؍ اپریل ۱۱۴۳ء کو ان کی ولادت ہوئی، بچپن میں ہی یتیم ہوگئے تھے، والد کا ورثہ کفالت کے لیے کافی تھا، جس سے اچھی گزر بسر ہوتی تھی۔ لیکن دست قدرت نے حضرت کو خود پروری کے لیے نہیں عالم پروری کے لیے پردۂ امکان میں ظہور بخشا تھا۔ بہت جلد ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ حضرت نے تمام مال و اسباب فروخت کرکے غرباء میں تقسیم کیا اور غریب الوطنی کی راہ اختیار کی۔ طویل سفر میں ظاہری اور باطنی علوم کی تکمیل کی، بغداد میں مقیم رہے، حج و زیارت سے بہرہ مند ہوئے اور ایک اشارۂ غیبی کے تحت ہندوستان تشریف لائے۔ پہلے لاہور میں حضرت داتا صاحب کے روضہ پر چلہ کشی کی، اس کے بعد ملتان تشریف لے گئے، پھر دہلی ہوتے ہوئے آخر اجمیر میں قیام کیا۔

اجمیر میں حضرت خواجہ غریب نواز کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جن کا اصل محرک وہاں کا راجہ پرتھوی راج چوہان تھا۔ جب اس کی ایذا رسانی حد سے بڑھی تو حضرت کی زبان مبارک سے نکلا کہ ’’ہم نے پتھورا کو زندہ، سلطان شہاب الدین کے سپرد کردیا‘‘۔ بعد میں یہ پیش گوئی حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی اور اس طرح اجمیر میں حضرت کو ایک مستقل مرجعیت حاصل ہوگئی۔ حضرت نے اجمیر میں کم و بیش چالیس سال قیام کیا۔ اس طویل قیام کے دوران آپ ہمیشہ اجمیر میں ہی رہے، صرف ایک مرتبہ دہلی کا سفر کیا اور ایک روایت کے مطابق دو دفعہ دہلی کا سفر کیا، ورنہ مستقل بود و باش اجمیر میں ہی رہی۔

حضرت خواجہ غریب نواز کے مرشد خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ نے حضرت کو ایک نصیحت کی تھی کہ ’’اے معین الدین! اب تم نے فقیری اختیار کرلی ہے، اس کا تقاضہ ہے کہ فقیروں کی طرح اعمال کرنا اور وہ اعمال یہ ہیں: غریبوں سے محبت کرنا، ناداروں کی خدمت کرنا، برائیوں سے اجتناب کرنا، مصیبت اور پریشانی میں ثابت قدم رہنا‘‘۔ حضرت خواجہ غریب نواز نے اس نصیحت کو حرز جان بنایا اور اس ملک کے غریب و پسماندہ اور دبے کچلے لوگوں کے لیے ابر رحمت بن کر برسے۔ آپ نے بلاتفریق مذہب و ملت ہر ایک کی خبرگیری کی، دُکھی دلوں کے لیے مرہم کا کام کیا اور نہ صرف خود اس کا عملی نمونہ بنے، بلکہ ایک مستقل سلسلہ قائم کیا، جس نے پہلے دہلی کو اپنا مرکز بنایا اور پھر ملک کے طول و عرض میں اس کی نورانی کرنیں پھیل گئیں۔ پھر امن و آشتی، محبت و یقین، عزم و حوصلہ، جرأت و ہمت، نیز خدمت خلق، خدا پرستی اور اپنے مالک سے براہ راست ربط و تعلق کی جو بنیاد استوار کی اور جو پیغام دیا، وہ پورے ملک کے عوام کے لیے رحمت کا پیغام بن گیا۔

حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی ذاتی زندگی ان کے متوسلین کے لیے نمونہ تھی۔ انھوں نے اپنی زندگی اور فقیر منشی کے ذریعہ لوگوں کو سادگی کا درس دیا۔ وہ اکثر پیوند لگے کپڑے پہنتے تھے، اکثر روزے رکھتے تھے، کھانا مختصر تناول فرماتے تھے۔ ان کا پیغام تھا کہ لباس سترپوشی کے لیے ہے اور غذا انسانی زندگی کی بقا کے لیے۔ کھانا اور کپڑا مقصد حیات نہیں بلکہ وسائل حیات ہیں۔ انسان کو زندگی ایک بڑے مقصد کے لیے بطور عطیہ دی گئی ہے اور وہ مقصد عبادت الٰہی اور خدمت خلق ہے، اس لیے زندگی کو اسی مقصد میں صرف کرنا چاہیے، محض حیوانی جذبات کی تسکین میں نہیں۔ اپنی زندگی کے عملی نمونے سے انھوں نے جو درس دیا، وہی ان کی تعلیمات میں بھی جھلکتا ہے۔ ان کے سب سے بڑے خلیفہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی تعلیمات کو ملفوظات کی شکل میں مرتب کردیا ہے، جو دلیل العارفین کے نام سے کتابی شکل میں موجود ہیں۔ حضرت خواجہ غریب نواز کی شخصیت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ آپ کی زندگی میں آپ سے ہندو اور مسلمان دونوں ہی عقیدت رکھتے تھے اور یہ عقیدت آج بھی برقرار ہے۔ بڑے بڑے حکمراں اور صاحب ثروت آپ کے سامنے سرجھکاتے تھے۔ آپ کے معاصر میراں سید حسین خدنگ سوار جو قطب الدین ایبک کے عہد میں اجمیر کے حاکم تھے، انہوں نے اپنی عقیدت کا اظہار منجملہ دیگر طریقوں کے اس طرح بھی کیا کہ اپنی بہن بی بی عصمت سے آپ کا نکاح کردیا۔ آپ کے انتقال کے بعد آ پ کے تعلق سے لوگوںکی عقیدت میںمزید اضافہ ہوگیا، جس کا اندازہ اس واقعہ سے کیا جا سکتا ہے کہ شاہ جہاں کی صاحبزادی جہاں آراء بیگم دربار میں حاضر ہوئیں تو فرط عقیدت سے بے خود ہوگئیں اور دوپٹہ سے مزار کی خاک روبی کی سعادت حاصل کی اور غایت ادب کا یہ عالم تھا کہ جب تک اجمیر میں رہیں اس وقت تک ادھر قدم نہیں پھیلایا جدھر حضرت کا مزار منور تھا۔ہندوستان کے بادشاہوں میں غالباً سب سے زیادہ عقیدت و محبت کا اظہار جلال الدین اکبر نے کیا، وہ اکثر ایک عام زائر کی طرح بڑی مسافت طے کرکے مزار اقدس تک پاپیادہ گیا۔ اکبر نے ہی بڑی دیگ بنوائی۔ جہانگیر اور شاہ جہاں نے بھی اس دربار میں حاضری دی۔ اورنگ زیب عالم گیر جو اپنے ایک خاص مزاج کے لیے مشہور ہیں، لیکن حضرت کے دربار میں ان کی بھی جبین عقیدت خم ہوگئی۔ وہ کئی دفعہ اجمیر گئے اور مزار پر حاضری دینے جاتے تو اپنے مستقر سے روضہ تک پیدل جاتے تھے اور مزار پر نذرانہ بھی پیش کرتے تھے۔

سلاطین و حکمراں تو زمین پر حکومت کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان کی حکومت صرف ایک عہد تک محدود ہوتی ہے، لیکن دل و روح کے حکمرانوں کی حکومت خود زمین کے بادشاہوں پر بھی ہوتی ہے اور زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتی ہے۔ ان کی پادشاہی فقیری ہوتی ہے۔ وہ فقیر ہوتے ہوئے بھی دلوں کے بادشاہ ہوتے ہیں۔ ان کی بادشاہی زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتی ہے اور جسم و روح دونوں پر ہوتی ہے۔ حضرت خواجہ غریب نواز بھی دل و روح کے حکمراں تھے۔ مختلف ملکوں کے حکمران ہر زمانے میں ان کے روضہ پر حاضری کو سعادت سمجھتے رہے اور حکمراں ہی کیا امیر و غریب ہر طرح کے لوگ حاضری دیتے رہے۔ آج بھی لاکھوں عقیدت مند ان کے دربار میں اس امنگ اور جذبے سے جاتے ہیں، جو جذبہ لے کر عہد وسطی کے سلاطین جاتے تھے۔ اس فقیر بے نوا کے مزار پر کشاں کشاں عقیدت مندوں کا ہجوم، ان کی بادشاہی اور ان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔